عبادات میں بدعات اور سنت سے ان کارد

تحریر:حافظ زبیر علی زئی

بغیر کسی ضرورت کے دوبارہ وضو کرنا
اس عمل کے مستحب ہونے کے بارے میں بعض لوگ ایسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کی کوئی اصل نہیں ہے ، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ
((الوضوء علی الوضوء نور علی نور)) وضو پر وضو کرنا نور پر نور ہے ۔
(حافظ) عراقی کہتے ہیں :”مجھے اس روایت کی اصل نہیں ملی۔ ” ان سے پہلے یہی بات منذری نے کہی ہے۔ (حافظ) ابن حجر نے کہا:”اس کی سند ضعیف ہے ۔ اسے رزین نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ” (المقاصد الحسنۃ للسخاوی : ۱۲۶۴۔ اتحاف السادۃ المتقین للمرتضیٰ الزبیدی ۳۷۵/۲)
(حافظ) ابن حجر نے اس کی کوئی سند بیان نہیں کی جس سے ہم اس کی اصل پر مطلع ہوجاتے  ، تاہم اس حدیث پر موضوع روایات کے آثار ظاہر ہیں۔
بعض لوگوں کی دلیل ایک دوسری حدیث ہے کہ ((من توضأ علی طھر کتب اللہ لہ عشر حسنات)) جس نے وضو پر وضو کیا اللہ اس کے لئے دس نیکیاں لکھے گا۔ (سنن ابی داود : ۶۲، سنن ترمذی: ۵۹ وقال:”وھوإسناد ضعیفسنن ابن ماجہ : ۵۱۲، اس کی سند الافریقی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے )

یہ حدیث (ضعیف و) منکر ہے اس سے دلیل پکڑنا غلط ہے اس کا کوئی (معتبر) متابعت کرنے والا بھی نہیں ہے اور فضائلِ اعمال میں بھی اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا دارومدار عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم (الافریقی) پر ہے جو حدیث میں ضعیف تھا اور منکر روایات بیان کرتا تھا اور یہ روایت بھی ان منکر روایات میں سے ہے ۔ اس کا دوسرا راوی ابوغطیف الہذلی مجہول الحال ہے ۔ (امام ) ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
سنن ترمذی (۵۸) کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے :”انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے ، چاہے آپ کا پہلے سے وضو ہوتا یا نہ ہوتا ”
حمید الطّویل کہتے ہیں: میں نے انسؓ سے پوچھا کہ آپﷺ کس طرح وضو کرتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ “ہم ایک وضو سے (وضو ٹوٹنے   سے پہلے پہلے) ساری نمازیں پڑھ لیتےتھے ” امام ترمذیؒ نے اسے حسن غریب کہا ہے لیکن اس کی سند ضعیف و منکر ہے  ۔محمد بن اسحاق بن یسار مدلس ہے اور “عن” سے روایت کررہا ہے ۔ اس روایت میں امام ترمذیؒ کا استاد محمد بن حمید الرازی ضعیف ہے بلکہ بعض علماء نے اسے جھوٹا بھی قرار دیا ہے ۔ یہ روایت اس صحیح روایت کے خلاف ہے جس میں انسؓ فرماتے ہیں کہ “نبی ﷺ ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے” (عمرو بن عامر الانصاری نے کہا:) میں نے پوچھا، آپ (انسؓ) کیا کرتے تھے ؟ سیدنا انسؓ نے فرمایا کہ “ہم ساری نمازیں وضو ٹوٹنے سے پہلے ایک وضو سے پڑھتے تھے ۔” (صحیح بخاری : ۲۱۴)

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ اور صحابۂ کرام وضو پر وضو کرنے کا تکلف نہیں کرتے تھے بلکہ اگر وضو ٹوٹ جاتا تو پھر وضو کرتے تھے اور رہا یہ مسئلہ کہ آپﷺ نے ہر نماز کے لئے وضو کیا ہے تو یہ عمومی عمل ہے کیونکہ سوید بن النعمانؓ کی حدیث میں آیا ہے کہ آپﷺ نے عصر اور مغرب کی نماز ایک ہی وضو سے پڑھی ہے ۔ (صحیح بخاری: ۲۱۵)

پہلی حدیث زیادہ سے زیادہ اباحت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ استحباب پر ، ورنہ آپﷺ کے جانثار صحابہؓ اس پر عمل سے پیچھے نہ رہتے اور ممکن ہے کہ وضو پر وضو آپﷺ کی خصوصیت ہو ۔ [تنبیہ: صرف احتمال کی بنیاد پر خصوصیت ثابت کردینا صحیح نہیں ہے اس مسئلے میں حق یہی ہے کہ دونوں طرح جائز ہے اور وضو پر وضو کرنا جائز اور بہتر ہے ۔ واللہ اعلم]

جاہل عورتوں کی بدعات، اعضائے وضو کا نامکمل دھونا

بعض عورتیں یہ عذر تراش لیتی ہیں کہ ان کی آستینیں تنگ ہیں لہٰذا اعضائے وضو کا پورا دھونا مشکل ہے ۔ بعد میں ان کی یہی عادت بن جاتی ہے اور ساتھ ہی بڑی ڈھٹائی سے یہ جواب دیتی ہیں کہ اللہ ﷻ غفور و رحیم ہے ، وہ ہمارے دلوں کے بھید سے واقف ہے وغیرہ ، حالانکہ ایسے الفاظ گمراہ فرقہ مرجئہ کی زبانوں پر اکثر رہتےہیں۔ یاد رکھئے کہ آستینوں کی تنگی اعضائے وضو کے نامکمل دھونے کی دلیل نہیں بن سکتی ۔ اللہ کے رسول ﷺ تمام عبادات کوصحیح اور مکمل طریقے سے ادا کرتے تھے حالانکہ اللہ نے آپ کے ہر عمل پر اپنی رضامندی اور معافی کی مہر ثابت کررکھی ہے ۔ ایک دن آپﷺ وضو کررہے تھے ،آپ ﷺ کی قمیص مبارک کی آستین تنگ تھی تو آپﷺ نے قمیص کے نیچے سے اپنے ہاتھ باہر نکالے اور انہیں (پورا) دھویا۔ مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں :”ایک دن رسول اللہﷺ سفر میں پیچھے رہ گئے ، میں بھی آپ کے ساتھ تھا ، جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو پوچھا : کیا تیرے پاس پانی ہے ؟ میں پانی لے آیا ، آپﷺ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اور چہرہ مبارک دھویا، پھرآپﷺ نے کہنیوں سے کپڑا ہٹانے کی کوشش کی تاکہ بازو دھوئیں لیکن قمیص کی آستینیں تنگ تھیں، آپﷺ نے قمیص کے نیچے سے دونوں ہاتھ نکال کر کہنیوں تک دھوئے ۔ (صحیح بخاری: ۳۶۳، صحیح مسلم : ۲۷۴)
اگر وضو کے اعضاء پورے پورے نہ دھوئے جائیں تو وضو نہیں ہوتا ، جس کے نتیجے میں نماز باطل ہوجاتی ہے ۔ (والعیاذ باللہ!)
پاؤں دھونے میں بہت سے لوگوں کی غفلت اور تساہل پسندی

بہت سے لوگ قدموں کے شروع والے حصے کو دھو کر ٹخنے دھونا چھوڑ دیتے ہیں، جس سے بعض لوگوں کے ٹخنوں پر خشک جگہیں باقی رہ جاتی ہیں حالانکہ نبی ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ ابوہریرہؓ نے لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : پورا پورا وضو کرو کیونکہ میں نے ابوا لقاسم رسو ل اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ((ویل للاعقاب من النار))  وضو میں جو ایڑیاں خشک رہ جائیں گی ان کے لئے ہلاکت ہے آگ کے عذاب کی ۔(صحیح بخاری : ۱۶۵، صحیح مسلم : ۲۴۲)

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply