قصہ ایک طالب علم کا۔۔۔۔

تحریر:حافظ ابو یحییٰ نور پوری
                پیارے بچو ! سفر تو آپ بھی کرتے رہتے ہیں ، لیکن میں آج آپ کو ایک عجیب و غریب سفر کی داستان سنانا چاہتا ہوں، امید ہے کہ جہاں یہ واقعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا سبب بنے گا ، وہاں نہایت سبق آموز بھی ہوگا۔
                صدیوں پرانی بات ہے ، سخت گرمی کاموسم تھا، تین طالبِ علم قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنے علاقے کو خیرباد کہتے ہوئے سمندر پار جانے کے لئے روانہ ہوئے ، وہ اس بات پرخوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ تین مہینوں کا راشن ساتھ لے کر جارہے ہیں اور اب تو کئی ماہ مسلسل علم حاصل کرکے وہ اپنی علمی پیاس کو قدرے بھجا سکیں گے، لیکن:
ہوتا ہے وہی جو منظورِ خدا ہوتا ہے
                اس دور میں انجنوں کی مدد سے چلنے والے بحری جہاز تو ہوتے نہیں تھے، عام طور پر چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہوتیں جو ہوا کے رحم و کرم پر چلتی تھیں۔ اگر قدرتی طور پر ہوا منزلِ مقصود کی طرف چل رہی ہوتی تو مسافروں کی “پانچوں گھی میں” ہوجاتیں، لیکن خدانخواستہ اگر ہوا مخالف سمت اختیار کرلیتی تو بسا اوقات کئی کئی ماہ مسافر سمندر میں ہی بھٹکتے رہتے اور کھانے پینے کا سامان ختم ہونے  یا راستہ بھول جانے کی وجہ سے آخر کار زندگی سےمایوس ہوجاتے ۔ یوں سمندری لہروں کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
                ان طلبہ کے ساتھ بھی ایسے ہی حالات پیش آئے ۔ ان کی کشتی بھی مخالف ہوا کی بھینٹ چڑھ گئی، لاکھ جتن کیے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پورے تین ماہ یہ ہوائی طوفان کشتی کو سمندر میں گھماتا پھراتا رہا، چند لقموں کے سوا سارا سامان خوردونوش کام آچکا تھا۔ ان بے چاروں کے پاس دعاؤں اور التجاؤں کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑانا شروع کردیا۔ ایک تو وہ تھے مسافر، دوسرے سفربھی طلبِ علم کا تھا۔ ایسے مسافروں کے پاؤں میں تو فرشتوں جیسی مقدس مخلوق بھی اپنے نورانی پَر بچھانا فخر سمجھتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ جو “ارحم الراحمین”ہے ، اس کی رحمت جوش میں کیوں  نہ آجاتی؟ دعا قبول ہوئی اور کشتی کنارے جالگی، لیکن:
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا !
اصل مصیبت کا آغاز اب ہوا۔ مشیئتِ الہٰی کو ان کی آزمائش مقصود تھی اور وہ بھی اپنی دھن کے ایسے پکے تھے کہ مصائب سے گھبرا کر علم کی راہ سے ہٹ جانا ان کے لئے مشکل ہی نہیں ، ناممکن تھا۔ اس لیے بے سرو سامانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے انجام سے بے خبر منزل کی جانب بڑھنے لگے۔ بھوک لگی تو بچے کچے  چندلقمے جو پاس تھے ،وہ بھی نگل گئے۔
                اب نہ کھانے کو کچھ تھا نہ پینے کو ، سورج کی گرم لو اور صحرا کی تپتی ریت جہنم کا سا سماں پیدا کررہی تھی ۔ سارا دن چلتے چلتے گزر گیا۔ دور دراز تک کسی چرند پرند کا نام و نشان تک نہ تھا، سوائے موت کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ،لیکن کھانے کی قلت اور پیاس کی شدت ان کے پایۂ استقلال میں لرزش پیدا نہ کر پائی ۔ رات ہوئی تو ایک جگہ سوگئے ۔ اگلے دن پھر منزل کی طرف رواں دواں رہے ۔ اب تو زبانیں خشک ہوچکی تھیں اور قدم ڈگمگانے لگے تھے، پھر سارا دن یونہی گزرا۔ رات ہوئی تو ایک جگہ گر گئے۔
                کئی دنوں کی مسلسل بھوک اور پیاس نے ان کو کسی کام کا نہ چھوڑا تھا۔ تیسرا دن تو گویا ان کے لئے قیامت ثابت ہوا۔ ان کی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی کہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک طالب علم بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ ذرا اندازہ کریں کہ بھوک پیاس نے اگر باقی دو ساتھیوں کے پلے کچھ چھوڑا ہوتا وہ اسے سنبھالتے ۔ ان کو تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔اس دھچکے کے بعد وہ اپنی موت کو اور قریب سے دیکھنے لگے تھے ۔ اسے وہیں چھوڑ کر دونوں پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، تھوڑی دور گئے تھے کہ دوسرا بھی گرمی اور پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہوگیا۔ اس اکیلے ساتھی کی مصیبت کا ذرا تصور کیجئے جو اپنے دونوں دوستوں کو گرمی اور پیاس سے تڑپ کر گرتا ہوا دیکھ تو سکتا تھا ، کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اسکے اپنے حواس بھی جواب دینے لگے تھے ، لیکن پھر بھی ہمت کرکے اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگا۔
                پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے سنتِ الہٰی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اپنے دین کے طالبوں اور خادموں کو آزماتا ضرور ہے ، لیکن کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا ۔ ان کو جھنجھوڑتا ضرور ہے ، لیکن کبھی ناکامی و نامرادی کا منہ نہیں دکھاتا ۔ اس کا وعدہ جو ہے  : ﴿وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ﴾ (الحج:۴۰)
“جو اللہ کے دین کے خادم ہوتے ہیں ، اللہ ان کی ضرور ضرور مدد فرماتا ہے ۔”
﴿وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْن﴾ (الروم:۴۷)                “ہم پر مومنون کی مدد لازم ہے ۔”
دین کے ان جاں نثار طالب علموں کے مومن ہونے میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے ؟ نیز آنے والے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے دین کا بہت بڑا کا م لینا تھا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ اپنے دو ساتھیوں کی زندگی بچانے کے لئے نکلنے والا اکیلا طالبِ علم اچانک ایک قافلے کو دیکھتا ہے ۔ اسے زندگی کی ہلکی سی کرن محسوس ہوئی ، چنانچہ اپنا کپڑا ہلا کر ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔ قافلے والوں نے اسے دیکھا تو ٹھہر گئے ۔ گرمی اور پیاس اس پربھی اپنا کام کر چکی تھی ، قریب تھا کہ یہ بھی گرجاتا۔ انہوں نے اسے پانی پلایا ۔ جب جان میں جان آئی تو ان کو لے کر اپنے ساتھیوں کی طرف دوڑا ۔ پہلے ایک تک پہنچے اور اسے پانی کے چھینٹے مارے، کچھ ہوش و حواس بحال ہوئے تو تھوڑا تھوڑا کرکے پانی پلایا ، پھر دوسرے کے پاس دوڑے دوڑے گئے اور اسے بھی پانی پلا کر ہوش میں لائے ، پھر قافلے نے ان پر ترس کھایا اور کچھ سامانِ خوردونوش ان کو مہیا کیا۔
                اسی سفر میں ان کو بھوک کی وجہ سے ایک مردہ جانور کے انڈے پی کر بھی اپنی جان بچانا پڑی تھی۔
                لیکن بھوک پیاس اور گرمی کی اتنی صعوبتیں اٹھانے کے بعد کیا وہ اپنے مشن سے دستبردار ہوگئے تھے ؟ ہرگز نہیں ! علم کی راہ میں ملنے والے مصائب و آلام ان کو اس راہ سے ایک قدم بھی دور نہ کرسکے ، بلکہ ان کے شوق میں اور اضافے کا سبب بن گئے ، چنانچہ وہ ایک بار پھر نئے ولولے سے طلبِ علم کے لئے روانہ ہوگئے ۔          (تقرمۃ الجرح و التعدیل: ۳۶۴،۳۶۵،۳۶۶ ، وسندہ صحیح)
                یہ (۲۱۴) ہجری کا واقعہ ہے ، یعنی اسے رونما ہوئے قریباً بارہ سو برس بیت چکے ہیں، لیکن آج بھی دین کے ان شیدائی طلباء کے یہ کارنامے کتابی صورت میں اہل علم کے سامنے ہیں اور قیامت تک وہ انہیں اپنے لیے مشعلِ راہ بناتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ
                ان طلبہ میں سے ایک کو “امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،  جو اپنے دور کے بہت بڑے محدث ہوئے اور علم حدیث میں ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ بعد میں آنے والے ان کو فراموش کرکے حدیث کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔
                آپ امام بخاری اور امام ابوزرعہ الرازی کے ہم عصر، امام احمد بن حنبل کے شاگرد اور امام ابوداود، امام نسائی ، امام ابن ماجہ اور دیگر بڑے بڑے محدثین کے استاذ تھے ۔تمام ائمہ کرام نے بالاتفاق ان کی تعریف و توثیق کی ہے ۔
                آپ کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ یہ بھی ہے کہ دورانِ سفر زادِراہ ختم ہونے پر مزید علم دین حاصل کرنے کے لئے اپنے کپڑ بیچ کر بھی گزار ہ کیا تھا ۔                (تقرمۃ الجرح و التعدیل : ۳۶۳، سندہ صحیح)
                ہے کوئی طالبِ علم جو دنیا اور آخرت کی سعادتوں کو حاصل کرنے کے لئے آج بھی اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے طلبِ علم کی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنا یہ وعدہ پور اکرے :
﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾       (العنکبوت : ۶۹)
“اور جو لوگ ہمارے (دین کے راستے) میں محنت کرتے ہیں، ہم ضرور ضرور ان کو اپنے (کامیابی و کامرانی والے) راستے دکھاتے ہیں۔”
یہ تحریر اب تک 303 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 2 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. MD MUSHTAQUE

    ماشاء اللہ قابل تعریف اور پر عبرت نگارش ہے
    فاضل نگار کو اللہ مزید توفیق ارزانی فرمائے آمین

Leave a Reply