لولاک ما خلقت الأفلاک اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان (و زمین) پیدا نہ کرتا!

سوال : محترم حافط زبیر علی زئی صاحب کیا یہ بات صحیح ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا نہ کرتا۔ وضاحت فرمائیں۔ (محمد ندیم سلفی، سرکلر روڈ راولپنڈی)
الجواب : بعض الناس یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لولاك ما خلقت الأفلاك ” (اے نبی ! ) اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان (و زمین) پیدا نہ کرتا۔“
اس جملے کا کوئی ثبوت حدیث کی کسی کتاب میں باسند موجود نہیں ہے۔ اس بے سند جملے کو شیخ حسن بن محمد الصغانی (متوفی 650؁ھ) نے ”موضوع“ یعنی من گھڑت قرار دیا۔ دیکھئے : موضوعات الصغانی [78] و تذکرۃ الموضوعات [ص 86] لمحمد طاہر الفتنی الہندی (متوفی 986؁ھ) الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی [ص 326] الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لملا علی القاری الحنفی [385] کشف الخفاء للعجلونی [2123] اور الآثار المرفوعۃفی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحئی اللکنوی [ص 40 ]

تنبیہ : عجلونی اور ملا علی قاری نے حسن الصغانی سے اس جملے کا ” موضوع“ ہونا نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ”معناہ صحیح“ یعنی اس (موضوع روایت کا ) معنی صحیح ہے۔ !

عرض ہے کہ جب یہ روایت باطل، من گھڑت اور اللہ و رسول پر افتراء ہے تو کس دلیل سے اس کے معنی کو صحیح کہا گیا ہے ؟
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ أتاني جبريل فقال : يا محمد ! لولاك ما خلقت الجنة ولولاك ما خلقت النار میرے پاس جبریل آئے تو کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت پیدا نہ کرتا اور آپ نہ ہوتے تو میں (جہنم کی) آگ پیدا نہ کرتا۔ [الاسرار المرفوعة ص 288 ]
یہ روایت کنز العمال [431/11 ح 32025] اور کشف الخفاء [45/1 ح 91] میں بحوالہ دیلمی عن ابن عباس (ابن عمر ) منقول ہے۔ دیلمی (متوفی 509؁ھ) کی کتاب فردوس الاخبار میں یہ روایت بلا سند و بلا حوالہ مذکور ہے۔ [338/5 ح 8095 ]
معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی بے سند و بے حوالہ ہونے کی وجہ سے موضوع و مردود ہے۔

محدث احمد بن محمد بن ہارون بن یزید الخلال (متوفی 311؁ھ) نے بغیر کسی سند و حوالے کے نقل کیا ہے کہ يا محمد ! لولاك ما خلقت آدم
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا۔ [السنة ص 237 ح 273 ]

یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع و مردود ہے۔

ملا علی قاری نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ لولاك ما خلقت الدنيا
”اگر آپ نہ ہوتے تو دنیا پیدا نہ کی جاتی یا میں دنیا پیدا نہ کرتا۔“ [الاسرار المرفوعة ص 288 ]

ابن عساکر والی روایت تاریخ دمشق [296/3، 297] کتاب الموضوعات لابن الجوزی [288/1، 289] اور اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی [272/1] میں موجود ہے۔
◈ ابن جوزی نے کہا:
هٰذا حديث موضوع لا شك فيه، وفي إسناده مجهولان و ضعفاء فمن الضعفاء أبو السگين و إبراهيم بن اليسع، قال الدارقطني : أبو السكين ضعيف، و إبراهيم و يحيي البصري متروكان، قال أحمد بن الحنبل : خرقت أحاديث يحيي البصري وقال الفلاس : كان كذابا يحدث أحاديث موضوعة وقال الدارقطني : متروك [ كتاب الموضوعات نسخه محققه ج 2 ص 19 ح 549، نسخه قديمه 289/1، 290 ]
یعنی (ابن جوزی کے نزدیک ) یہ حدیث بلاشک و شبہ موضوع ہے اور اس کے تین راوی ابوالسکین، ابراہیم بن الیسع اور یحییٰ البصری مجروح ہیں۔ ملخصًا
◈ سیوطی نے کہا: ”موضوع ” یہ روایت موضوع ہے۔ [اللآلي المصنوعة 272/1 ]
اس کا راوی خلیل بن مرہ بھی ضعیف ہے۔ [ديكهئے تقريب التهذيب : 1757 ]

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ولولا محمد ما خلقتك (اے آدم ! ) اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ [المستدرك للحاكم 615/2 ح 4228 وقال : “هٰذا حديث صحيح الإسناد“ ]

اس روایت کو اگرچہ حاکم نے صحیح الاسناد کہا: ہے لیکن یہ روایت کئی وجہ سے موضوع ہے :
➊ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
بل موضوع و عبدالرحمٰن واه
” بلکہ یہ روایت موضوع ہے اور عبدالرحمٰن (بن زید بن اسلم) سخت کمزور راوی ہے۔“ [ تلخيص المستدرك ج 2 ص 672 ]
➋ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں خود حاکم لکھتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفي عليٰ من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
” اس نے اپنے ابا (زید بن اسلم) سے موضوع حدیثیں بیان کی ہیں۔ حدیث کا علم جاننے والوں پر یہ مخفی نہیں ہے کہ ان موضوع روایات کی وجہ سے یہ شخص بذاتِ خود ہے۔“ [المدخل الي الصحيح ص 154 رقم : 97]
یعنی اس نے اپنے باپ پر جھوٹ بولتے ہوئے حدیثیں گھڑی ہیں۔

تنبیہ : مستدرک والی روایت بھی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ـــــــــــــ بشرطِ صحت اپنے باپ ہی سے بیان کرتا ہے۔

➌ عبداللہ بن مسلم الفہری نامعلوم (مجہول) ہے یا وہ عبداللہ بن مسلم بن رشید (مشہور کذاب) ہے۔ دیکھئے لسان المیزان [ج3 ص 359، 360 طبعه جديده ج 4 ص 161، 162 ]
معلوم ہوا کہ اس موضوع روایت کو حاکم کا ”صحیح الإسناد“ کہنا ان کی غلطی ہے۔

مستدرک کی ایک دوسری روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنة ولا النار ”اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں جنت اور جہنم پیدا نہ کرتا۔ “ [615/2 ح 4227 وقال : هٰذا حديث صحيح الاسناد ]

یہ روایت کئی وجہ سے موضوع اور مردود ہے :
➊ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
أظنه موضوعا عليٰ سعيد
” میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت سعید (بن ابی عروبہ) کی طرف مکذوبًا منسوب کی گئی ہے۔“ [ تلخيص المستدرك 671/2 ]
➋ عمرو بن اوس مجہول ہے۔ [ديكهئے ميزان الاعتدال 246/3 و لسان الميزان 354/4 ]
➌ سعید بن ابی عروبہ مختلط ہیں۔
➍ سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں۔ اگر یہ روایت ان سے ثابت بھی ہوتی تو مردود تھی۔
➎ طبقات ابی الشیخ الاصبہانی [287/3 ح 494] میں جندل بن والق کی سند سے یہ روایت ثنا محمد بن عمر المحاربي عن سعيد بن أوس الأنصاري عن سعيد بن أبى عروبة… . إلخ کی سند سے مروی ہے۔ اس میں محمد بن عمر مجہول ہے جس نے عمرو بن اوس کو سعید بن اوس سے بدل دیا ہے۔
خلاصۃ التحقیق : لولاك ما خلقت الأفلاك اور اس مفہوم کی ساری روایات موضوع اور باطل ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ [ 51-الذاريات:56]
وما علينا إلا البلاغ (10/ جنوری 2007؁ھ)

یہ تحریر اب تک 127 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 2 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply