فرض نماز کے بعد اذکار کی فضیلت

سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ فقرائے مہاجرین رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! مالدار لوگ اعلیٰ درجہ اور ہمیشہ کی نعمتوں میں چلے گئے۔ آپ نے فرمایا: وہ کیسے؟ انہوں نے کہا : وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور وہ صدقات (و خیرات) دیتے ہیں اور ہم صدقات نہیں دے سکتے اور وہ (غلام) آزاد کرتے ہیں اور ہم آزاد نہیں کر سکتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ سکھاؤں کہ جس کے ذریعے تم اپنے سے سبقت لے جانے والوں کو پالو اور اپنے بعد آنے والوں سے آگے بڑھ جاؤ اور تم سے زیادہ افضل کوئی نہ ہو سوائے اس کے جو تمہارے جیسے ہی عمل کرے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپﷺ نے فرمایا: تم ہر نماز کے بعد ۳۳،۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو۔(راویٔ حدیث) ابو صالح نے کہا : فقرائے مہاجرین (دوبارہ) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے او رعرض کیا : ہمارے مالداربھائیوں نے (بھی یہ) سن کر ہماری طرح کے اعمال (شروع کردیئے) ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرے  المآئدۃ:۵۴                                        (صحیح بخاری: ۸۴۳، صحیح مسلم: ۵۹۵)فوائد:    ایک دوسری روایت میں “اللہ اکبر” چونتیس مرتبہ کہنے کا بھی ذکر آیا ہے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:فرض نماز کے بعد پڑھے جانے والے کچھ کلمات ایسے ہیں کہ ان کو پڑھنے یا کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا ۳۳ مرتبہ  ((سُبْحَانَ اللہِ)) ۳۳ مرتبہ ((اَلْحَمْدُ لِلہِ)) ۳۴ مرتبہ ((اَللہُ اَکْبَرُ)) کہنا۔ (صحیح مسلم : ۵۹۶)

فرض نماز کے بعد اذکار کی فضیلت میں کافی احادیث ہیں۔ جن میں سے چند ایک تو اس حدیث کے متصل بعد ہی درج ہیں اور کچھ بطور فوائد ہم ذکر کئے دیتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو اس کو جنت میں داخل ہونے سے موت کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی۔(عمل الیوم و اللیلۃ النسائی :۱۰۰ و سندہ حسن ، الترغیب و الترہیب للمنذری ۴۴۸/۲ ح ۲۲۷۳، طبع دار ابن کثیر، بیروت)

سیدنا معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا پھر فرمایا:”اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں”۔ معاذؓ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد “اَللّٰھُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ“پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا۔(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی : ۱۰۹و اللفظ لہ ، ابوداؤد: ۱۵۲۲ و اسنادہ صحیح)

بعض روایات میں “اللھم” کے بجائے “رَبِ”کے الفاظ ہیں۔ واللہ اعلم

سیدنا عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ہر نما زکے بعد  معوذتین (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) پڑھاکروں۔ (سنن ابی داؤد : ۱۵۲۳ و اسنادہ حسن)

مذکورہ بالا احادیث سے نماز کے بعد اذکار کی اہمیت و فضیلت واضح ہورہی ہے لہذا ہمیں نماز  کے بعد تمام “مسنون اذکار” یاد کر کے ان پر عمل پیرا ہوناچاہئے جو کہ آہستہ آہستہ عام مسلمانوں بھلا رہے ہیں۔ جونہی امام سلام پھیرتا ہے اذکار کو نظر انداز کر کے اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہوجاتے ہیں یا گھر کی راہ لیتے ہیں اور بعض الناس تو ایسے ہیں کہ انہیں صحیح احادیث سے ثابت شدہ “مسنون اذکار” تو یاد ہی نہیں ہوتے اور نہ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں لیکن من گھڑت ذکر کی ضربیں خوب لگا لیتے ہیں (أعاذنا اللہ منھم) یاد رہے عمل صرف وہی اللہ کے ہاں مقبول ہوتا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہو۔

سیدنا زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم ہر نماز کے بعد ۳۳مرتبہ ((سبحان اللہ)) ۳۳ مرتبہ ((الحمد للہ)) اور ۳۴مرتبہ ((اللہ اکبر)) کہیں، پس (انصار میں سے) ایک آدمی نے خواب (میں ایک شخص کو ) دیکھا تو اس (شخص) نے کہا: تمہیں ۳۳ مرتبہ ((سبحان اللہ)) ۳۳ ((الحمد للہ)) اور ۳۴ مرتبہ ((اللہ اکبر)) (کہنے کا ) حکم دیاگیا ہے۔ پس اگر اس میں تہلیل (لا إلہ إلا اللہ) کو شامل کر لو تو ان (کلمات) کو پچیس (پچیس) مرتبہ کہو، میں اس (سارے قصے) کا ذکر نبی کریمﷺ کے سامنے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو تم نے دیکھا ہے اسی طرح کرو، یا (فرمایا) اسی طرح (کرو)۔[مسند احمد ۱۸۴/۵ ، سنن النسائی ۷۶/۳ ح ۱۳۵۱، عمل الیوم و اللیلۃ لہ : ۱۵۷، سنن الترمذی: ۳۴۱۳، وقال :”حسن صحیح” صحیح ابن خزیمہ:۷۵۲، صحیح ابن حبان ، الاحسان : ۲۰۱۴، موارد الظمآن]

فوائد:  حدیث جبریل (مسلم:۸) اذان کے سلسلے میں حدیث عبداللہ بن زید بن عبدربہ (سنن ابی داؤد:۴۹۹ و اسنادہ حسن) اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے فرشتے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اور بعد میں نبیﷺ (بذریعہ وحی) اس کی تصدیق فرما دیتے تھے۔ جیساکہ اس حدیث میں بھی آپﷺ نے خواب سن تائید فرمائی ۔ تو پتا چلا کہ ۳۳بار ((سبحان اللہ)) ۳۳ بار ((الحمد للہ)) اور ۳۴ بار ((اللہ اکبر)) کے ساتھ ۲۵ مرتبہ ((سبحان اللہ)) ۲۵ مرتبہ  ((الحمدللہ)) اور ۲۵ مرتبہ  ((لا اِلٰہ اِلا اللّٰہ)) کہنا بھی جائز ہے، دونوں میں سے کسی بھی طریقہ پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت میں غیرنبی کے خواب قطعاً حجت نہیں ہیں، اِلاَّ یہ کہ دورِ نبوی میں جن خوابوں کی نبی کریم ﷺ نے خود تصدیق فرمائی ہو، علاوہ ازیں کسی خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جاسکتا جبکہ بعض الناس کے مسالک و مذاہب کی بنیاد ہی خوابوں پر ہے جو صریحاً باطل ہے۔

سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہر نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ  ((سبحان اللہ)) ۳۳ مرتبہ  ((الحمدللہ)) اور ۳۳ مرتبہ  ((اللہ اکبر)) کہا تو یہ (کلمات تعداد میں ) ۹۹ہوگئے اور سو کا عدد  ((لا اِلہ اِلا اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علٰی کل شيءٍ قدیر)) کہہ کر پورا کرلیا تو اس کے سارے (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اگر چہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ (صحیح مسلم: ۵۹۷)

فوائد:  اس حدیث میں تسبیح، تحمید اور تکبیر کے ساتھ لا اِلہ اللہ وحدہ لا شریک لہ إلخ کا اضافہ ہے اور اس کی خصوصی فضیلت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ اسے پڑھنے والے کے سارے (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ دوسرا ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ : ۳۳ مرتبہ  ((سبحان اللہ)) ۳۳ بار ((الحمدللہ)) ۳۴ بار((اللہ اکبر))ہو یا ۲۵مرتبہ  ((سبحان اللہ)) ۲۵بار ((الحمدللہ)) ۲۵ بار((اللہ اکبر)) ۲۵ بار ((لا اِلہ اِلا اللہ)) ہو یا ۳۳ مرتبہ  ((سبحان اللہ)) ۳۳ بار ((الحمدللہ)) ۳۳بار((اللہ اکبر))ایک بار ((لا اِلٰہ اِلا اللہ وحدہٗ لا شریک لہ إلخ)) ہو، زیادہ سے زیادہ ذکر کا عدد سو ہی ہے لہذا اس  سے تجاوز بہتر نہیں ہے ۔ مسیب بن نجبہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آکر کہا:میں نے مسجد میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کہتے ہیں، تین سو ساٹھ مرتبہ “سبحان اللہ” کہو تو(عبداللہ بن مسعودؓ نے) کہا:”اے علقمہ! اٹھو اور مجھے ان سے ملاؤ” وہ آئے اور ان (لوگوں) کے پاس کھڑے ہوگئے اور دیکھا کہ وہی کام کر رہے تھے (عبداللہ بن مسعودؓ ) فرمانے لگے کہ “تم نے گمراہی کی دُمیں پکڑ رکھی ہیں یا اپنے آپ کو محمدﷺ کے صحابہ سے زیادہ ہدایت پر سمجھتے ہو؟!” [البداع و النہی عنہا لابن وضاح: ۲۷ وسندہ حسن] پتا چلا کہ اذکار میں جس تعداد کا ذکر سنت صحیحہ سے ثابت ہواسی کے مطابق اذکار کئے جائیں۔

سیدنا عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو (ایسی) خصلتیں ہیں کہ جو مسلمان (بھی) ان پر مواظبت اختیار کرے گا جنت میں جائے گا ۔ اور وہ دونوں آسان ہیں اور جو ان  پر عمل کرنے والے ہیں وہ تھوڑے ہیں۔ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ ((سبحان اللہ)) دس مرتبہ ((الحمدللہ)) اور دس مرتبہ ((اللہ اکبر)) کہے۔ (عبداللہؓ نے) کہا : پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ (کی انگلیوں) پر گنتے، آپ نے فرمایا: زبان سے(ان کی) ادائیگی ڈیڑھ سو (۱۵۰) ہے (لیکن) میزان میں ڈیڑھ ہزار (۱۵۰۰) ہیں۔ (دوسری خصلت یہ ہے کہ) جب سونے لگے تو سبحان اللہ ((۳۳ مرتبہ)) الحمدللہ ((۳۳مرتبہ)) اللہ اکبر ((۳۴ مرتبہ)) کہے، یہ زبان سے ادائیگی میں ایک سو (۱۰۰) ہے (لیکن )ترازو میں ایک ہزار (شمار) ہوگی۔ تم میں سے کون ہے جو ایک دن میں ڈھائی ہزار برائیاں کرتا ہے۔؟(صحابہ کرامؓ نے) کہا: (پھر) کیوں نہ اس پر ہمیشگی کی جائے۔ آپ نے فرمایا: حالت نماز میں تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے (اور نمازی کو بھلانے کی غرض سے) کہتا ہے : فلاں، فلاں چیز یاد کر یہاں تک کہ وہ نماز مکمل کر لیتا ہے تو ہوسکتا ہے وہ ایسا نہ کرے۔ (یعنی یہ عمل نہ کرسکے ) اور (پھر شیطان اس کے پاس اس وقت) آتا ہے جب وہ اپنے بستر پر جاتا ہے پس وہ اِسے تھپکتا ہے یہاں تک کہ سو جاتا ہے (الترمذی : ۳۴۱۰، ابوداؤد : ۵۰۶۵ واسنادہ حصن، انسائی : ۱۳۴۹)

فوائد: اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کس قدر محبت کرتا ہے کہ قلیل عمل پر اجر کثیر سے نوازتا ہے ۔ لیکن افسوس ! کہ بندہ ایسا تھوڑا عمل بھی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ موتیوں یا مالا وغیرہ پر اعدادِ ذکر کرکے بجائے ہاتھوں کی انگلیوں پر ہی گننا چاہئے یہی صحیح اور سنت طریقہ ہے ۔
۸۱:      سیدنا ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے فجر کی نماز کے بعد اپنے پاؤں موڑے ہوئے (تشہد کی سی صورت میں) ہی کسی سے بات چیت کئے بغیر ((لا اِلہ اِلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، یحي و یمیت وھو علی کل شي ءٍ قدیر)) پڑھا تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور دس برائیاں مٹائی جائیں گی اور دس درجات بلند کئے جائیں گے اور اس دن ہر برائی سے محفوظ رہے گا ۔ اور شیطان سے بچایا جائے گا اور اس دن اس کی شرف کے سوا کسی گناہ پر پکڑ نہ ہوگی ۔ (ترمذی : ۳۴۷۴ واسنادہ صحیح، عمل الیوم واللیلۃ: ۱۲۷)
فوائد: اس حدیث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ بندہ اعمال کے کتنے ہی انبار کیوں نہ لگا دے ، اگر اس کے اعمال میں شرک کی آمیزش ہوئی تو اس کے سارے اعمال ضائع و برباد ہوجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کی ایک جماعت سے مخاطب ہو کر اعلان فرماتا ہے ﴿وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ اگر انہوں نے بھی شرک کیا ہوتا تو ان سب کے اعمال اکارت ہوجاتے ہیں (الانعام : ۸۸)

شرک اکبر الکبائر میں سے ہے اور شرک کا ارتکاب ظلم عظیم ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴾بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے۔(لقمان: ۱۳)

مشرک اگر توبہ کے بغیر مر جائے تو اس پر ہمیشہ کے لئے بخشش کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ  ﴾ بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک  کو معاف نہیں کرتا اور اس کے سوا جسے وہ چاہے بخش دیتاہے۔ (النسآء:۱۱۶)

بلکہ مشرک پر ہمیشہ کے لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ وَ مَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ﴾بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اس اللہ نے اس پر جنت کو حرام قرار دیا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ (المآئدۃ:۷۲)

اس تحریر کو اب تک 61 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply