قربانی کرنے والے کے لیے کنگھی کرنا

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : اگر عورت قربانی کرنا چاہے تو کیا وہ سر میں کنگھی نہ کرے دریں حالت اگر وہ دس دن تک ایسا نہ کرے تو اسے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب : سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا دخلت العشر وفأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره ولا من بشره شيئا [رواه النسائى فى كتاب الضحايا باب 1، والدارمي فى كتاب الأضاحي، باب 1 وفي رواية]
”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی دینا چاہے تو وہ اپنے بالوں اور جسم سے کچھ نہ اکھاڑے کاٹے۔ “
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت مروی سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن أم سلمة رضى الله عنها : أن النبى صلى الله عليه وسلم قال : إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره و أظفاره [رواه مسلم فى كتاب الأضاحي باب 7]
”جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے جو کوئی قربانی دینا چاہے تو اسے چاہئیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی کچھ نہ کاٹے۔ “
علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بال مونڈنا، کاٹنا، اکھاڑنا یا پاؤڈر وغیرہ سے ان کا ازالہ کرنا ہے، یہ سب کچھ منع ہے۔ اس بناء پر کنگھی کرنا یا بالوں کا سنوارنا اس ممانعت کے تحت نہیں آتا۔ اسی طرح بالوں کا دھونا وغیرہ بھی منع نہیں ہے۔ اگر بلا ارادہ کوئی بال گر جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں عورت کے لئے ضرورت کے پیش نظر بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے۔ قربانی نفلی ہو یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ والله اعلم

 

یہ تحریر اب تک 19 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply