عقیدہ حیات النبی اور مسلک اہل حدیث

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

✿ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ٭ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ [21-الأنبياء:34]
’’ ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو بقائے دوام نہیں بخشا، تو کیا اگر آپ فوت ہو جائیں، تو یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلا کرتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے۔“
◈ سنی امام ومفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول تعالٰي ذكره لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم : وما خلدنا أحدا من بني آدم۔ يا محمد۔ قبلك فى الدنيا، فنخلدك فيها، ولا بد لك من أن تموت كما مات من قبلك رسلنا .

’’ اللہ رب العزت اپنے نبی سے فرماتے ہیں : اے محمد ! آپ سے پہلے ! ہم نے اس دنیا میں کسی آدم کے بیٹے کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی کہ آپ کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ ضرور آپ بھی فوت ہوں گے، جس طرح آپ سے پہلے آنے والے ہمارے رسول فوت ہو گئے تھے۔“

✿ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُونَ [الزمر 39 : 30]
’’ (اے نبی ! ) بلاشبہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یقیناً یہ (کفار) بھی مر جائیں گے۔“
◈ مفسر اہل سنت، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ، لکھتے ہیں :
هٰذه الآية من الآيات التى استشهد بها الصديق رضى الله عنه عند موت الرسول صلى الله عليه وسلم، حتٰي تحقق الناس موته، مع قوله : وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ [3-آل عمران:144] ، ومعنٰي هٰذه الآية : ستنقلون من هٰذه الدار لا محالة، وستجتمعون عند الله فى الدار الآخرة، وتختصمون فيما أنتم فيه فى الدنيا من التوحيد والشرك بين يدي الله عز وجل، فيفصل بينكم .
”یہ آیت مبارکہ ان قرآنی آیات میں سے ہے جنہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اس آیت سے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین کر لیا۔ مذکورہ آیت کے ساتھ یہ آیت بھی ان کی دلیل تھی : وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ [3-آل عمران:144] ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر کیا وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے، تو تم اسلام سے پھر جاو گے ؟ جو شخص اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جائے، وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ تعالیٰ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے“۔ اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ سب لوگ دنیا سے ضرور بالضرور جانے والے ہیں اور آخرت میں اللہ رب العزت کے پاس جمع ہونے والے ہیں۔ وہاں اللہ کے سامنے تم توحید و شرک میں اپنا دنیوی اختلاف ذکر کرو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔“ [تفسير ابن كثير : 6/ 488]
↰ مذکورہ آیات کریمہ میں دنیوی زندگی کے بعد موت کا ذکر ہے۔
موت کے بعد آخروی زندگی شروع ہوتی ہے، جو دراصل جزا و سزا کا جہان ہے۔ جو شخص اس جہان میں چلا جاتا ہے، اس کا دنیا والوں سے کوئی دنیوی تعلق قائم نہیں رہتا، کیونکہ اخروی زندگی ایک الگ زندگی ہے۔ قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز ہے۔

بہت سے لوگ اس اخروی زندگی کے سلسلے میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے ہیں۔ بعض نے تو تفریط میں مبتلا ہو کر سرے سے اس زندگی کا انکار کر دیا ہے، جبکہ بعض نے افراط میں پڑ کر اس زندگی کا اس طرح اقرار کیا کہ اسے دنیوی زندگی کی مثل سمجھ لیا۔ لیکن یہ عام زندگی جو سب کو ملتی ہے، ایک مخصوص نعرہ لگا کر انہوں نے اسے بلادلیل خاص کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں اعتدال کی بات وہی ہے، جو ہمیں قرآن و سنت نے بتائی ہے۔ شرعی دلائل کے مطابق قبر کی زندگی نیک و بد سب کو ملتی ہے، البتہ درجات کے اعتبار سے اس زندگی کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ انبیا و شہدا کی زندگی افضل ترین اور کفار کی بدترین ہوتی ہے، لیکن بہرحال یہ زندگی اخروی ہوتی ہے، دنیوی نہیں، جیسا کہ :
◈ ہانی مولیٰ عثمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان عثمان، إذا وقف علٰي قبر، بكٰي حتٰي يبل لحيته، فقيل له : تذكر الجنة والنار فلا تبكي، وتبكي من هٰذا ؟ فقال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن القبر أول منزل من منازل الآخرة، فإن نجا منه؛ فما بعده أيسر منه، وإن لم ينج منه؛ فما بعده أشد منه .
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو وہاں اس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی تر ہو جاتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن آپ نہیں روتے، مگر قبر کا ذکر سنتے ہی رو پڑتے ہیں؟ اس پر آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: بےشک قبر آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی شخص اس منزل کو کامیابی سے عبور کر گیا، تو اس کے بعد جو بھی منزل آئے گی، اس سے آسان تر ہی ہو گی لیکن اگر کوئی اسی منزل میں کامیاب نہ ہو سکا، تو اس کے بعد والی منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔“ [مسند الام احمد: 63/1، سنن ترمذي 2308، سنن ابن ماجه 4267، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن“، جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ [331، 330/4] نے ’’ صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آ رہی ہے کہ موت کی صورت میں دنیوی زندگی ختم ہونے کے فورا بعد آخرت کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ قبر آخرت کی ایک منزل ہے اور اس کی زندگی اخروی زندگی ہے، نہ کہ دنیوی۔

❀ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
سقطت من يده، فجمع الله بين ريقي وريقه فى آخر يوم من الدنيا، وأول يوم من الآخرة
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے مسواک چھوٹ گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کو اس دن ایک ساتھ جمع کر دیا، جو آپ کی دینوی زندگی کا آخری اور اخروی حیات کا پہلا دن تھا۔“ [صحيح بخاري: 4451]
↰ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بھی اس سلسلے میں بالکل صریح ہے کہ موت کے فوراً بعد اخروی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔

لہٰذا قبر کی زندگی کے جو حالات قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں معلوم ہوئے ہیں، ان کا انکار کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ اس سے بھی بڑی جہالت یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی یا اس سے مشابہ مانا جائے۔ اور سب سے چوٹی کی جہالت، جس سے جہالت بھی شرما جاتی ہے، یہ ہے کہ موت کے بعد کسی خاص ہستی یا ہستیوں کی زندگی کا اقرار کر لیا جائے، وہ بھی اسے دنیوی زندگی کی طرح تسلیم کر کے، جبکہ باقی لوگوں کی قبر کی زندگی کا سرے ہی سے انکار کر دیا جائے۔

’’ حیات النبی“ کا عقیدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر ایسے عقیدے کے پرچارک لوگوں کے دلائل ملاحظہ کیے جائیں، تو ان کی عقل وشعور پر ہنسی آتی ہے۔ جن باتوں سے وہ انبیا کے لیے خصوصی زندگی ثابت کرتے ہیں، وہی باتیں عام مؤمنوں، مسلمانوں کے لیے بھی ثابت ہیں۔

اس کی ایک مثال انبیا کے قبروں میں نماز پڑھنے والی حدیث ہے۔ ’’ حیات النبی“ کا نعرہ لگانے والے اسے بڑے زور و شور سے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ نماز چونکہ دنیا میں پڑھی جاتی ہے، لہٰذا انبیا قبروں میں نماز پڑھتے ہیں، تو انہیں قبروں میں دنیوی یا مثل دنیوی زندگی حاصل ہے۔

ان لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر قبر میں نماز پڑھنے سے دنیوی یا مثل دنیوی دنیوی زندگی ثابت ہوتی ہے، تو پھر انہیں اپنا نعرہ ’’ حیات النبی“ سے بدل کر ’’ حیات المؤمنین“ کر لینا چاہیے، کیونکہ عام مؤمن کا بھی قبر میں نماز پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ :
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”قبر میں فرشتے جب مؤمن سے ہم کلام ہوں گے، تو وہ بیٹھ جائے گا۔ اسے سورج غروب ہوتا دکھائی دے گا۔ اسے کہا جائے گا : اس آدمی کے بارے میں بتاؤ، جو تم میں مبعوث ہوئے تھے۔ تم ان کے بارے میں کیا کہتے ہو اور کیا۔ گواہی دیتے ہو ؟ اس پر؛
فيقول : دعوني حتٰي أصلي، فيقولون : إنك ستفعل، أخبرني عما نسألك عنه
’’ مؤمن کہے گا : مجھے چھوڑو کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں۔ فرشتے کہیں گے : تم نماز بھی پڑھ لو گے، لیکن پہلے ہمیں اس سوال کا جواب دو، جو ہم آپ سے کر رہے ہیں۔“ [صحيح ابن حبان : 3113، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 379/1۔380، وسنده حسن]
↰ امام حاکم نے اس حدیث کو ”امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ
نے ان کی موافقت کی ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ حسن“ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 51/3۔52]
↰ معلوم ہوا کہ ’’ حیات النبی“ کے نعرے کی آڑ میں انبیا کے لیے دنیوی یا مثل دنیوی زندگی ثابت کرنے والوں کو یا تو عام مؤمنوں کے لیے بھی دنیوی یا مثل دنیوی زندگی ثابت کرناہو گی یا پھر اپنے عقیدے پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔

اہل علم اور عقیدۂ ’’حیات النبی‘‘ :
اہل علم نے یہ بات بڑی وضاحت سے بیان کر دی ہے کہ برزخی (قبر کی ) زندگی ایک مستقل اور الگ زندگی ہے، یہ دنیوی یا مثل دنیوی ہرگز نہیں۔ آئیے ہم کچھ اہل علم کے اقتباسات پیش کرتے ہیں :
حافظ ابنِ عبد الہادی رحمہ اللہ (م : 744ھـ) فرماتے ہیں :
وليعلم أن رد الروح (إلي البدن) وعودها إلى الجسد بعد الموت لا يقتضي استمرارها فيه، ولا يستلزم حياة أخرٰي قبل يوم النشور نظير الحياة المعهودة، بل إعادة الروح إلى الجسد فى البرزخ إعادة برزخية، لا تزيل عن الميت اسم الموت . وقد ثبت فى حديث البراء بن عازب الطويل المشهور، فى عذاب القبر ونعيمه، فى شأن الميت وحاله، أن روحه تعاد إلٰي جسده، مع العلم بأنها غير مستمرة فيه، وأن هٰذه الإعادة ليس مستلزمة لإثبات حياة مزيلة لاسم الموت، بل هي أنواع حياة برزخية، الموت كالحياة البرزخية، وإثبات بعض أنواع الموت لا ينافي الحياة، كما فى الحديث الصحيح، عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا استيقظ من النوم قال : ’الحمد الله الذى أحيانا بعد ما أماتنا، وإليه النشور۔ وتعلق الروح بالبدن واتصالها به بنوع أنواعا۔ أحدها : تعلقها به فى هٰذا العالم يقظة ومناما . الثاني : تعلقها به فى البرزخ، والأموات متفاوتون فى ذٰلك، فالذي للرسل والـأنبياء أكمل مما للشهداء، ولهٰذا لا تبلٰي أجسادهم، والذي للشهداء أكمل مما لغيرهم من المؤمنين الذين ليسوا بشهداء . والثالث : تعلقها به يوم البعث الآخر، ورد الروح إلى البدن فى البرزخ لا يستلزم الحياة المعهودة، ومن زعم استلزامه لها لزمه ارتكاب أمور باطلة مخالفة للحس والشرع والعقل .
معلوم ہونا چاہیے کہ موت کے بعد روح کا جسم میں لوٹنا استمرارِ حیات کا متقاضی نہیں ہے، نہ اس سے قبل از قیامت ایسی زندگی لازم آتی ہے، جو دنیوی زندگی کی طرح ہو۔ برزخ میں روح کا جسم میں لوٹنا سراسر برزخی معاملہ ہے، جس کی وجہ سے مرنے والے سے موت کا نام زائل نہیں ہو سکتا۔
قبر میں جزا و سزا اور مرنے والے کے حالات کے بارے میں سیدنا براء بن عازب سے جو مشہور اور طویل حدیث [سنن أبي داود :4753، المستدرك للحاكم : 95/1، وسنده حسن] مذکور ہے، اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ وہ روح اس جسم میں ہمیشہ نہیں رہتی، نہ ہی اس کے لوٹنے سے ایسی زندگی ثابت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے میت پر لفظ موت کا اطلاق ہی ختم ہو جائے۔ بلکہ یہ حیاتِ برزخیہ کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ موت اور برزخی زندگی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں (یعنی موت کا اقرار کرنے سے برزخی زندگی کا انکار نہیں ہوتا، کیونکہ۔ ازناقل ) موت کی کچھ اقسام ایسی ہیں، جو زندگی کے منافی نہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیند سے بیدار ہوتے، تو یہ دعا پڑھتے :
ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لئے ہے، جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی ہے، اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے۔
( یعنی دنیا میں موت کا اقرار کر کے بھی کسی کو زندہ کہا جا سکتا ہے، تو قبر میں کسی کی کی زندگی کا اقرار کر کے اسے مردہ کیوں نہیں کہا جا سکتا، جبکہ یہ ساری چیزیں شرعی دلائل سے ثابت بھی ہیں ؟ ازناقل)
روح کا بدن کے ساتھ تعلق کئی قسم کا ہوتا ہے :
➊ اس دنیامیں حالت بیداری اور نیند میں روح کا جسم سے تعلق۔
➋ برزخ میں روح کا جسم سے تعلق۔ یہ تعلق فوت شدگان کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ انبیاء کرام اور رسولوں کی زندگی شہدا کے مقابلے میں زیادہ کامل ہوتی ہے، اسی لیے ان کے مبارک اجساد بوسیدہ نہیں ہوتے اور شہدا کی زندگی ان مؤمنین سے کامل ہوتی ہے، جو شرف شہادت نہیں پاتے۔
➌ قیامت کے دن روح کا جسم سے تعلق ہونے اور برزخ میں روح کے جسم میں لوٹائے جانے سے دنیوی طرز کی زندگی لازم نہیں آتی۔ جو شخص اس سے دنیوی زندگی کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ بہت سے مقامات پر حس، شریعت اور عقل کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 223]

◈ محدث العصر، علامہ ناصرالدین، البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إن حياته صلى اللہ عليه وسلم بعد وفاته مخالفة لحياته قبل الوفاة، ذٰلك أن الحياة البرزخية غيب من الغيوب، ولا يدري كنهها إلا اللہ سبحانه وتعالٰي، ولٰكن من الثابت والمعلوم أنها تختلف عن الحياة الدنيوية، ولا تخضع لقوانينها، فالانسان فى الدنيا يأكل ويشرب، ويتنفس ويتزوج، ويتحرك ويتبرز، ويمرض ويتكلم، ولا أحد يستطيع أن يثبت أن أحدا بعد الموت، حتي الـأنبياء عليه السلام، وفي مقدمتهم نبينا محمد صلى اللہ عليه وسلم، تعرض له هٰذه الـأمور بعد موته
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی زندگی، وفات سے قبل کی زندگی سے مختلف ہے، اس لیے کہ برزخی حیات ایک غیبی معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اس کی کیفیات کا علم نہیں۔ البتہ اتنی بات معلوم ہے کہ وہ دنیوی زندگی سے مختلف ہے اور دنیوی قوانین کے تابع نہیں۔ دنیا میں تو انسان کھاتا پیتا، سانس لیتا اور شادی کرتا ہے، نقل و حرکت اور بول و براز کرتا ہے، بیمار ہوتا اور گفتگو کرتا ہے، لیکن کوئی انسان یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ موت کے بعد کسی کو، یہاں تک کہ انبیائے کرام، جن میں سرفہرست ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہ ہوں امور پیش آتے ہوں۔“ [التوسل؛ أنواعه وأحكامه، ص : 65]

◈ نیز فرماتے ہیں :
ثم اعلم أن الحياة التى أثبتها هٰذا الحديث للـأنبياء عليهم الصلاة والسلام؛ إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا فى شيئ، ولذٰلك وجب الإيمان بها دون ضرب الـأمثال لها، ومحاولة تكييفها، وتشبيهها بما هو المعروف عندنا فى حياة الدنيا، هٰذا هو الموقف الذى يجب أن يتخذه المؤمن فى هٰذا الصدد؛ الإيمان بما جاء فى الحديث دون الزيادة عليه بالـأقيسة والآراء، كما يفعل أهل البدع الذين وصل الـأمر ببعضهم إلى ادعاء أن حياته صلى الله عليه وسلم فى قبره حياة حقيقية، قال : يأكل ويشرب ويجامع نسائه، وإنما هي حياة برزخية، لا يعلم حقيقتها إلا الله سبحانه وتعالٰي
’’ جان لیجئے اس حدیث سے انبیاء کرام کی جو حیات ثابت ہوتی ہے، وہ ! صرف برزخی حیات ہے، دنیوی زندگی سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اس زندگی پر یوں ایمان لانا ضروری ہے کہ اس کے بارے میں مثالیں نہ دی جائیں، اس کی کیفیت بیان نہ کی جائے اور اسے ہماری دنیوی زندگی سے تشبیہ نہ دی جائے۔ یہی موقف ہر مومن کے لئے اختیار کرنا لازم ہے کہ اس بارے میں احادیث میں جتنی بات مذکور ہے، صرف اسی پر ایمان لائے، اس سلسلے میں قیاس اور رائے کو دخل نہ دے، جیسا کہ بدعیوں نے کیا ہے۔ بعض نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ قبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات حقیقی (یعنی دنیوی ) ہے، وہ کہتے ہیں : قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے پیتے اور اپنی ازواج سے مجامعت کرتے ہیں (العیاذباللہ )، حالانکہ یہ صرف برزخی حیات ہے، جس کی حقیقت کو اللہ سجانہ وتعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها و فوائدها : 190/2، ح : 621]

شہیدوں کی زندگی :
اب رہا یہ سوال کہ اگر تمام لوگوں کو قبر کی زندگی حاصل ہے اور اس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، تو پھر اسلامی تعلیمات میں شہدا کی زندگی کو خصوصیت سے بیان کرنے کی آخر کیا وجہ ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا صرف شہدا کی زندگی کو اعلیٰ ثابت کرنے کے لیے کیا گیا ہے، نہ کہ اس لیے کہ شہدا کو قبر میں زندگی ملتی ہے، باقی لوگوں کو نہیں، نہ ہی اس لیے کہ شہدا کی زندگی دنیوی یا مثل دنیوی ہوتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ امت محمدیہ کے وہ شہدا جنہیں شرف صحابیت حاصل نہیں ہے، ان کی قبر کی زندگی ہرگز صحابہ کرام کی برزخی زندگی سے بہتر اور افضل نہیں۔

تنبیہ :
ہم بیان کر چکے ہیں کہ موت کے بعد برزخی زندگی ملنے کے حوالے سے نیک و بد تمام لوگ برابر ہیں، کسی کو اس سے استثنا نہیں، البتہ مختلف لوگوں کے لیے اس زندگی کے حالات مختلف ہوں گے۔ نیک لوگوں کی زندگی اچھی اور بدکردار لوگوں کی بری ہو گی۔ نیک لوگوں میں سے انبیاء کرام کی برزخی زندگی سب سے بہترین ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام کے اجسادِ مبارکہ کو زمین نقصان نہیں پہنچاتی۔ وہ اپنی اصلی حالت میں سلامت رہیں گے، جیساکہ :
❀ سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأكثروا على من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة علي
’’ بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔“

ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا ؟ کیا آپ کا جسد مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن اللہ قد حرم على الـأرض أن تأكل أجساد الـأنبياء
یقیناً اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرما دیا ہے۔“ [مسند الإمام أحمد : 8/4، سنن أبي داود : 1047، 1531، سنن النسائي : 1375، سنن ابن ماجه : 1085، 1636، فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل : 22، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [1733] ،امام ابن حبان [910] ،حافظ ابن قطان فاسی [بیان الوہم والإیہام : 574/5] رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ [278/1] نے اسے ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ [رياض الصالحين : 1399، خلاصة الأحكام : 441/1، 814/2]
◈ حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (م : 751ھ) لکھتے ہیں :
ومن تأمل هٰذا الإسناد؛ لم يشك فى صحته، لثقة رواته، وشهرتهم، وقبول الـأئمة أحاديثهم
’’جو شخص اس روایت کی سند پر غور کرے گا، وہ اس کی صحت میں شک نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے راوی ثقہ، مشہور ہیں اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کی بیان کردہ احادیث مقبول ہیں۔“ [جلاء الأفهام : 81]

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنهم لما فتحوا تستر، قال : فوجد رجلا أنفه ذراع فى التابوت، كانوا يستظهرون ويستمطرون به، فكتب أبو موسٰي إلٰي عمر بن الخطاب بذٰلك، فكتب عمر : إن هٰذا نبي من الـأنبياء، والنار لا تأكل الـأنبياء، والـأرض لا تأكل الـأنبياء، فكتب أن انظر أنت وأصحابك يعني أصحاب أبي موسٰي، فادفنوه فى مكان لا يعلمه أحد غيركما، قال : فذهبت أنا وأبو موسٰي، فدفناه
’’ جب صحابہ کرام نے تستر شہر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش کی دعا کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ انبیا کے جسموں کو نہ آگ کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا : تم اور تمہارے ساتھی مل کر کوئی ایسی جگہ دیکھو، جس کا تمہارے علاوہ کسی کو علم نہ ہو۔ وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ گئے اور انہیں (ایک گم نام جگہ میں ) دفن کردیا۔“ [مصنف ابن أبي شيبة : 27/13، وسنده صحيح]

◈ عظیم تابعی، ابوعالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن لحوم الـأنبياء لا تبليها الـأرض، ولا تأكلها السباع
’’ بلاشبہ انبیاء کرام کے اجسام کو نہ زمین بوسیدہ کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں۔“ [السيرة لابن إسحاق : 66،67، طبع دار الفكر بيروت، دلائل النبوة للبيهقي : 382/1، وسنده حسن]
یہ احادیث و آثار صریح طور پر بتا رہے ہیں کہ انبیاء کرام کے اجسادِ مقدسہ کو مٹی نہیں کھاتی، لیکن ان سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی کہ انبیاء کرام قبروں میں دنیوی زندگی یا اس کی مثل زندہ ہیں۔

تنبیہ :
❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أتي النبى صلى اللہ عليه وسلم أعرابيا، فأكرمه، فقال له : ائتنا، فأتاه، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : سل حاجتك، فقال : ناقة نركبها، وأعنزا يحلبها أهلي، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : ’عجزتم أن تكونوا مثل عجوز بني إسرائيل؟‘ قال : إن موسٰي لما سار ببني إسرائيل من مصر؛ ضلوا الطريق، فقال : ما هٰذا؟ فقال علماوهم : إن يوسف لما حضره الموت؛ أخذ علينا موثقا من اللہ أن لا نخرج من مصر حتٰي ننقل عظامه معنا، قال : فمن يعلم موضع قبره، قال : عجوز من بني إسرائيل، فبعث إليها، فأتته، فقال : دليني علٰي قبر يوسف، قالت : حتٰي تعطيني حكمي، قال : ما حكمك؟ قالت : أكون معك فى الجنة، فكره أن يعطيها ذٰلك، فأوحي اللہ إليه أن أعطها حكمها، فانطلقت بهم إلٰي بحيرة؛ موضع مستنقع ماء، فقالت : أنضبوا هٰذا المائ، فأنضبوا، قالت : احتفروا واستخرجوا عظام يوسف، فلما أقلوها إلى الـأرض؛ إذا الطريق مثل ضوئ النهار
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس تشریف لائے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت مہمان نوازی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا : اسے ہمارے پاس لے کرآؤ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے اس سے فرمایا : اپنی ضرورت کا مطالبہ کرو۔ اس نے عرض کیا : ایک اونٹنی چاہئے جس پر ہم سوار ہو سکیں اور کچھ بکریوں کی ضرورت ہے جن کا دودھ میرے گھر والے دوہ لیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم لوگ اس قدر عاجز ہو گئے ہو کہ تم بنی سرائیل کی بوڑھیوں کی مانند بھی نہیں ہو سکتے ؟ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے روانہ ہوئے، تو وہ لوگ راستہ بھول گئے، موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا : اس کی وجہ کیا ہے ؟ ان کے علما نے بتایا : یوسف علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب آیا تھا، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم سے یہ پختہ عہد لیا تھا کہ جب ہم لوگ مصر سے نکلیں گے، تو اپنے ساتھ ان کی میت کو بھی لے کر جائیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان پوچھا: ان کی قبر کی جگہ کس کو معلوم ہے ؟ ایک شخص نے بتایا : ایک بوڑھی عورت جس کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس عورت کو بلوایا، وہ خاتون آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسے کہا: تم ہمیں یوسف علیہ السلام کی قبر بتاؤ اس نے کہا جب تک آپ مجھے میرا معاوضہ نہیں دیں گے ( میں یہ کام نہیں کروں گی )۔ موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا : تمہارا معاوضہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں جنت میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ وہ جو مانگ رہی ہے، اسے دے دو پھر وہ عورت ان لوگوں کو لے کر ایک چشمے پر آئی۔ عورت نے کہا: اس پانی کو خشک کرو اور یوسف علیہ السلام کا جسم نکالو۔ جب وہ یوسف علیہ السلام کے جسم کو اٹھا کر مصر کی طرف آئے، تو راستہ یوں دن کی روشنی کی طرح واضح تھا۔“ [مسند أبي يعلي : 7254، تفسير ابن أبي حاتم [تفسير ابن كثير : 183/5، 184، الشعراء : 52] ، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [723] نے ’’صحیح‘‘اور امام حاکم رحمہ اللہ [404/2،405] نے ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ [252/2] نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ بھی کہا ہے۔

◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
رجال أبي يعلٰي رجال الصحيح
’’مسند ابو یعلیٰ کے رواۃ،صحیح بخاری کے راوی ہیں۔‘‘ [مجمع الزوائد : 170/10]
↰ اس حدیث سے بظاہریہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے جسم مبارک کو مٹی نے نقصان پہنچایا تھا اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ اس حدیث میں عظامِ یوسف سے مراد سیدنا یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں نہیں، بلکہ جسم مبارک ہے۔ مجازاً بدن کو عظام کہہ دیا گیا ہے۔ ایسا عربی زبان میں عموماً ہو جاتا ہے، جیسا کہ :
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إن النبى صلى اللہ عليه وسلم لما بدن؛ قال له تميم الداري : ألا أتخذ لك منبرا يا رسول اللہ يجمع، أو يحمل، عظامك؟ قال : ”بلٰي“، فاتخذ له منبرا مرقاتين
’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اطہر بھاری ہو گیا، تو سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں آپ کے لئے ایک منبر نہ تیار کروا دوں، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہڈیاں (یعنی جسم مبارک )رکھ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو سیڑھیوں والا منبر تیار کروا دیا۔“ [سنن أبي داود : 1081، السنن الكبرٰي للبيهقي : 195/3، وسنده حسن]
↰ اس حدیث میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے لئے مجازاً عظام کا لفظ استعمال کیا ہے۔
◈ اسی لیے محدث البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فعلمت منه أنهم كانوا يطلقون العظام ويريدون البدن كله، من باب إطلاق الجزئ وإرادة الكل، كقوله تعالٰي : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [17-الإسراء:78] ، أى صلاة الفجر، فزال الإشكال، والحمد للہ
’’ مجھے اس حدیث سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عرب لوگ لفظ عظام بول کر پورا جسم مراد لیتے ہیں۔ یہ جز سے کُل کو مراد لینے کے قبیل سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [17-الإسراء:78] یہاں فجر کے قرآن سے مراد نماز فجر ہے۔ الحمد اللہ اشکال زائل ہو گیا ہے۔“ [سلسلة الاحاديث الصحيحة للالباني: 313]

الحاصل :
اہل سنت والجماعت کا یہ اتفاقی عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ہر ایک کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ زندگی انبیاءکرام اور شہداء عظام کے ساتھ خاص نہیں، البتہ انبیا و شہدا کی زندگی پاکیزہ، طیب اور اعلیٰ ضرور ہے۔ مومنوں کو قبر میں نعمتیں عطا ہوتی ہیں، جبکہ کافر اور فاسق عذاب قبر سے دو چار ہوتے ہیں۔

بعض لوگ حیات برزحبہ کا انکار کرتے ہیں، جبکہ بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات کو دنیوی، یعنی مادی اور بدنی زندگی کی مثل قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات افراط و تفریط کی پیداوار ہیں۔ یہ نظریات قرآن و حدیث سے بالکل ثابت نہیں۔ سلف صالحین میں سے کوئی ان نظریات کا حامل نہیں رہا۔ چنانچہ حیات و ممات کی بنیاد پر تفرقہ بازی نامناسب فعل اور اہل سنت کے مسلم عقیدہ کی مخالفت ہے۔ یہ اخروی زندگی کا معاملہ ہے جو اسلامی عقائد سے متعلق ہے۔ ایسے معاملات صرف اور صرف قرآن و حدیث اور اجماع امت پر موقوف ہیں، ان میں قیاس آرائی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

قرآن و سنت سے ماخوذ اعتدال پسندانہ نظریہ وعقیدہ یہ ہے کہ ہر شخص کو برزخی زندگی ملتی ہے۔ اس میں کسی کوئی کی تخصیص نہیں، البتہ یہ زندگی سراسر اخروی ہوتی ہے۔ انبیا و شہدا کی برزخی زندگی کو دنیوی یا مثل دنیوی قرار دینا قرآن وسنت کی مخالفت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عقائد کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

اس تحریر کو اب تک 63 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply