عشرۂ ذی الحجہ اور ہم

تحریر:حافظ ندیم ظہیر
انسان کی زندگی میں بخشش و مغفرت کے کتنے ہی مواقع آتے ہیں جن کی وہ قدر نہیں کرتا اور پھر آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی قدر کھو دیتا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

          ﴿وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۹
          اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں ان کی اپنی جانیں بھلوادیں یہی لوگ نافرمان ہیں۔ (الحشر:۱۹) یعنی اپنی نجات کی فکر سے غافل ہوگئے اور اس بنا پر گناہوں میں پڑے رہے اور عذابِ آخرت سے بچنے کے لئے نیک اعمال کی راہ اختیار نہیں کی ۔ (اشرف الحواشی ص ۶۵۴)

          ماہِ رمضان (جو سارا مہینہ ہی رحمت و مغفرت کا ہے ) کو گزرے ابھی زیادہ مدت نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالحجہ عطا فرما کر عظیم موقع فراہم کیا (کہ جس کے ابتدائی دس دن بہت زیادہ فضیلت کے حامل ہیں ) تاکہ میرے بندے رہے سہی کسر ان ایام میں پوری کرکے میری محبت و قربت کے لئے مزید کوشاں ہوں۔

          سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک اعمال اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہو۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں ۔ سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال لے کر (جہاد کے لئے ) نکلا اور پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (حتیٰ کہ شہید ہوگیا)۔ (صحیح بخاری: ۹۶۹)

           ان دس دنوں میں کیا ہوا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہے تومعلوم ہوا کہ حصولِ محبتِ الہٰی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

          ان ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا محاسبہ کیجئے اور وہ نیک اعمال جو ہم سے سہوًا یا قصدًا رہ جاتے ہیں ان کو اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنائیں اور تمام قسم کی منکرات و خرافات جو ہم سے دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوتی ہیں، ان سے مکمل احتراز کریں۔

یومِ عرفہ کا روزہ:  ۹ ذوالحجہ کو یومِ عرفہ کہا جاتاہے۔ اس دن کا روزہ “سونے پہ سہاگا” کے مترادف ہے۔  یعنی ایک تو ان دس ایام کی فضیلت دوسرا ان فضیلت والے دنوں میں بڑی فضیلت والا عمل سرانجام دینا۔

          سیدنا ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرفہ کے روزے کی بابت پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: یہ (روزہ) گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم: ۱۱۶۲/۱۹۶)

سبحان اللہ ! رب العزت کتنا غفور و رحیم ہے ، ایک عمل سے روزہ رکھنے والے کے دو سال کے گناہ معاف فرمارہا ہے ۔ اب بھی جو سستی و کوتاہی سے کام لے تو اس سے بڑھ کر کون بدبخت و بدنصیب ہوسکتا ہے ؟ عرفہ کے روزے کے بارے میں تھوڑا سااختلاف کیا جاتا ہے ۔
          بعض کے نزدیک روزہ عرفہ کے دن ہی رکھا جائے خواہ ملک کے حساب سے قمری تاریخ ۸ ہو یا ۹ کیونکہ حدیث میں یومِ عرفہ کا ذکر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ۹ ذوالحجہ ہی کو روزہ رکھا جائے گا کیونکہ اس حدیث کے علاوہ بھی ایک روایت ہے ((کان رسول اللہﷺ یصوم تسع ذی الحجۃ)) رسول اللہ ﷺ نو (۹) ذوالحجہ کو روزہ رکھتے تھے۔ (سنن ابی داود : ۲۴۳۷ و إسنادہ صحیح)

          آخر الذکر قول راجح ہے ۔ پھر بھی مذکورہ دونوں اقوال میں تطبیق کی صورت موجود ہے اور وہ یہ کہ دو روزے رکھ لئے جائیں۔ واللہ اعلم !          اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل کماحقہ ہمیں اپنےدامن میں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری لغزشوں سے در گزر فرمائے ۔( آمین)

یہ تحریر اب تک 8 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply