كفن پر لكھنا بدعت ہے

 تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

 

قبر میں شجرہ یا غلاف کعبہ یا عہد نامہ یا دیگر ”تبرکات“ کا رکھنا، نیز مردے کے کفن یا پیشانی پر انگلی یا مٹی یا کسی اور چیز سے عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا ناجائز اور بدعت سیہ اور قبیحہ ہے۔ یہ خانہ ساز دین، آسمانی دین کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث میں ان افعال قبیحہ پر کوئی دلیل نہیں، بلکہ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان کا قائل و فاعل نہیں۔ یہ بدعتیوں کی ایجادات ہیں۔ اہل سنت ان خرافات و بدعات سے بیزار ہیں، کیونکہ یہ انتہائی جرآت مندانہ اقدام دینِ الٰہی میں بگاڑ کا باعث ہے۔

ان افعال قبیحہ کے ثبوت پر پیش کیے گئے دلائل کا علمی جائزہ پیش خدمت ہے:

 

جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی (۱۳۲۴-۱۳۹۱ھ) لکھتے ہیں : 
”قبر میں بزرگان دین کے تبرکات اور غلافِ کعبہ و شجرہ یا عہد نامہ رکھنا مردہ کی بخشش کا وسیلہ ہے۔ قرآن فرماتا ہے : 
وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدہ : 35) ( جاء الحق از احمد یار خان نعیمی : ۳۳۶/۱)

 تبصرہ:

اس آیت کریمہ سے عہد نامہ وغیرہ کے جواز پر استدلال کرنا باطل ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت کریمہ سے یہ استدلال نہیں کیا۔ لہٰذا یہ کلام الٰہی کی معنوی تحریف ہے۔ 

اس آیت میں بالاتفاق وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں جیسا کہ مفسر قرآن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ( ۷۰۰-۷۷۴ ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 
وھذا الذی قاله ھؤلاء الأئمَة، لا خلاف فيه بين المفسّرين 
”ان ائمه نے جو کہا ہے ( کہ وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں ) ، اس میں مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔“ 
( تفسیر ابن کثیر : ۵۳۵/۲) 

بعض لوگ تمام مفسرین اور ائمہ اہل سنت کا اتفاقی معنیٰ ترک کر کے اپنی مرضی کا معنیٰ لیتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے سنی ہونے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، کیوں ؟ 

علامہ شاطبی رحمہ اللہ ( م ۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں : 
فكلّ من اتمد علی تقليد قول غير محقق أو رجع بغير معنی، فقد خلع الربقة، و استند إلی غير شرع، عافانا الله من ذلك بفضله، فھذه الطريقة في الفتيا من جملة البدع المحدثات في دين الله تعالیٰ كما أن تحكيم العقل علی الدين مطلقا محدث 
”ہر شخص جو کسی غیر ثابت شدہ قول کی تقلید پر اعتماد کرتا ہے یا بغیر کسی وجہ کے اسے راجع قرار دے، اس نے ( اسلام کی ) رسی اتار دی اور شریعت کے علاوہ کسی اور چیز پر اعتماد کر لیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسے کاموں سے بچائے۔ فتویٰ میں یہ طریقہ اختیار کرنا ان بدعات میں سے ہے، جو اللہ تعالیٰ کے دین میں نکالی گئی ہیں، جیسا کہ عقل کو دین پر حاکمیت دینا مطلق طور بدعت ہے۔“ 
( الاعتصام للشاطبی : ۱۷۹/۲)
 

نعیمی صاحب دوسری دلیل لکھتے ہیں : 
”یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے فرمایا تھا : 

اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَـٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا (سورہ یوسف : 93) 
”میری قمیض لے جا کر والد صاحب کے منہ پر ڈال دو، وہ انکھیارے ہو جائیں گے“، معلوم ہوا کہ بزرگوں کا لباس شفا بخشتا ہے، کیونکہ یہ ابراھیم علیہ السلام کی قمیض تھی، تو امید ہے کہ بزرگوں کا نام مردے کی عقل کھول دے اور جوابات یاد آ جائیں۔“ 
( جاء الحق از نعیمی : ۳۳۶/1)

تبصرہ:
 


یہ پیغمبر کا معجزہ تھا۔ معجزہ سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے، نیز سلف صالحین سے یہ بات ثابت نہیں، لہٰذا یہ دین نہیں۔ 

یہ کہنا کہ یہ ابراھیم علیہ السلام کی قمیض تھی، محض بے دلیل بات ہے، کیونکہ قرانِ مجید کی خلاف ورزی ہے۔ 
آیت کریمہ میں ہے کہ اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَـٰذَا ”میری یہ قمیض لے جاؤ“۔ 

نیز فرمایا : 
وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ( یوسف : ۱۸) 
”وہ ( اخوانِ یوسف ) ان ( سیدنا یوسف علیہ السلام) کی قمیض پر جھوٹا خون لائے “۔

 

جناب نعیمی صاحب تیسری دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند شریف اپنی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے کفن میں شامل فرما دیا تھا۔“ 
( جاء الحق از نعیمی : ۳۳۶/۱)
 

تبصرہ:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض بطور تبرک دی تھی اور تبرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ خاص تھا، اب کسی اور کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیاس نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
إنّ الصحابة بعد موته لم يقع من أحد منھم شيء من ذلك بالنسبة إلي من خلفة، إذ لم يترك النبی صلی الله عليه وسلم بعده فی الامة أفضل من أبی بكر صديق رضی الله عنه، فھو كان خليفته، ولم يفعل به شيء من ذلك، ولا عمر رضی الله عنه، وھو كان أفضل الأمة بعده، ثمّ كذلك عثمان، ثمّ علی، ثمّ سائر الصحابة الذين لا أحد أفضل منھم فی الأمة، ثمّ لم يثبت لو احد منھم من طريق صحيح معروف أن متبر كا تبرك به علی أحد تلك الوجوه أو نحوھا، بل اقتصروا فيھم علی الاقتداء بالافعال وألاقوال والسير الّتي اتّبعوا فيھا النبی صلی الله عليه وسلم، فھو إذا إجماع منھم علی ترك تلك الأشياء 
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے یہ ( تبرک ) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان ( صحابہ ) کے بارے میں انہوں ( دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک تبرکات پر اجماع ہے۔“ 
(کتاب الاعتصام للشطابی : (9-8/2 )

 

مفتی صاحب بطور دلیل شاہ عبدالعزیز کے فتاویٰ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں : 
”قبر میں شجرہ رکھنا بزرگان دین کا معمول ہے، لیکن اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے رکھیں۔ اس کو فقہاء منع کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مردے کے سر کی طرف قبر میں طاقچہ بنا کر شجرہ کاغذ میں رکھیں۔“ 
( جاء الحق : ۳۳۷/۱)

 

تبصرہ:

 

اگر بزرگان دین سے مراد سلف صالحین، ائمہ محدثین ہیں تو یہ سفید جھوٹ ہے اور اگر احناف مراد ہیں تو وہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین کی مخالفت میں ہمیشہ کمربستہ نظر آتے ہیں۔ 
اگر کوئی ان ”بزرگان دین“ سے قرآن و حدیث سے دلیل مانگ لے تو کیا جواب ملے گا ؟ یہ جسے چاہیں ممنوع ٹھہرا دیں اور جسے چاہیں جائز قرار دیں۔، جیسا کہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے شجرہ رکھنا ممنوع قرار دیا اور قبر میں طاقچہ بنا کر رکھنا جائز قرار دیا۔ کیوں ؟

 

جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی صاحب لکھتے ہیں : 
”میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، اسی طرح عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے، خواہ تو انگلی سے لکھا جائے یا کسی اور چیز سے۔ امام ترمذی حکیم بن علی نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
من كتب ھذا الدعاء و جعله بين صدر الميت و كفنه فی رقعة لم ينله عذاب القبر، ولا يری منكرا و نكيرا جو شخص اس دعا كو لكھے اور میت کے سینے اور کفن کے درمیان کاغذ میں لکھ کر رکھے تو اس کو عذاب قبر نہ ہو گا اور نہ منکر نکیر کو دیکھے گا۔“ ( جاء الحق ۳۳۸/۱)

 

تبصرہ:

 

یہ بدعات کے ثبوت پر دلیل ہے۔ لگتا ہے کہ یہ دلیل ان کو شیطان نے وحی کی ہے، ورنہ نوادرالاصول تو کجا، دنیا جہان کی کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔ 

یہ وضعی، بے سند اور من گھڑت روایت ان لوگوں کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ لوگ دین میں بدعات جاری کرنے اور ان کے ثبوت پر جھوٹی روایات پیش کرنے یں اہل کتاب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ 

نیز ان کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ یہ ان کے اپنے قول کے بھی خلاف ہے، جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب کے پچھلے ہی صفحہ پر ذکر کیا ہے کہ ان کے ”فقہاء“ مردے کے سینے پر شجرہ یا عہد نامہ رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ اگر نعیمی صاحب کے نزدیک یہ حدیث نبوی ہے تو ان کے ”فقہاء“ جو اس حدیث پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے ؟

 

مفتی صاحب ایک نئی دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
”الحرف الحسن ( یہ احمد رضا خان صاحب کی تصنیف ہے ) میں ترمذی سے نقل کیا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی عہد نامہ پڑھے تو فرشتہ اسے مہر لگا کر قیامت تک کے لیے رکھ لے گا۔ جب بندے قبر سے اٹھائے جائیں گے تو فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لا کر ندا کرے گا کہ عہد والے کہاں ہیں ؟ ان کو یہ عہد نامہ دیا جائے گا۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ 
عن طاؤس انّه أمر بھذه الكلمات، فكتب في كفنه ( الحف الحسن ) ( جاء الحق از نعيمي : ۳۳۹/۱)

 

تبصرہ:

یہ بے سند اور جھوٹی روایت ہے۔ شرعی احکام کی اس پر بنیاد ڈالنا اہل بدعت کا ہی وطیرہ ہو سکتا ہے۔ رہا طاؤس کا قول تو اس کا بھی حوالہ اور سند دونوں نہیں مل سکے۔

 

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : 
”عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، یہ دونوں کام جائز اور احادیث صحیحہ، اقوال فقہاء سے ثابت ہیں۔“ 
( جاء الحق از نعیمی : ۳۳۶/۱)

 

تبصرہ:

 

وہ احادیث صحیحہ کہاں ہیں ؟ اگر بے سند روایات کا نام احادیث صحیحہ ہے تو پھر جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟ 

 

قارئین کرام ! آپ نے بدعات کے ثبوت پر دلائل ملاحظہ فرما لئے، اس کے باوجود نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ”میت کے لیے کفن وغیرہ پر ضرور عہد نامہ لکھا جاوے۔“ ( جاء الحق از نعیمی : ۳۴۱/۱)

 

نعیمی صاحب ”فتاویٰ بزازیہ“ سے نقل کرتے ہیں : 
”اگر میت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہدنامہ لکھا تو امید ہے کہ اللہ اس کی بخشش کر دے اور اس کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ امام نصیر نے فرمایا کہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ لکھنا جائز ہے اور مروی ہے کہ فاروق اعظم کے اصطبل کے گھوڑوں کی رانوں پر لکھا تھا : 
حُبِسَ في سبيل الله “ (جاء الحق از نعیمی : 340-339/1)

 

تبصرہ:

 

بدعات کے شیدائی دلائل سے تہی دست ہوتے ہیں۔ ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مصداق ”مفتی“ صاحب نے کیسی دلیل پیش کی کہ فاروق اعظم کے اصطبل کے گھوڑوں کے رانوں پر لکھا تھا۔ یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اس کا معتبر حوالہ اور سند پیش کی جائے۔ پھر بھی کہاں گھوڑوں کی رانوں پر مذکورہ الفاظ لکھنا اور کہاں میت کی پیشانی یا کفن پر کلمہ طیبہ لکھنا۔ 

 

إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply