عصر کے بعد دو رکعتوں کا ثبوت 

تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری

نماز عصر کے بعد سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے نفلی نماز کا جواز ثابت ہے :
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهيٰ عن الصلاة بعد العصر حتي تغرب الشمس وعن الصلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس.
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے اور نماز صبح کے بعد حتی، کہ سورج طلوع ہوجائے۔“ [صحيح بخاري : 588، صحيح مسلم : 825]
↰ اس حدیث میں اور دوسری احادیث میں وارد ہونے والی نهي (ممانعت) کو سورج زرد ہونے کے بعد کے وقت پر محمول کریں گے، اس پر قرینہ یہ ہے کہ :
➊ : سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
ان النبى صلى الله عليه وسلم نهيٰ عن الصلاة بعد العصر الا والشمس مرتفعة.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد (نفلی) نماز پڑھنے سے منع فرما دیا، ہاں ! جب سورج بلند ہو، (تو پڑھ سکتے ہیں)۔“ [مسند الامام احمد : 80/1۔ 81، 129، 141، سنن ابي داود : 1274، سنن النسائي : 574، السنن الكبري للبيهقي : 559/2، وسنده حسن]
◈ امام ابن خزیمہ [1284] ، امام ابن حبان [1547] ، امام ابن الجارود [281] ، حافظ الضیاء [763۔ 766] رحمہم اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ اور حافظ ابن العراقی [طرح التژيب : 187/2] رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ حافظ منذری نے اس کی سند کو ”جید“ کہا ہے۔
◈ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”حسن“ کہا ہے۔ [فتح الباري : 161/2]
◈ نیز ”صحیح قوی“ قرار دیا ہے۔ [فتح الباري : 163/2]
◈ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذه زيادة عدل، لايجوز تركها
”یہ ثقہ کی ایسی زیادت ہے، جسے چھوڑنا جائز نہیں ہے۔“ [المحلٰي لا بن حزم : 31/3]

➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولا تصلوا عند طلوع الشمس ولا عند غروبها، فانها تطلع و تغرب على قرني الشيطان، وصلو ابين ذلك ما شئتم.
”تم سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہوتا ہے، اس کے درمیان جتنی چاہو نماز پڑھو۔“ [مسند ابي يعليٰ : 4612، وسنده حسن]
◈ عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں :
كنا مع على رضى الله عنه فى سفر فصلٰي بنا العصر ركعتين، ثم دخل فسطاطه و أنا أنظر، فصلٰي ركعتين.
”ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیں عصر کی دو رکعتیں پڑھائیں، پھر اپنے خیمے میں داخل ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 459/2، وسنده حسن]
↰ راوی حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود ان دو رکعتیں کو ادا کیا ہے۔

فائدہ : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى اثر كل صلاة مكتوبة ركعتين الا الفجر و العصر.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے فجر اور عصر کے ہر فرض نماز کے بعد رکعتیں ادا فرماتے تھے۔“ [سنن ابي داود : 1275، الكبري للنسائي : 441، مسند الامام احمد : 124/1، صحيح ابن خزيمة : 1195، السنن الكبري للبيهقي : 459/2، وغيرهم]

اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں ابواسحاق السبیعی ”مدلس“ ہیں، جو ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں،
اس کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔
——————
◈ ابواسحا ق خود کہتے ہیں :
سألت أبا جحيفة عنهما، قال : ان لم تنفعاك، لم تضراك.
”میں نے ابوجحیفہ سے ان دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا : اگر یہ تجھے فائدہ نہیں دیں گی، تو نقصان بھی نہیں کریں گی۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 353/2، الاوسط لابن المنذر : 393/2، وسنده صحيح]

◈ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے،
نیز فرماتے ہیں:
ان الزبیر و عبداللہ بن الزبیر کانا یصلیان بعد العصر رکعتین.
”زبیر اور عبداللہ بن زبیر بھی دونوں عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [الاوسط لابن المنذر : 394/2، مصنف ابن ابي شيبه : 353/2، وسنده صحيح]
مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کا ذکرنہیں۔

◈ طاؤس بن کیسان تابعی کہتے ہیں :
ورخص فى الركعتين بعد العصر.
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کی رخصت دی ہے۔“ [سنن ابي داود : 1284، السنن الكبريٰ للبيهقي : 476/2، وسنده حسن]

◈ امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رأيت عائشة تصلي بعد العصر ركعتين وهى قائمة، وكانت ميمونة تصلي أربعا، وهى قاعدة.
”میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا، وہ عصر کے بعد کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتی تھیں اورسیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھ کر چار پڑھتی تھی۔“ [الاوسط لابن المنذر : 394/2، وسنده حسن]
حماد بن سلمہ نے جمہور کے نزدیک عطاء بن سائب سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔

◈ اشعث بن ابی الشعثاء کہتے ہیں :
خرجت مع أبى و عمرو بن ميمون والأسود بن يزيد وأبي وائل، فكانوا يصلون بعد العصر ركعتين.
”میں نے اپنے باپ ابوالشعثاء، عمرو بن میمون، اسود بن یزید اور ابووائل کے ساتھ [سفر میں] نکلا، وہ سب عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابی شیبہ : 352/2، وسندہ صحیح ]

◈ عبداللہ بن عون کہتے ہیں :
رأيت أبا بردة بن أبى موسي يصلي بعد العصر ركعتين.
”میں نے ابوبردہ بن ابی موسیٰ کو عصر کے بعد دورکعتیں پڑھتے دیکھا۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 352/2، وسنده صحيح]

◈ ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عصر کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے، ان سے پوچھا : گیا تو فرمایا :
لولم أصلهما الا أني رأيت مسروقا يصليهما، لكان ثقة، ولكني سألت عائشة فقالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدع ركعتين قبل الفجر وركعتين بعد العصر.
”میں انہیں کیوں نہ پڑھوں، میں نے مسروق کو دیکھا ہے کہ وہ دو رکعتیں پڑھتے تھے، وہ ثقہ تھے، لیکن میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے او ر عصر کے بعد دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 352/2، وسنده صحيح]

↰ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ ایک کام جب شروع کرتے تو اس میں ہمیشگی اور دوام کو ملحوظ رکھتے تھے، تو یہ دو رکعتیں ظہر کے بعد والی رکعتیں ہیں جو چھوٹ گئی تھیں، اور ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ادا کیا، پھر مسلسل ادا کرتے رہے،

تو ہمارا جواب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود عصر کے بعد کون سی نماز پڑھتی تھیں ؟ یہ وہی نماز ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمائی تھی، صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت عصر کے بعد دو رکعتوں کے قائل و فاعل تھے۔
جو لوگ نماز عصر کے بعد دو رکعتوں کی ادائیگی سے روکتے ہیں، وہ خود کئی نمازیں نماز عصر کے بعد ادا کرنے کے قائل ہیں، مثلاً :
➊ ظہر کی چھوٹی ہوئی سنتیں۔
➋ جس نے نماز عصر اکیلے ادا کی، بعد میں جماعت پانے کی صورت میں اس کے جماعت کے ساتھ شامل ہونے کے جواز کے قائل ہیں، تو ظاہر ہے جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز عصر کے بعد چار رکعتیں نفلی نماز شمار ہوئی۔
➌ بارش کی نماز۔
➍ سورج گرہن کی نماز۔
➎ نماز جنازہ وغیرہ۔

↰ اگر کوئی یہ کہے کہ نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارتے تھے،

تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں :
لا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها.
”تم اپنی نمازوں کے ساتھ طلوع و غروب آفتاب کا وقت تلاش نہ کرو۔“ [موطا امام مالك : 173/1، وسنده صحيح]
↰ اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مارنا مطلق طور پر عصر کے بعد نماز پر نہ تھا، بلکہ ممنوع وقت یعنی غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے پر تھا۔

↰ اگر کوئی یہ کہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا یہ فرماتی ہیں :
وهم عمر، انما نهيٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يتحري طلوع الشمس و غروبها.
”عمر رضی اللہ عنہ کو وہم ہوا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو طلوع و غروب آفتاب کے خاص وقت میں نماز سے منع فرمایا تھا۔“ [صحيح مسلم : 833]

تو جواب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو صرف عمر رضی اللہ عنہ کا مطلق مارنا معلوم ہوا تھا، اس کا اصل سبب معلوم نہ ہوا تھا، اسی لیے آپ نے اس کام کو عمر رضی اللہ عنہ کا وہم قرار دیا، جب اصل حقیقت معلوم ہوئی تو خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارا بیان کردہ مطلب لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو مستحسن قرار دیا۔
◈ چنانچہ شریح بن ہانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ ظہر کی نماز پڑھتے، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے، پھر عصر کی نماز پڑھتے، اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے۔ میں نے سوال کیا، عمر رضی اللہ عنہ تو ان دو رکعتوں پر مارتے تھے اور ان سے منع کرتے تھے، اس پر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، خود عمر رضی اللہ عنہ ان دو رکعتوں کو پڑھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے، لیکن تیری دیندار قوم کے لوگ ناسمجھ تھے، وہ ظہر کے بعد عصر تک نماز پڑھتے رہتے، پھر عصر کے بعد مغرب تک نوافل پڑھتے رہتے، اس وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ ان کو مارا کرتے اور یہ آپ نے اچھا کیا۔“ [مسند السراج : 1530، وسنده صحيح]
◈ امام بن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فدلت الأخبار الثابتة عن النبى صلى الله عليه وسلم على أن النهي إنما وقع فى ذلك على وقت طلوع الشمس ووقت غروبها، فمما دل على ذلك حديث على بن أبى طالب، وابن عمر، وعائشه رضي الله عنها وهى أحاديث ثابتة بأسانيد جياد، لا مطعن لأحد من أهل العلم فيها.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث سے واضح ہوگیا ہے کہ نماز عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا تعلق صرف خاص طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سے ہے، ان احادیث میں سے سیدنا علی، سیدنا ابن عمر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کی احادیث ہیں، ان کی سندیں عمدہ ہیں، کسی اہل علم کو ان میں کوئی اعتراض نہیں۔“ [الاوسط لا بن المنذر : 388/2]

 

یہ تحریر اب تک 18 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply