فضائل ازکار

 

تحریر: حافظ ندیم ظہیر

ام المومنین جویریہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے وقت یا اس کے بعد ان (جویریہؓ) کے پاس سے گزرے اور وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں، پھر آپﷺ چاشت کے بعد آئے اور وہ (اسی جگہ) بیٹھی ہوئی تھیں تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تم ابھی تک اسی طرح (بیٹھی ہوئی) ہو جس طرح میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ انہوں (جویریہؓ) نے کہا: جی ہاں!نبی کریم ﷺ نے فرمایا: البتہ تمہارے بعد میں نے چار کلمات تین بار کہے ہیں ، اگر اِن (کلمات ) کا موازنہ ان سے کیا جائے جو تم نے اب تک کہا ہے تو (یہ) بھاری ہوں گے:
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهٖ عَدَدَ خَلْقِهٖ وَ رِضٰي نَفْسِهٖ وَ زِنَةَ عَرْشِهٖ وَ مِدَادَ كَلِمَاتِهٖ
ایک روایت میں ہے:
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهٖ عَدَدَ خَلْقِهٖ وَ رِضٰي نَفْسِهٖ وَ زِنَةَ عَرْشِهٖ، سُبْحَانَ مِدَادَ كَلِمَاتِهٖ [صحيح مسلم: ۲۷۲۶]

فوائد:
بہت سے ایسے اعمال ہیں کہ جن میں محنت و مشقت کم ہوتی ہے لیکن ان کا اجر و ثواب زیادہ ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے ۔
مذکورہ کلمات انہی اعمال میں سے ہیں۔
دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ ذکرِ الہٰی کے لئے جگہ مخصوص کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ چل پھر کر بھی یہ عمل سر انجام دیا جا سکتا ہے ۔
سیدنا ابوامامہ الباہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ اپنے دونوں ہونٹوں کو حرکت دے رہے تھے ۔ آپﷺ نے فرمایا: اے ابو امامہ! کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں (ابوامامہ) نے کہا: میں اپنے رب کا ذکر کر رہا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں (ایسے ذکر کے بارے میں) نہ بتاؤں جو دن رات کے ذکر سے افضل ہے ۔ یہ کہ تم کہو:
سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ، وَ سُبْحَانَ اللهِ مِلْ ءَ مَا خَلَقَ، وَ سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللهِ مِلْ ءَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا اَحْصٰي كِتَابَهٗ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ كُلِّ شَيْءٍ، وَسُبْحَانَ اللهِ مِلْءَ كُلِّ شَيْءٍ اور اسی طرح تم کہو اَلْحَمْدُ للهِ ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ اور اَللهُ اَكْبَرُ [النسائي فى عمل اليوم والليله: ۱۶۶]
فوائد:
یہ روایت محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے
کیونکہ یہ روایت عن سے ہے
اور مدلس کی روایت صراحتِ سماع کے بغیر ضعیف ہوتی ہے ۔
——————

بازار میں تہلیل کی فضیلت
سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بازار میں داخل ہو اور یہ دعا پڑھے:
لَااِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ، لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِيْ وَ يُمِيْتُ وَ هُوَ حَيُّ لَّا يَمُوْتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَليٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے ، ایک لاکھ خطائیں معاف کردیتا ہے اور ایک لاکھ درجات بلند کردیتا ہے ۔ [سنن ترمذي: ۳۴۲۹، سنن ابن ماجه: ۲۲۳۵]
فوائد:
یہ روایت کئی طریق سے مروی ہے
لیکن تمام طرق ضعیف ہیں۔
سنن ترمذی کی روایت میں ازہر بن سنان راوی ضعیف ہے
اور سنن ابن ماجہ میں حماد بن عمرو ضعیف ہے ۔
اس کے علاوہ یہ روایت کتاب الدعاء للطبرانی (۷۹۳، ۷۹۲) مستدرک حاکم (۵۳۹/۱ ح ۱۹۷۵) وغیرہ میں بھی ضعیف سندوں کے ساتھ موجود ہے ۔
الغرض مذکورہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے ۔
——————

کفارۂ مجلس کی دعا
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس میں بہت لغو باتیں کیں، وہ اپنی اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے (یہ دعا) پڑھے:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَ بِحَمْدِكَ، اَشْهَدُاَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ، اَسْتَغْفِرُكَ وَ اَتُوْبُ اِلَيْكَ
تو جو (خطائیں ) اس مجلس میں ہوئی ہیں، وہ معاف کردی جاتی ہیں۔ [سنن ترمذي: ۳۴۳۳، صحيح]
فوائد:
لغویات و فضولیات سے کلی طور پر اجتناب کرناچاہئے
اور ایسی مجالس میں جانے سے احتراز بھی ضروری ہے
لیکن کسی مجلس میں نادانستہ غلطی کا ارتکاب یا سبقتِ لسانی کی وجہ سے لغزش وغیرہ ہو جائے تو مذکورہ دعا پڑھنے سے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔
——————

استغفار کی فضیلت
۱۰۴: سیدنا شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو:
اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّيْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ، خَلَقْتَنِيْ وَ اَنَا عَبْدُكَ وَ اَنَا عَليٰ عَهْدِكَ وَ وَ عْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُلَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَ اَبُوْءُ بِذَنْبِيْ فَاغْفِرْلِيْ اِنَّهٗ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
اگر اس کو شام کے بعد پڑھے (اور ) اسی رات کو مرگیا تو جنت میں داخل ہوگا اور اگر بعد از صبح پڑھے (اور) اسی دن مرگیا تو جنت میں داخل ہوگا ۔ [بخاري: ۶۳۰۶، ۶۳۲۳]
فوائد: مذکورہ کلمات بہت زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو سید الاستغفار کہا جاتا ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 32 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply