قبروں کی زیارت اور ان سے وسیلہ پکڑنے کا حکم

 فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : قبروں کی زیارت، مزاروں سے وسیلہ اور (چڑھاوے کے طور پر) وہاں مال اور دنبے وغیرہ لے جانے کا کیا حکم ہے ؟ جیسا کہ (لوگ) سید البدوی (سوڈان میں)، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما (عراق میں) اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا (مصر) کی قبور (پر کرتے ) ہیں۔ جواب سے مستفید فرمائیں اللہ آپ کے علم میں برکت دے۔ (آمین)
جواب : زیارت قبور کی دو قسمیں ہیں۔ ان میں ایک اہل قبور پر رحم و شفقت کرنے، ان کے حق میں دعا کرنے، موت کو یاد رکھنے اور آخرت کی تیاری کے اعتبار سے جائز بھی ہے اور مطلوب بھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
زوروا القبور فإنها تذكركم الآخرة
”قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان کی زیارت کیا کرتے تھے اور اسی طرح آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی۔ یہ قسم مردوں کے لئے خاص ہے عورتوں کے لئے نہیں۔
جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے لئے قبروں کی زیارت جائز نہیں، بلکہ انہیں اس کام سے منع کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حکم ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ زیارت قبور کے وقت ان کی بے صبری اور آہ و فغاں کی وجہ سے فتنہ برپا ہونے اور ان کے اپنے اوپر فتنے کے غالب آنے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کا قبرستان تک جنازوں کے پیچھے جانا بھی ناجائز ہے کیونکہ صحیح حدیث میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
نهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا [صحيح البخارى]
”ہمیں جنازوں کے پیچھے چلنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ (یعنی ساتھ جانا) ہم پر واجب بھی تو نہیں کیا گیا۔ “
↰ اس سے ثابت ہوا کہ ان (عورتوں) کی وجہ سے اور ان کے اپنے لئے فتنوں کے برپا ہونے اور قلت صبر کے خدشہ کی بنا پر انہیں جنازوں کے پیچھے (ساتھ) قبرستان تک جانے سے منع کیا گیا ہے اور اس حرمت کی اصل بنیاد، اللہ ذوالجلال کا یہ فرمان ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا [59-الحشر:7]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (شری امور میں) تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو۔ (اس پر عمل کرو) اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے تم رک جاؤ۔ “
↰ البتہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں مردوں اور عورتوں، سب کا شامل ہونا جائز ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بات ثابت ہے۔ ہاں ! ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے کہ ”ہم پر جنازوں کے پیچھے چلنا واجب بھی تو نہیں کیا گیا۔ “ عورتوں کا جنازوں کے پیچھے آنے کا جواز بالکل نہیں نکلتا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، روکنے والا حکم، منع کے حکم میں ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی اپنی بات ان کے اجتہاد کی بنا پر ہے کہ جس کا سنت کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں۔
دوسری قسم بدعی ہے : اور وہ یہ کہ زیارت کرنے والا اہل قبور سے اپنے لئے دعا اور مدد طلب کرے یا ان کے نام پر (جانور) ذبح کرے یا ان کے نام کی نذر نیاز دے۔ یہ قطعی طور پر ممنوع اور ” شرک اکبر“ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ ان (بدعتوں) سے ملتے جلے کام یہ بھی ہیں کہ ان کے پاس آ کر (تبرکاً) دعا مانگے، نماز پڑھے یا تلاوت کرے۔ یہ بدعت ہے اور بالکل جائز نہیں۔ یہ ساری باتیں ”وسائل شرک“ میں سے ہیں۔ درحقیقت اس موضوع سے متعلق تین اقسام بنتی ہیں۔
قسم اول : جائز : اور وہ یہ ہے کہ زیارت قبور، آخرت کو یاد کرنے اور اہل قبور کے حق میں دعا کرنے کی خاطر ہو۔
قسم دوم : بدعت : اور وہ یہ ہے کہ قبروں کے پاس (تبرکاً) تلاوت کرنا، نماز پڑھنا اور ان کے پاس (جانور) ذبح کرنا تو یہ بدعت اور وسائل شرک میں سے ہے۔
قسم سوم : شرک اکبر : اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص قبر کی زیارت کرے تاکہ صاحب قبر (مدفون) کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (قبر پر) جانور ذبح کرے اور اس ذبیحہ کے ذریعے سے صاحب قبر کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہو۔ یا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس قبر والے (مردے ) سے دعا مانگے یا اس سے مدد طلب کرے، چاہے وہ مدد کشف مصیبت کے لئے ہو یا دشمن کے مقابلے میں غلبے کے لئے ہو۔
ان تمام بدعی زیارتوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
نیز اس میں بھی کوئی فرق نہیں کہ جس کو (مدد یا دعا وغیرہ کے لئے ) پکارا جا رہا ہے وہ نبی ہو یا کوئی نیک صالح آدمی ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ (اس معاملے میں کسی کم یا زیادہ نیک کے درمیان کوئی فرق نہیں) چاہے ایسا کرنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس آ کر دعا وغیرہ کرے، چاہے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، چاہے شیخ البدوی، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ یا کسی اور (بزرگ) کی قبر کے پاس آ کر یہ کام کرے، سب برابر ہے جیسا کہ جاہل لوگ کرتے ہیں۔ بس اللہ ہی مددگار ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply