قنوتِ وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

سوال : کیا قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے ؟
الجواب : ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ (متوفی 277ھ) فرماتے ہیں کہ :
قال لي أبو زرعة : ترفع يديك فى القنوت ؟ قلت : لا ! فقلت له : فترفع أنت ؟ قال : نعم : فقلت : ما حجتك ؟ قال : حديث ابن مسعود، قلت : رواه ليث بن أبى سليم، قال : حديث أبى هريرة، قلت : رواه ابن الهيعة، قال : حديث ابن عباس، قلت : رواه عوف، قال : فما حجتك فى تركه ؟ قلت : حديث أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يرفع يديه فى شي من الدعاء إلا ستسقاء، فسكت
ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ (متوفی 264ھ) نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ قنوت میں ہاٹھ اٹھاتے ہیں ؟ میں نے کہا: نہیں ! پھر میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ (قنوت میں) ہاتھ اٹھاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میں نے پوچھا: آپ کی دلیل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: حدیث ابن مسعود، میں نے کہا: اسے لیث بن ابی سلیم نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا: حدیث ابوہریرہ، میں نے کہا: اسے ابن لھیعہ نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا: حدیث ابن عباس، میں نے کہا: اسے عوف (الاعرابی) نے روایت کیا ہے۔ تو انہوں نے پوچھا: آپ کے پاس (قنوت میں) ہاتھ نہ اٹھانے کی کیا دلیل ہے ؟ میں نے کہا: حدیث انس کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے سوائے استسقاء کے تو وہ (ابوزرعہ رحمہ اللہ) خاموش ہو گئے۔ [تاريخ بغداد ج 2ص76ت 455 وسنده حسن، وذكره الذهبي فى سيرأ علام النبلاء13؍253]اس حکایت کے راویوں کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے :
➊ أبو منصور محمد بن عیسی بن عبدالعزیز : وكان صدوقا؍تاريخ بغداد [2؍406 ت 937]
➋ صالح بن أحمد بن محمد الحافظ : وكان حافظا، فهما، ثقة ثبتا [تاريخ بغداد 9؍331ت 4871]
➌ القاسم بن أبی صالح بندار : كان صدوقا متقنا للحديث [لسان الميزان 4؍460ت6680]

تنبیہ : قاسم بن ابی صالح پر تشیع کا الزام ہے جو یہاں روایت حدیث میں مردود ہے۔ صالح بن احمد کے قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا قاسم بن ابی صالح سے سماع قبل از اختلاط ہے۔ لہذا یہ سند حسن لذاتہ ہے۔

اب ان روایات کی مختصر تحقیق پیش خدمت ہے جنہیں امام ابوزرعہ اور امام ابوحاتم نے باہم مناظرے میں پیش کیا ہے۔
① حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ [جزء القراة للبخاري بتحقيقي : 99 مصنف ابن أبى شيه 2؍307ح2903، الطبراني فى الكبير 9؍327 ح 9425 السنن الكبري للبيهقي3؍41]
? اس کی سند لیث بن ابی سلیم (ضعیف و مدلس) کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یہاں پر یہ بات سخت تعجب خیز ہے کہ نیموی تقلیدی نے اس سند کو إسناده صحيح لکھ دیا ہے۔ [ديكهئے آثار السنن : 235]
? حالانکہ جمہور محدثین نے لیث مذکور کو ضعیف و مجروح قرار دیا ہے۔

◈ زیلعی حنفی نے کہا:
وليث هذا الظاهر أنه ليث بن أبى سليم وهو ضعيف [نصب الراية 3؍96]
◈ لیث مذکور پر جرح کے لئے دیکھئے احسن الکلام [سرفراز خان صفدر ديو بندي ج 2ص128، جزء القرأة بتحريفات امين اوكاڑوي ص70ح58]

② حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ [السنن الكبري للبيهقي 3؍41]
? اس کی سند ابن لھیعہ کی تدلیس اور اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔

③ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ [ مصنف ابن ابي شيبه 2؍316 ح 7042، 7043 والا وسط لابن المنذر : 5؍213]
? یہ روایت قنوت فجر سے متعلق ہے۔ اس روایت کی دو سندیں ہیں۔ پہلی میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور دوسری میں ہشیم بن بشیر مدلس ہیں لہذا یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں۔ ابوحاتم رازی نے اس روایت کو عوف الاعرابی کی وجہ سے ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ الجرح و التعدیل میں عوف کو صدوق صالح الحديث کہتے ہیں [7؍15]

تنبیہ : عوف الاعرابی پر جرح مردود ہے۔ اسے جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے لہذا وہ حسن الحدیث یا صحیح الحدیث ہے۔ صحیحین میں اس کی تمام روایات صحیح ہیں۔ والحمد لله

④ حدیث انس رضی اللہ عنہ [صحيح البخاري : 1030 و صحيح مسلم : 7؍796]
? اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ حسن لغیرہ حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ تینوں روایات ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں اور ان کا ضعف شدید نہیں ہے۔ جو لوگ ضعیف ضعیف سے حسن لغیر بنا دیتے ہیں، ان کے اصول پر یہ روایات باہم مل کر حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ ابوحاتم رازی حسن لغیرہ روایات کو حجت نہیں سمجھتے۔

فائدہ : عامر بن شبل الجرمی (ثقہ راوی) سے روایت ہے کہ رأيت أبا قلابة يرفع يديه فى قنوته ”میں ابوقلابہ (ثقہ تابعی) کو دیکھا، وہ اپنے قنوت میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ “ [السنن الكبريٰ للبيهقي ج3 ص1 4 و سنده حسن] قنوت نازلہ میں (دعا کی طرح) ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ [مسند احمد 3؍137ح 12429 و سنده صحيح]

امام اہل سنت احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ بھی قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے قائل تھے [ديكهئے مسائل ابي داود ص 66 و مسائل احمد و إسحاق راوية إسحاق بن منصور الكوسج 1؍211ت465، 59 ت 3468]

خلاصہ : قنوت وتر میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں، دونوں طرح جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ حدیث انس رضی اللہ عنہ و دیگر دلائل کی رو سے قنوت میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ والله أعلم

 

یہ تحریر اب تک 92 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply