طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا: ایک مشہور من گھڑت قصہ

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال : بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انصار کی معصوم بچیاں درج ذیل اشعار گا رہی تھیں :
طلع البدر علينا من ثنيات الوداع
وجب الشكر علينا ما دعا لله داع
أيها المبعوث فينا جئت بالأمر المطاع

ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا
ہے اطاعت فرض تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیرا کبریا
دیکھئے رحمت للعالمین (93/1) اور الرحیق المختوم اردو (ص 241، 240)کیا یہ اشعار پڑھنے والا قصہ صحیح سند سے ثابت ہے ؟ (حبیب محمد)
الجواب : یہ واقعہ ان اشعار کے ساتھ ”رحمت للعالمین“ میں بغیر کسی حوالے کے مذکور ہے۔
قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری نے اس واقعے کے صحیح ہونے پر کوئی ایک بھی ناقابلِ تردید دلیل ذکر نہیں کی۔ صاحب الرحیق المختوم نے یہ واقعہ ”رحمت للعالمین“ سے نقل کیا ہے۔
یہ واقعہ بغیر سند کے المتہید لابن عبدالبر (84/14) کتاب الثقات لابن حبان (131/1) مجموع فتاوی ابن تیمیہ (377/18) اور الضعیفہ للالبانی (488) وغیرہ میں مذکور ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی لکھتے ہیں :
وقد روينا بسند منقطع فى الحلبيات قول النسوة لما قدم النبى صلى الله عليه وسلم : طلع البدر علينا من ثنيات الوداع، فقيل : كان ذلك عند قدومه فى الهجرة وقيل عند قدومه من غزوة تبوك
” اور (السبکی الکبیر کی) الحلبیات (کتاب) میں منقطع سند سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عورتوں نے طلع البدر علينا من ثنيات الوداع پڑھا، کہا جاتا ہے کہ یہ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کا واقعہ ہے۔ “ [فتح الباري ج 8 ص 129 تحت ح 4427 ]
جس منقطع روایت کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے وہ حافظ بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ (507، 506/2) میں صحیح سند کے ساتھ ابن عائشہ (راوی ) سے مروی ہے۔
تنبیہ : الخصائص الکبریٰ للسیوطی (190/1) میں یہ حوالہ عن عائشة چھپ گیا ہے جو کہ طباعت یا ناسخ کی غلطی ہے۔
بیہقی والی روایت ابن عائشہ سے مراد عبید اللہ بن محمد بن عائشہ ہیں جو 228؁ھ میں فوت ہوئے۔ [ تاريخ بغداد 318/10 ت 5462 وتقريب التهذيب : 4334 ]
غالباً یہی روایت ہے کہ جس کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”بسند منقطع“ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ اور یہی روایت الریاض النضرہ (480/1 ح 393) میں عن ابن عائشه وأراه عن أبيه کے ساتھ مروی ہے۔ اور آخر میں لکھا ہوا ہے کہ خرجه الحلواني على شرط الشيخين اسے الحلوانی نے بخاری و مسلم کی شرط پر روایت کیا ہے۔
تنبیہ : صاحب الریاض النضرہ کا مطلب یہ ہے کہ اسے حلوانی نے بخاری و مسلم کی شرط پر ابن عائشہ سے روایت کیا ہے۔ ابن عائشہ کے والد محمد بن حفص بن عمر بن موسیٰ مجہول الحال ہیں، ان کی توثیق سوائے ابن حبان کے کسی نے نہیں کی۔ دیکھئے [تعجيل المنفعه ص 363 ]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت عرصہ بعد ابن عائشہ کے والد اور پھر خود بن عائشہ پیدا ہوئے لہٰذا یہ سند سخت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
◈ حافظ ابن القیم لکھتے ہیں :
وهو وهم ظاهر لأن ثنيات الوداع و إنما هي من ناحية الشام، لا يراها و القادم من مكة إلى المدينة، ولا يمربها إلا إذا توجة إلى الشام
اور یہ (روایت) ظاہر طور پر وہم ہے کیونکہ ثنیات الوداع (مدینے سے ) شام کی طرف ہے۔ مکہ سے مدینہ آنے والا انہیں نہیں دیکھتا۔ ان کے پاس سے صرف وہی گزرتا ہے جو شام جاتا ہے۔ [زاد المعاد 551/3 ]
خلاصہ التحقیق : یہ قصہ ثابت نہیں ہے لہٰذا مردود ہے۔
تنبیہ : موارد الظمآن [ح 2015] کے ایک نسخے میں کسی مجہول کا تب نے ایک حسن روایت کے آخر میں :
وقالت : أشرق البدر علينا من ثنيات الوداع
وجب الشكر علينا ما دعا لله داع

کا اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن یہ اضافہ اصل صحیح ابن حبان مثلاً دیکھئے : [الاحسان : 4371 دوسرا نسخه : 4386] میں موجود نہیں ہے اور مجہول کا تب کی وجہ سے مردود و موضوع ہے۔ وما علينا إلا البلاغ (25 ربیع الاول 1428؁ھ)

 

یہ تحریر اب تک 232 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply