مایوسی کی حالت میں موت کی تمنا

فتویٰ : مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ ابن عثمین رحمہ اللہ

سوال : مجھے زندگی میں ایسی مشکلات کا سامنا ہے جن کی بناء پر مجھے زندگی سے نفرت ہو گئی ہے۔ جب تنگ دلی کا شکار ہوتی ہوں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کرتی ہوں کہ وہ فوراً میری زندگی کا خاتمہ کر دے۔ میری اب بھی یہی آرزو ہے کیونکہ موت کے علاوہ میری مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مایوس کن حالات میں میرے لئے موت کی تمنا کرنا حرام ہے ؟
جواب : کسی مصیبت کے پیش نظر موت کی آرزو کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام اور منع کردہ اشیاء کا ارتکاب کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه، فإن كان لأبد فاعلا فليقل : اللهم أحينى ما كانت الحياة خيرا لى، وتوفى ما إذا كانت الوفاة خيرا لى [رواه البخاري باب تمنى المريض الموت]
”تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے اگر اسے ضرور ہی ایسا کرنا ہے تو یوں کہہ لے : اے اللہ ! جب تک (تیرے علم میں) میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھنا اور جب موت بہتر ہو تو مجھے موت دے دینا۔“
لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے کسی مصیبت، تنگی یا مشکل کی وجہ سے موت کی آرزو کرنا جائز نہیں ہے ایسا شخص صبر کرئے۔ اللہ تعالیٰ سے ثواب کا طلبگار رہے اور حالات کی بہتری کے لئے اس سے امید رکھے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
واعلم أن النصر مع الصبر، وأن الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسرا [رواه أحمد]
”جان لیجئیے کہ مدد صبر کے ساتھ، غموں کی دوری مصائب کے ساتھ اور آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔“
ہر مصیبت زدہ شخص کو یقین رکھنا چاہے کہ مصائب اس کی گزشتہ خطاؤں کا کفارہ ہیں۔ بندہ مومن کو جب بھی کوئی پریشانی، غم و اندوہ یا تکلیف وغیرہ آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتے ہیں۔ صبر و احتساب کے ساتھ ہی بندہ اس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہوتا ہے جس کے متعلق ارشار باری تعالیٰ ہے :
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ٭ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [2-البقرة:155]
”اے پیغمبر ! صبر کرنے والوں کو خوشخبری د یجئیے وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔“
جو خاتون موت کو ہی اپنی جملہ مشکلات کا حل سمجھتی ہے، تو میری رائے میں یہ ایک غلط سوچ ہے، کیونکہ موت مشکلات و آلام کا حل نہیں، بلکہ وہ شخص مرنے کے بعد اخروی عذاب سے جلد دوچار ہو گا جو زندگی بھر اپنے آپ پر زیادتی کا مرتکب ہوتا رہا اور گناہوں سے کنارہ کش نہ ہوا اور نہ ہی اپنے مالک کے حضور معافی کا خواستگار ہوا۔ اس کے برعکس اگر وہ زندہ رہا، اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار، صبر و استقامت اور مصائب کو برداشت کرنے اور آسودہ حالی کے انتظار کی توفیق بخشی تو اس میں اس کے لئے خیر کثر موجود ہے۔
لہٰذا محترمہ ! آپ صبر کا دامن تھامیں، استقامت کا مظاہرہ کریں اور رب العزت کی طرف سے آسودہ حالی کا انتظار کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ٭ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا [94-الشرح:5]
”بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
واعلم أن النصر مع الصبر، وأن الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسرا [رواه أحمد]
”جان لیجئے کہ مدد صبر کے ساتھ، کشادگی مصائب کے ساتھ اور آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔“

 

یہ تحریر اب تک 13 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply