مشرکین مکہ اور منکرین عذاب القبر کے عقیدہ میں مماثلت

تحریر: ڈاکٹرابو جابرعبداللہ دامانوی

منکرین عذاب القبر نے اب عذاب قبر کا صاف الفاظ میں نہ صرف انکار کردیا ہے بلکہ اس سلسلہ میں جو صحیح صریح احادیث مروی ہیں ان سب کا بھی انکار کردیا ہے۔ اور اس طرح احادیث صحیحہ کا انکار کرکے وہ سرحد پار کرچکے ہیں اور ابھی ان کے اس کفر کی بازگشت جاری تھی کہ ان کی طرف سے ایک دوسرا نیا عقیدہ بھی سامنے آگیا ہے اور وہ عقیدہ خلق قرآن کا ہے یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے۔ یہ عقیدہ امام احمد بن حنبلؒ کی دشمنی کی بناپر اختیارکیا گیا ہے ۔ اس عقیدہ کی وضاحت سے بالکل واضح ہوجائے گا کہ اصلی کافر کون ہے؟ یعنی امام احمد بن حنبلؒ یا منکرینِ عذابِ قبر۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عذابِ قبر کا ایک منکر اور امام احمد بن حنبلؒ کا شدید دشمن ابو انور گدون قرآن کے متعلق اپنا خبیث عقیدہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

“خلق قرآن کا مسئلہ ایک غیر ضروری اور فروعی مسئلہ تھا، جس کو سازش کے تحت دینِ اسلام کا بنیادی مسئلہ بنا دیا گیا اور پھر قرآن کو مخلوق سمجھنے یا اس غیر ضروری بات پر خاموشی اختیار کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگنے شروع ہوئے حالانکہ عام فہم کی بات ہے کہ دنیا میں جو قرآن موجود ہے و ہ کاغذ یا چمڑے پر لکھا گیا ہے اور چونکہ کاغذ، چمڑا اور سیاہی مخلوق  ہیں اس  لئے دنیا میں ان چیزوں پر لکھا ہوا اور ان سے بنا ہوا قرآن بھی مخلوق ہوگا جو آگ میں جل کر یا پانی میں گھل کر فنا ہوجاتا ہے ہاں لوح محفوظ میں لکھا ہوا قرآن اللہ  کے پاس محفوظ ہے اسے نہ مٹنا ہے اور نہ فنا ہونا ہے ” آگے لکھتا ہے “اللہ خالق ہے اور ہر چیز مخلوق قرآن کی قسم کھانا اسی لئے حرام ہے کہ قسم صرف اللہ (خالق) کی کھائی جاسکتی ہے ، مخلوق کی نہیں” (دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی ص ۱۲۰)

موصوف کی تحقیق یا ہفوات آپ نے ملاحظہ فرمائیں۔ موصوف کے نزدیک:
۱:        خلق قرآن کا مسئلہ ایک غیر ضروری اور فروعی مسئلہ ہے۔
۲:        سازش کے تحت اس مسئلہ کو دین اسلام کا بنیادی مسئلہ بنا دیا گیا۔
۳:       انہی سازشی عناصر نے قرآن کو مخلوق کہنے والو ں پر کفر کے فتوے لگائے۔
۴:       دنیا میں جو قرآن بھیجا گیا ہے وہ مخلوق اور حادث ہے (معاذ اللہ) اور اللہ کے پاس جو قرآن ہے تو وہ ہمیشہ رہے گا یعنی موصوف کا نظریہ ہے کہ قرآن دو ہیں۔ ایک دنیا میں اور دوسرا لوحِ محفوظ میں۔ اور دنیا کی سیاہی ، کاغذ وغیرہ مخلوق ہیں لیکن اس کے نزدیک لوحِ محفوظ مخلوق نہیں ہے ۔ گویا موصوف بھی شیعوں کی طرح دو قرآن کا عقیدہ رکھتا ہے۔علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں:

“جمہور محدثین کرام کے نزدیک لوحِ محفوظ اور لوگوں کے درمیان والے مصحف میں کوئی فرق نہیں” (میزان ۱۶/۲)

موصوف قرآن کریم کو کیوں مانتا ہے اس کی وجہ تحریر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”اسی طرح قرآن کریم کو بھی ہم لوگوں کے کہنے کی وجہ سے کتاب اللہ تسلیم کرتے ہیں جو بالکل سچی کتاب ہے“ (حبل اللہ ص ۱۴ مجلّہ نمبر ۱۱) یہ ہے موصوف کا قرآن کریم کے متعلق نظریہ کہ وہ قرآن کریم کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کہنے پر نہیں بلکہ لوگوں کو کہنے پر کتاب اللہ مانتے ہیں۔ یہ ہیں ڈاکٹر عثمانی صاحب کے مایۂ ناز شاگرد اور یہ ہے ان کا مایۂ ناز عقیدہ!!!!! اور ابھی اللہ تعالیٰ محدثین کرام (جو اولیاء اللہ ہیں) کے دشمنوں کو مزید ذلیل و رسوا کرے گا۔إن شااللہ العزیز موصوف نے تحریر کیا  کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ باقی ہر چیز مخلوق ہے، اس طرح موصوف اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے جہمیہ وغیرہ کی طرح منکر ہے۔
اسے کہتے ہیں کہ الٹی گنگا بہنا۔ اللہ تعالیٰ ایسی الٹی کھوپڑی کسی کو نہ دے، جیسی موصوف کو عطا کی گئی ہے  کیونکہ وہ ہرصحیح بات سے غلط نتیجہ اخذ کرنے کا عادی ہے ۔ موصوف اپنے استاد کی طرح ہر معاملہ کا سیاہ پہلو دیکھنے کا ہی عادی ہے۔ خلق قرآن کا مسئلہ اہل حق کی نگاہ میں انتہائی اہم اور بنیادی مسئلہ تھا۔ اور جن کو موصوف نے اسلام دشمن اور سازشی عناصر قرار دیا ہے وہ اہل حق یعنی محدثین کرام اور سلف صالحین ہیں۔ موصوف چونکہ جہمیہ کے عقائد کا حامل ہے لہذا اہل حق کو وہ اسلام دشمن اور سازشی باور کروا رہا ہے جب کہ معاملہ اس کے الٹ ہے ۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔  وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
چنانچہ موصوف لکھتا ہے :”اسلام دشمن، سازشی عناصر مسلمانوں کے  اندر بدعقیدگی  اور قبر پرستی پھیلانے کے لئے کسی موقع کی تلاش میں تھے اور یہ موقع ان کو اس وقت ہاتھ آیا جب مسلمانوں کے اندر خلق قرآن کا غیر ضروری اور متصوفانہ مسئلہ کھڑا کرکے یہ فلسفیانہ بحث چھیڑ دی گئی کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔ مسلمانوں کے خلاف سازش اور بدنیتی پر مبنی اس فلسفیانہ موشگافی اور اس پر شروع ہونے والی منطقی اور کلامی بحث سے متاثر ہونے والوں میں ایک طرف احمد بن حنبلؒ بھی تھے  جو اس بحث میں خلق قرآن کی مخالفت میں سب سے آگے تھے۔” (ص ۱۲۰)
کسی نے سچ کہا ہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا                کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
المختصر یہ کہ : ان لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔
ابو انور جدون میں قرآن کو مخلوق قرار دے کر اس کے کلام اللہ ہونے سے انکار کر دیا ہے اور یہ عقیدہ مشرکین مکہ کا بھی تھا اور وہ پورے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کیا کرتے تھے کہ قرآن محمد ﷺ کا گھڑا  ہوا ہے یعنی مخلوق ہے ۔ موصوف اور اس کے ہمنوا امام احمد بن حنبلؒ کی دشمنی میں کہاں تک جاپہنچے ہیں اور کن لوگوں کو انہوں نے اپنا پیشوا اور رہبر و رہنما مان لیا ہے کہ دوسروں پر کفر و شرک کے فتوے داغتے داغتے  کن لوگوں کی صفوں میں جا کھڑے ہوئے  ہیں؟ دشمنانِ احمد بن حنبلؒ کا یہ عبرتناک انجام اب دنیا والوں کے سامنے ہے اور اللہ کے اولیاء سے دشمنی رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ اسی طرح ذلیل و خوار کرتا ہے ۔  فاعتبروایااولی الابصار
اس سلسلہ کی قرآن کریم کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
﴿وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾  قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ لِیُـثَبِّتَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾  وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ؕ لِسَانُ الَّذِیۡ یُلۡحِدُوۡنَ اِلَیۡہِ اَعۡجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۰۳﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۙ لَا یَہۡدِیۡہِمُ اللّٰہُ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾ اِنَّمَا یَفۡتَرِی الۡکَذِبَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾﴾
“جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے ۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ ان سے کہو کہ اسے روح القدس (جبریل) نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے۔ ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ (جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔”     (النحل :۱۰۱ تا ۱۰۵)
ثابت ہوا کہ مشرکین مکہ قرآن کریم کو اللہ کا کلام ماننے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کا گھڑا ہوا کلام مانتے تھے اور کبھی یہ الزام بھی لگاتے کہ اسے ایک عجمی یہ کلام سکھا جاتا ہے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
﴿وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵﴾ قُلۡ لَّوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوۡتُہٗ عَلَیۡکُمۡ وَ لَاۤ اَدۡرٰىکُمۡ بِہٖ ۫ۖ فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶﴾ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿۱۷﴾ ﴾
”جب انہیں ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کی بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ (اے محمدﷺ) ان سے کہو ”میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کرلوں میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے“ اور کہو ”اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے ۔ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔“ (یونس :۱۵ تا ۱۷)
یعنی میں عمر ایک بڑا حصہ تمہارے درمیان گزار چکا ہوں اگر یہ قرآن میرا بنایا ہوا ہوتا تو میں اس سے پہلے ہی تمہیں یہ قرآن سنا چکا ہوتالیکن نبوت ملنے سے پہلے میرے تصور میں بھی ایسا کلام نہیں تھا اور اب تم مجھے یہ الزام دے رہے ہو کہ یہ کلام میں نے گھڑ لیا ہے۔ اس سورۃ یونس میں آگے ارشاد  فرمایا:
﴿وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۟۳۷﴾ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾ بَلۡ کَذَّبُوۡا بِمَا لَمۡ یُحِیۡطُوۡا بِعِلۡمِہٖ وَ لَمَّا یَاۡتِہِمۡ تَاۡوِیۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۹﴾﴾
”اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کرلیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے ؟ کہو اگر تم اپنے اس دعوے و الزام میں سچے ہو تو ایک سورۃ اس جیسی تصنیف کرلاؤ اور اللہ کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لئے بلالو۔ اصل یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مال بھی ان کے سامنے نہیں آیا اس کو انہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچو) جھٹلا دیا۔ اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔“ (یونس : ۳۷ تا ۳۹)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں مشرکین مکہ کے اس مجموعی طرزِ عمل کا ذکر کیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو اللہ کا کلام ماننے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کا کلام مانتے تھے وہاں اللہ تعالیٰ نے مکہ کے ایک بڑے سردار اور رئیس ولید بن مغیرہ کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے اور اس کے غرور تکبر کے ساتھ اعراض و انکار و استکبار اور غور و فکر کے مکمل انداز اور اس کی ظاہری اداکاری کا ذکر کرتے ہوئے اس کے قول کو نقل کیا ہے:

﴿فَقَالَ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ ﴿ؕ۲۵﴾﴾
”پھر کہا یہ کچھ نہیں مگر ایک جادو جو پہلے چلا آرہا ہے ۔ یہ تو ایک بشر کا کلام ہے۔“ (المدثر : ۲۵،۲۴)

رسو ل اللہ ﷺ قرآن کریم گھڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾ وَ لَا بِقَوۡلِ کَاہِنٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۳﴾ وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۴﴾ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۫ۖ۴۶﴾ فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ ﴿۴۷﴾ وَ اِنَّہٗ لَتَذۡکِرَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۸﴾ وَ اِنَّا لَنَعۡلَمُ اَنَّ مِنۡکُمۡ مُّکَذِّبِیۡنَ ﴿۴۹﴾ وَ اِنَّہٗ لَحَسۡرَۃٌ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۵۰﴾ وَ اِنَّہٗ لَحَقُّ الۡیَقِیۡنِ ﴿۵۱﴾ فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪۵۲﴾﴾
”یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے ۔ اور نہ کسی کاہن کا قول ہے (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔ (یہ قرآن تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے ۔ اور اگر یہ(نبی) ہم پر کوئی بات بنا لیتا۔ تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ۔ پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ یقیناً یہ قرآن پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے۔ ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس کے جھٹلانے والے ہیں۔ بے شک ، (یہ جھٹلانا) کافروں پر حسرت ہے۔ اور بے شک (و شبہ) یہ یقینی حق ہے۔ پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر۔“ (الحآقۃ:۴۱ تا ۵۲)
رسول اللہ ﷺ وحی الٰہی کے بغیر لب کشائی نہیں فرمایا کرتے تھے:

﴿وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾”اور نبی (ﷺ) اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔“ (النجم : ۳،۴)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

﴿وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶﴾﴾          ”اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ (اللہ کا کلام) سن لے پھر اسے اس کے مأمن (ٹھکانے) تک پہنچا دو۔ یہ اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے“ (التوبۃ:۶)

قرآن کریم کی تلاوت اگرچہ انسان ہی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ اسے کلام اللہ قرار دیتا ہے ۔ قرآن کریم کا ایک نام “الکتاب” بھی ہے اور کتاب کا مطلب ہے “لکھی ہوئی تحریر” اگرچہ سیاہی،کاغذ، چمڑا ، ہڈی وغیرہ مخلوق ہیں، لیکن قرآن جب کتابی شکل اختیار کرلیتا ہے تو ”کتاب اللہ“ بن جاتا ہے ۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے :
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُدۡعَوۡنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ وَ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
”تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے ان کا کیا حال ہے؟ انہیں جب ”کتاب اللہ“ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے۔“ (آل عمران: ۲۳)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ﴾  یہ وہ (عظیم الشان) کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں۔ (البقرۃ:۲)یعنی اس کتاب قرآن مجید کے ”کلام اللہ“ ہونے میں کوئی شک نہیں یہ اور بات ہے کہ موصوف کو اس کے ”کلام اللہ“ ہونے یا ”کتاب اللہ“ ہونے میں شک ہے۔

مزید تفصیل کے لئے  راقم الحروف کی کتاب ”دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف“ کا مطالعہ فرمائیں۔ اہل اسلام سے کوئی شخص کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ قرآن کریم اللہ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری امت کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے۔ اور جو شخص قرآن کریم کو مخلوق کہتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔
ان آیات کے تفصیلی بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے یہ مشرکین مکہ کا عقیدہ تھا اور یہی عقیدہ جہاں جہمیہ اور پھر معتزلہ فرقہ نے اختیار کرلیا تھا انہی کی پیروی اور تقلید میں موصوف نے بھی اس عقیدہ کو اپنا لیا ہے اور اسطرح  وہ مشرکین مکہ کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن گئے امام احمد بن حنبلؒ اور محدثین کرام پر کفر و شرک کے فتوے داغنے اور ان پر بھونکنے کی وجہ سے اللہ نے اسے اور اس کی عثمانی پارٹی کو مشرکین مکہ کا ہم پلہ اور حق کا منکر بنا دیا۔ اور نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد مبارکہ یہاں بالکل درست اور ٹھیک ثابت ہوا کہ ”جو شخص کسی (مسلم) شخص کو کافر کہے یا اللہ کا دشمن کہے اور وہ ایسا نہ ہو تو یہ کلمہ کہنے والے پر لوٹ پڑتا ہے۔“
 (بخاری : ۶۱۰۴ و مسلم : ۶۰/۱۱۱ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص       ۴۱۱ ح ۴۸۱۵)
اور یہ بات اب مشاہدہ میں آچکی ہے ۔ نیز اس سلسلہ کی مزید تفصیل درج ذیل آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔
یوسف : ۱۱۱، ھود:۱۳،۳۵ ، الانبیآء:۵، الفرقان:۴، السجدۃ:۳، الاحقاف:۸

ھذا ماعندی واللہ أعلم بالصواب۔ کتبہ ابو جابر عبداللہ دامانوی یوم السبت ۲۳ شوال ۱۴۲۶؁ھ ، ۲۶ نومبر ۲۰۰۵؁ء.

امام سفیان بن عیینہؒ نے فرمایا:”أدرکت مشیخننا مذسبعین سنۃ، منھم عمرو بن دینار، یقولون: القرآن کلام اللہ ولیس بمخلوق“ میں نے ستر سال سے استادوں کو بشمول عمرو بن دینار (تابعی) یہی بات کہتے پایا ہے کہ :قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔   (خلق أفعال العباد للبخاری ص ۷ ح ۱ وسندہ صحیح، التاریخ الکبیر للبخاری ۳۳۸/۲ ت ۲۶۶۶ وسندہ صحیح)
درج ذیل محدثین کرام قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق مانتے تھے۔اور اس شخص کو کافر و زندیق سمجھتے تھے جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے۔

یزید بن ہارون  (مسائل ابی داؤد ص ۲۶۸ و سندہ حسن، شاذ بن یحییٰ الواسطی حسن الحدیث ، وخلق افعال العباد ص ۸ ح ۷)

عبداللہ بن ادریس  (خلق افعال العباد ص ۸ ج ۵ وسندہ صحیح)

ابو الولید الطیالسی  (مسائل ابی داؤد ص ۲۶۶ و سندہ صحیح، خلق افعال العباد ص ۱۱ ح ۳۴)

علی بن عبداللہ المدینی  (خلق افعال العباد ص ۱۱ح ۳۲ و سندہ صحیح)

یحییٰ بن معین  (کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ج۱ ص ۱۲۸ ح ۶۸ و سندہ صحیح)

اس طرح کہ اور بہت سے آثار سلف صالحین سے ثابت ہیں اور اس پر محدثین کرام کا اجماع ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے ۔ دیکھئے مسائل  ابی داؤد (ص۲۶۶) والشریعۃ للآجری (ص ۷۵ تا ۹۳)

نوٹ:اس مسئلے (قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے )پر اگر کوئی شخص صحیح و ثابت آثارِ سلف صالحین باحوالہ جمع کرے تو اسے شائع کرنے کے لئے ”توحید ڈاٹ کام“ کے صفحات حاضر ہیں۔ بعض مبتدعین کلام لفظی اور کلامِ نفسی کے درمیان فرق کرتے ہیں ان کا مدلل رد بھی مطلوب ہے۔

اس تحریر کو اب تک 14 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply