طریقہ نماز سے متعلق مشہور حدیثِ ابو حمید الساعدی، سند کی تحقیق اور شبہات کا ازالہ

تحریر: حافظ زبیر علی زئی

دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مجمع میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو حدیث بیان فرمائی تھی، سب سے پہلے سنن ابی داود سے اس کا متن مع ترجمہ پیش خدمت ہے۔ بعد میں اس کی تحقیق، راویوں کا دفاع اور رد کرنے والوں کے شبہات و خیانتوں کا جواب ہو گا۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا أحمد بن حنبل بحدثنا أبو عاصم الضحاك بن مخلد ح و حدثنا مسدد بحدثنا يحي۔ وهذا حديث أحمد۔ قال أخبرنا عبدالحميد يعني ابن جعفر أخبرني محمد بن عمرو بن عطاء قال سمعت أبا حميد الساعدي فى عشرة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم أبو قتادة، قال أبو حميد أنا أعلمكم بصلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا : فلم ؟ فو الله ! ماكنت بأكثرنا له تبعة ولا أقدمناله صحبة، قال يليٰ، قالوا : فاعرض، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلوة يرفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه، ثم كبر حتي يقر كل عظم فى موضعه معتدلا، ثم يقرأ، ثم يكبر فيرفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه، ثم يركع و يضع راحتيه على ركبتيه، ثم يعتدل فلا يصب رأسه ولا يقنع، ثم يرفع رأسه فيقول : سمع الله لمن حمدهٗ، ثم يرفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه معتدلا، ثم يقول : الله اكبر، ثم يهوي إلى الأرض فيجافي يديه عن جنبيه، ثم يرفع رأسه و يثني رجله اليسري فيقعد عليها، ويفتح أصابع رجليه إذا سجد، ثم يسجد، ثم يقول : الله أكبر و يرفع رأسه و يثني رجله اليسري فيقعد عليها حتي يرجع كل عظم إلى موضعه، ثم يصنع فى الأخري مثل ذلك، ثم إذا قام من الركعتين كبر ورفع يديه حتي يحاذي بهما منكبيه كما كبر عندافتتاح الصلوة، ثم يصنع ذلك فى بقية صلاته حتي إذا كانت السجدة التى فيها التسليم أخر رجله اليسري وقعد متوركا على شقه الأيسر، قالوا : صدقت، هكذا كان يصلي صلى الله عليه وسلم [سنن أبی داود، کتاب الصلوۃ باب افتتاح الصلوۃ ح 730و سندہ صحیح]
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، جن، میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، کے مجمع میں فرمایا : میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانتا ہوں، انہوں نے کہا: کیسے ؟ اللہ کی قسم ! آپ نے نہ تو ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ہے اور نہ ہم سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بنے تھے۔ انہوں ( سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ ) نے کہا: جی ہاں ! صحابیوں نے کہا: تو پیش کرو !، ( سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے ) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے ) پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال سے ٹھہر جاتی۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرتے، پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ اعتدال سے ٹھہر جاتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرتے، پھر تکبیر کہتے تو کندھوں تک رفع یدین کرتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھتے۔ پھر (پیٹھ سیدھی کرنے میں) اعتدال کرتے، نہ تو سر زیادہ جھکاتے اور نہ اٹھائے رکھتے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک اور پیٹھ ایک سیدھ میں برابر ہوتے تھے ) پھر سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمدهٗ کہتے، پھر کندھوں تک اعتدال سے رفع یدین کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے۔ (سجدے میں) اپنے دونوں بازو اپنے پہلوؤں سے دور رکھتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں دھرا کر کے (بچھا کر) اس پر بیٹھ جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنی انگلیاں کھلی رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے اور سجدے سے سر اٹھاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بایاں پاؤں دھرا کر کے اس پر بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی۔ پھر دوسری رکعت میں (بھی ) اسی طرح کرتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور کندھوں تک رفع یدین کرتے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع نماز میں رفع یدین کیا تھا۔ پھر باقی نماز بھی اسی طرح پڑھتے حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا (آخری) سجدہ ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تورک کرتے ہوئے، بایاں پاؤں (دائیں طرف) پیچھے کرتے ہوئے، بائیں پہلو پر بیٹھ جاتے تھے۔ (سارے ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا: صدقت، هكذا كان يصلي صلى الله عليه وسلم آپ نے سچ کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
? اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔

اب تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں۔

نور البصر فی توثیق عبدالحمید بن جعفر

مشہور راوی حدیث عبدالحمید بن جعفر بن عبداللہ بن الحکم بن رافع الانصاری سے روایت ہے کہ :
أخبرني محمد بن عمرو بن عطاء قال : سمعت أبا حميد الساعدي فى عشرة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم أبو قتادة…. إلخ
مجھے محمد بن عمرو بن عطاء (القرشی العامری المدنی) نے حدیث سنائی ، کہا : میں نے سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں بشمول سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہوئے سنا …..إلخ
مفہوم : اس روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے [سنن أبى داود : 730 وسنده صحيح، الترمذي : 304 وقال : حسن صحيح، ابن خزيمه : 587، 588، ابن حبان، الإحسان : 1864، و صحيحه البخاري فى جزء رفع اليدين : 102، وابن تيمية فى الفتاوي الكبري 105/1و مجموع فتاوي 453/22 و ابن القيم فى تهذيب سنن أبى داود 416/2 و الخطابيي فى معالم السنن 194/1]
? اس حدیث کو درج ذیل علماء کرام نے صحیح قرار دیا ہے۔
① الترمذی ② ابن خزیمہ ③ ابن حبان ④ البخاری ⑤ ابن تیمیہ ⑥ ابن القیم ⑦ الخطابی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین اس حدیث کے راویوں کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے۔

عبدالحمید بن جعفر رحمہ اللہ

1۔ یحییٰ بن معین نے کہا : ثقة۔ [تاريخ عثمان بن سعيد الدارمي : 263، 610]
2۔ احمد بن حنبل نے کہا: ثقة ليس به باس۔ [تهذيب الكمال 11/41 و كتاب الجرح و التعديل 6/10 و سنده صحيح]
3۔ ابن سعد نے کہا: وكان ثقة كثير الحديث۔ [الطبقات الكبريٰ ج 10ص 400و تهذيب الكمال 11/42]
4۔ ساجی نے کہا: ثقة صدوق۔ [تهذيب التهذيب 6/112]
5۔ یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا: ثقة۔ [كتاب المعرفة و التاريخ 2/458]
6۔ ابن شاہین نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ [ص 159، فقرہ : 910]
7۔ علی ابن المدینی نے کہا: وكان عندنا ثقة…إلخ۔ [سوالات محمد بن عثمان بن أبى شيبه : 105]
8۔ ان کے علاوہ مسلم بن الحجاج [صحیح مسلم : 533/25….إلخ]
9۔ ترمذی، 10۔ ابن خزیمہ اور 11۔ بخای نے عبدالحمید بن جعفر کی حدیث کو صحیح قرار دے کر اس کی ثوثیق کی۔
12۔ ذہبی نے کہا: الإمام المحدث الثقة۔ [سير أعلام النبلاء 20/7، 21]
13۔ ابن نمیر نے اسے ثقه کہا۔ [تهذيب التهذيب 112/6]
14۔ یحیی بن سعید القطان اسے ثقه کہتے تھے إلخ۔ [تهذيب التهذيب 112/6]
15۔ ابوحاتم الرازی نے کہا: محله الصدق۔
16۔ ابن عدی نے کہا: أرجوأنه لابأس به وهو يكتب حديثه۔ [تهذيب التهذيب 112/6]
17۔ ابن حبان نے کہا: أحد الثقات المتقنين إلخ۔ [صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، نسخه محققه ج 5ص 184 قبل ح 1865]
18۔ ابن القطان الفاسی نے کہا: وعبدالحميد ثقه إلخ۔ [بيان الوهم والإيهام فى كتاب الاحكام ج 3 ص 514ح 1287]
19۔ عبدالحق الاشبیلی نے عبدالحمید بن جعفر کی اس حدیث کو صحیح متصل قرار دیا ہے۔ [بيان الوهم والإيهام 463/2 ح 462]
20۔ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو صحيح کہا۔ [المستدرك 500/1 ح 1842]
21۔ بوصیری نے اس حدیث کو هذا اسناد صحيح کہا۔ [زوائد ابن ماجه : 1434]
22۔ ابن تیمیہ، 23۔ خطابی اور 24۔ ابن القیم نے اس کی بیان کردہ حدیث کو صحيح کہا۔
25۔ بیہقی نے عبدالحمید بن جعفر پر طحاوی کی جرح کو مردود کہا۔ [معرفة السنن و الآثار 558/1 تحت 786]
26۔ ابن الجارود نے منتقیٰ میں روایت کر کے اس حدیث کو صحيح قرار دیا۔ [المنتقيٰ : 192]
27۔ زیلعی حنفی نے کہا: ولكن وثقه اكثر العلماء ”اور لیکن اکثر علماء نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے“ [نصب الرايه 344/1] ،
اس کے بعد زیلعی کا إنه غلط فى هذا الحديث لکھنا مردود ہے۔
28۔ الضیاء المقدسی نے اس کی حدیث کو صحيح قرار دیا۔ [ديكهئے المختارة 516/1 ح 384]
29۔ ابونعیم الاصبہانی 30۔ اور ابوعوانہ الاسفرائنی نے عبدالحمیدبن جعفر کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔ [ديكهئے المسند المستخرج على صحيح مسلم لابي نعيم 134/2 ح 1175، مسند ابي عوانة 391/1]
31۔ نسائی نے کہا: ليس به بأس۔ [تهذيب التهذيب 112/6]

اس جم غفیر کی توثیق کے مقابلے میں :
① سفیان ثوری، ② طحاوی، ③ یحییٰ بن سعید القطان، ④ نسائی اور ⑤ ابوحاتم الرازی کی جرح ہے جو جمہور کی تعدیل کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ◈ سفیان ثوری کی جرح کا سبب مسئلہ قدر ہے، اس کی تردید ذہبی نے مسکت انداز میں کر دی ہے۔ [ديكهئے سير اعلام النبلاء 21/7]
? ثقہ راوی پر قدری وغیرہ کی جرح مردود ہوتی ہے۔
◈ یحییٰ القطان، نسائی اور ابوحاتم الرازی کی جرح ان کی تعدیل سے معارض ہے۔
◈ طحاوی کی جرح کو بیہقی نے رد کر دیا ہے۔
◈ نسائی کے قول ليس به بأس کے لئے دیکھئے تہذیب الکمال [41/11] و سیراعلام النبلاء [21/7] و تاریخ للذھبی [476/9]
◈حافظ ابن القیم نے عبدالحمید بن جعفر پر جرح کو مردود قرار دیا ہے۔ [تهذيب السنن مع عون المعبود 421/2]
◈ عبدالحمید مذکور پر طحاوی کی جرح جمہور کی توثیق کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
? ابوحاتم کی جرح باسند صحیح نہیں ملی اور اگر مل بھی جائے تو جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ [ نیز دیکھئے توثیق کرنے والے : 15 ]
خلاصہ التحقیق : عبدالحمیدبن جعفر ثقہ و صحیح الحدیث راوی ہیں۔ والحمدلله

صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن اربعہ کے مرکزی راوی محمد بن عمرو بن عطاء القرشی العامری المدنی کا مختصر و جامع تعارف پیش خدمت ہے۔

2۔ محمد بن عمرو بن عطاء

1۔ ابوزرعہ الرازی نے کہا: ثقه۔ [الجرح و التعديل 29/8 و سنده صحيح ]
2۔ ابوحاتم الرازی نے کہا: ثقه صالح الحديث۔ [الجرح و التعديل 29/8]
3۔ ابن سعد نے کہا: وكان ثقه له أحاديث۔ [الطبقات الكبريٰ، القسم المتمم ص 123، 124]
4۔ ابن حبان نے اسے كتاب الثقات میں ذکر کیا۔ [368/5]
5۔ بخاری 6۔ مسلم 7۔ الترمذی 8۔ ابن خزیمہ 9۔ خطابی نے اس کی حدیث کو صحيح قرار دیا۔
10۔ ابن تیمیہ 11۔ ابن الجارود [المنتقی : 192] 12۔ ابن القیم نے اس کی حدیث کو صحيح قرار دیا۔
13۔ ذہبی نے کہا: أحد الثقات۔ [سير أعلام النبلاء 225/5]
14۔ ابن حجر العسقلانی نے کہا:
ثقة …. ووهم من قال : إن القطان تكلم فيه، أوإنه خرج مع محمد بن عبدالله بن حسن فإن ذاك هوابن عمرو بن علقمة الآتي۔ [تقريب التهذيب : 6187]
15۔ نسائی نے کہا: ثقة۔ [تهذيب الكمال 112/17]
16۔ ابوعوانہ الاسفرائنی نے اس کی حدیث کو صحیح کہا۔ [مسند ابي عوانه 269/1]

17۔ ابونعیم الاصبہانی [المستخرج على صحيح مسلم 396/1 ح 793] نے اس کی حدیث کو صحیح کہا۔
18۔ الضیاء المقدسی نے اس کی حدیث کو المختارہ میں روایت کر کے صحیح قرار دیا ہے۔ [المختاره 63/13 ح 96]
19۔ حاکم نے اس کی حدیث کو صحيح على شرط الشيخين کہا۔ [المستدرك 381/1ح 1406]
20۔ ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان المدنی نے کہا: وكان امرئي صدق۔ [تهذيب الكمال 112/17]
21۔ ابن القطان الفاسی نے کہا: احد الثقات۔ [نصب الراية 371/2، بيان الوهم والإيهام 367/5 ح 2540]
22۔ ابومحمد (عبدالحق الاشبیلی) اس کی حدیث کو صحیح کہتے ہیں۔ [بيان الوهم والإيهام 368/5]
23۔ زیلعی حنفی نے ابن القطان کی توثیق نقل کر کے تردید نہیں کی۔ [نصب الرايه 371/2]
24۔ محمد بن عمرو بن عطاء کی حدیث سے عینی حنفی نے حجت پکڑی۔ [ديكهئے شرح سنن ابي داود للعيني ج 5 ص 177ح 12560]
25۔ نووی محمد بن عمرو بن عطاء کی حدیث سے حجت پکڑی اور اسے صحیح اور حسن قرار دیا۔ [ديكهئے خلاصة الأحكام 344/1 ح 1041- 1044 و ص 394 ح 1245]
26۔ حسن بن مسعود البغوی نے اس کی حدیث کو صحیح کہا۔ [شرح السنة 15/13 ح 557]
27۔
حافظ ابن القیم نے کہا: فإنه من كبار التابعين المشهورين بالصدق و الأمانة و الثقة۔ [تهذيب السنن مع عون المعبود 421/2]

اس جم غفیر کے مقابلے میں :
ابن القطان الفاسی نے محمد بن عمرو پر یحییٰ بن سعید القطان اور سفیان ثوری کی جر ح نقل کی ہے۔ [تهذيب التهذيب 374/9] یہ جرح دو وجہ سے مردود ہے۔
① یہ جمہور کے خلاف ہے۔
② اس جرح کا تعلق محمد بن عمرو بن عطاء سے نہیں بلکہ محمد بن عمرو بن علقمۃ اللیثی سے ہے، دیکھئے تہذیب التہذیب [374/9، دوسرا نسخه 332/9]

تنبیہ : محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی پر بھی جرح مردود ہے، وہ قول راجح میں صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔ والحمدلله
خلاصہ التحقیق : محمد بن عمرو بن عطاء المدنی بالاجماع یا عندالجمہور ثقہ و صحیح الحدیث راوی ہے۔

تنبیہ : احمد یار نعیمی بریلوی رضاخانی نے کذب و افترا کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

محمد بن عمرو ایسا جھوٹا راوی ہے کہ اس کی ملاقات ابوحمید ساعدی سے ہرگز نہ ہوئی، مگر کہتا ہے سمعت میں نے ان سے سنا، ایسے جھوٹے آدمی کی روایت موضوع یا کم سے کم اول درجہ مدلس ہے۔ [جاء الحق حصه دوم ص 65 چهٹا باب رفع يدين كرنا منع هے، دوسري فصل]

? محمد بن عمرو بن عطاء المدنی رحمہ اللہ کو کسی محدث نے بھی جھوٹا نہیں کہا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ احمد یار نعیمی بذات خود بہت بڑا جھوٹا راوی ہے۔ یہ احمد یار نعیمی وہی شخص ہے جس نے لکھا ہے کہ : قرآن کریم فرماتا ہے۔ وَ كَثِيْر مّنْهُمْ عَليَ الْهُديٰ۔ وكَثِيْر حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ [جاء الحق حصه دوم ص 39 چوتها باب، امام كے پيچهے مقتدي قرأت نه كرے، دوسري فصل]
? حالانکہ قرآن کریم میں احمد یار کی بیان کردہ آیت موجود نہیں ہے۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ بولتے نہیں شرماتا وہ محمد بن عمرو بن عطاء اور ثقہ راویوں کے خلاف جھوٹ لکھنے سے کب شرماتا ہے ؟

سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سن وفات

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کی تردید کے لئے جمہور محدثین کے اقوال اور دندان شکن دلائل پیش خدمت ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بہت بعد 54؁ھ میں فوت ہوئے تھے۔
1 : امام لیث بن سعد المصری (متوفی 175ھ) فرماتے ہیں کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [كتاب المعرفة و التاريخ للامام يعقوب بن سفيان ج 3ص 322 و سنده صحيح، معرفة السنن و الآثار للبيهقي 558/1 ح 787 و سنده صحيح]
2 : سعید بن عفیر (متوفی 226؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ بغداد 161/1 ت 10و سنده صحيح]
3 : محمد بن عبداللہ بن نمیر (متوفی 337؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [المعجم الكبير للطبراني 240/3ح 3275 و سنده صحيح]
4 : یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر (متوفی 231؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔
[المعجم الكبير للطبراني 40/3 ح 3274 وسنده صحيح]
5 : ابراہیم بن المنذر ( متوفی 236؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني 749/2 ح 1992، والمستدرك للحاكم 480/3]
6 : یحییٰ بن معین (متوفی 233؁ھ) نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔
[كتاب الكنيٰ للدولابي 49/1]
7 : ابوجعفر عمرو بن علی الفلاس نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ مدینہ میں 54؁ھ میں فوت ہوئے۔
[تاريخ دمشق لابن عساكر 115/71]
8 : ابن البرقی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ دمشق 107/71]
9 : ابواحمد الحاکم نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ دمشق 107/71]
10 : ترمذی رحمه الله نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تهذيب السنن لابن القيم مع عون المعبود 422/2]
11 : ابوعبداللہ بن مندہ الحافظ نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [ايضا 422/2ومعرفة السنن و الآثار 558/1]
12 : امام بیہقی رحمه الله نے کہا: اہل تاریخ کا اس پر (امام بیہقی کے زمانے میں) اجماع ہے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے [معرفة السنن والآثار 558/1 قبل ح 787]
13 : ذہبی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تجريد اسماء الصحابة 194/2، الاعلام بوفيات الاعلام 37/1 ت 131]
14 : ابن کثیر نے انہیں 54؁ھ کی وفیات میں ذکر کیا ہے۔ [البدايه و النهايه 70/8]
15 : ابن حبان نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ إلخ [الثقات 74/3]
16 : خلیفہ بن خیاط نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ خليفه بن خياط ص 223]
17 : امام بخاری رحمه الله نے آپ رضی اللہ عنہ کو 50؁ھ کے بعد 60؁ھ تک وفیات میں ذکر کیا ہے۔ [التاريخ الصغير 131/1]
18 : ابن حجر العسقلانی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تقريب التهذيب : 8311]
19 : ابن الجوزی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [المنتظم 268/5]
20 : ابن العماد الحنبلی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [شذرات الذهب 60/1]
21 : عینی حنفی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ (ایک قول میں) 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [عمدة القاري 294/2 ح 153 باب النهي عن الاستنجاء باليمين]

اس جم غفیر اور جمہور کے مقابلے میں حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی حیاتی نے ہثیم بن عدی (کذاب) سے نقل کیا ہے کہ (سیدنا ) ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 38؁ھ میں فوت ہوئے [نور الصباح ص 207] حنبل بن اسحاق نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ 38؁ھ میں فوت ہوئے [تاريخ بغداد 161/1]

? یہ اقوال جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
◈ ہثیم بن عدی كذاب پر جرح کے لئے دیکھئے میزان الاعتدال [324/4 ت 9311] و عام کتب المجروحین۔
◈امام یحییٰ بن معین نے کہا: كوفي، ليس بثقة، كذاب [الجرح و التعديل 75/9و سنده صحيح]

? کیا خیال ہے اگر ہم بھی ہثیم بن عدی (کذاب) کے مقابلے میں محمد بن عمر الواقدی (کذاب علی الراجح) کی روایت پیش کر دیں تو . . . . جو اس نے یحییٰ بن عبداللہ بن ابی قتادہ [وثقه ابن حبان / الثقات 594/7، و صحح له الحاكم فى المستدرك 353/1ح 1305 ووافقه الذهبي] سے نقل کی ہے کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں 54؁ھ میں فوت ہوئے تھے۔ [طبقات ابن سعد 15/6 و سنده صحيح الي الواقدي]

یاد رہے کہ حنفیوں و بریلویوں اور بعض دیوبندیوں کے نزدیک واقدی کذاب نہیں ہے۔
◈ ابن ہمام حنفی نے کہا: وهذا تقوم به الحجة عندنا إذا وثقنا الواقدي إلخ [فتح القدير ج 1ص 69]
◈ احمد رضا خان بریلوی نے کہا: ”امام واقدی ہمارے علماء کے نزدیک ثقہ ہیں“ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 526] نیز دیکھئے منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین [ص91] اور الامن و العلیٰ [ص 77، 79]
◈ عبدالحق دیوبندی، اکوڑہ خٹک والے نے کہا: ”کیونکہ واقدی کی روایت اگرچہ حلال و حرام کے مسائل میں حجت نہیں ہے اور حدیث میں وہ ضعیف ہیں مگر تاریخ میں ان کی روایت جمہور تسلیم کرتے ہیں “ [حقائق السنن ج 1 ص 286]
◈ نیز دیکھئے آثار السنن [تحت ح 7] و سیرۃ المصطفیٰ از محمد ادریس کاندھلوی [ج1 ص 77-80]

ایک روایت کا جائزہ

بعض الناس نے موسی بن عبداللہ بن یزید کی روایت پیش کی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھایا تھا . . . . إلخ

? اس روایت کے بارے میں :
◈ حدیث کے امام بیہقی رحمه الله نے فرمایا :
وهو غلط لإجماع أهل التورايخ….
یعنی یہ روایت اہل تاریخ کے نزدیک بالاجماع غلط ہے۔ [معرفة السنن و الآثار ج 1 ص 558]

◈ حافظ ابن القیم نے کہا:
وقد خطأ الأئمة رواية موسي هذه ومن تابعه وقالوا : هي غلط إلخ
اور اماموں نے موسی (بن عبداللہ بن یزید) کی اس روایت کو خطا قرار دیا ہے۔ اور جو لوگ اس روایت کی اتباع کرنے والے ہیں (مثلاً طحاوی حنفی ) انہیں بھی غلط قرار دیا ہے۔ امام کہتے ہیں کہ یہ روایت غلط ہے۔ [تهذيب السنن 423/2]
? جمہور ائمہ کرام کے مقابلے میں دیوبندیوں و بریلویوں اور بعض حنفیوں کا اس روایت کو صحیح قرار دینا غلط ہے دوسرے یہ کہ اس روایت میں موسی مذکور نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زندہ موجود تھے۔

تنبیہ بلیغ :

عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی رحمه الله کی کتاب ”معجم الصحابۃ“ میں لکھا ہے کہ : عن موسي الأنصاري قال : أتانا على رحمه الله فصلي على أبى قتادة فكبر سبعة [ج 2ص 40ح 436]

? اس کی سند اسماعیل بن ابی خالد مدلس کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اسماعیل مذکور کی تدلیس کے لئے دیکھئے [طبقات المدلسين 2/36، والراجح انه من المرتبة الثالثة] و [ميزان الاعتدال 460/1] ، و [ جامع التحصيل للعلائي ص105] و [المدلسين لابي زرعة بن العراقي 3] و [ المدلسين للسيوطي ص3] و [ المدلسين للحلبي ص 14] و [ منظومة ابي محمود المقدسي]۔

بعض لوگ شعبی (تابعی) کی منقطع روایت پیش کرتے ہیں۔

مجھے یہ روایت باسند نہیں ملی۔ والله اعلم

بعض الناس نے ”امام حسن بن عثمان“ کا قول بغیر کسی سند کے پیش کیا ہے، دیکھئے [نور الصباح ص 206]

حسن بن عثمان نام کے دو روایوں کا ذکر لسان المیزان [220، 219/2] میں ہے اور یہ دونوں مجروح ہیں۔

ایک عظیم الشان دلیل

◈ امام نافع (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کا جنازہ پڑھا، لوگوں میں سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود تھے۔ إلخ [سنن النسائي 72، 71/4 ح 1980 و سنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 465/3 ح 6337 و سنده صحيح، منتقي ابن الجارود : 545]
◈عمار بن ابی عمار مولی الحارث بن نوفل سے روایت ہے کہ میں نے ایک عورت (ام کلثوم) اور ان کے بیٹے کا جنازہ پڑھا۔ جنازہ پڑھانے والوں میں سیدنا ابوسعید الخدری سیدنا ابن عباس، سیدنا ابوقتادہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ إلخ [سنن النسائي 71/4 ح 1979 و سنده صحيح]
◈ جس عورت کا جنازہ پڑھا گیا تھا یہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ تھیں۔ [سنن ابي داؤد : 3193 و هو صحيح بالشواهد]
◈ ابن سعد نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے حالات میں عمار بن ابی عمار سے نقل کیا کہ میں ان کے جنازے میں حاضر تھا، ان کا جنازہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھایا، جو اس وقت مسلمانوں کے امیر تھے۔ [طبقات ابن سعد 464/8، 465 و سنده صحيح]
◈ عبداللہ البہی کہتے ہیں کہ میں حاضر تھا جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا تھا۔ [طبقات ابن سعد 464/8 و سنده صحيح]
◈ عمار بن ابی عمار سے ہی روایت ہے کہ میں جنازے میں حاضر تھا اور لوگوں میں سیدنا ابوسعید الخدری، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا ابوقتادہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ [التاريخ الصغير للبخاري 129/1 و سنده صحيح، عطاء هو ابن ابي رباح]
◈ سنن النسائی وغیرہ میں ہے کہ اس وقت (مدینہ میں) لوگوں کے امام (یعنی امیر) سعید بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔ [النسائي 71/4 ح 1980 و سنده صحيح]
◈ سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ 48؁ھ سے 55؁ھ تک اقتدار میں رہے۔ [تهذيب السنن 423/2]
◈ آپ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کئی دفعہ مدینہ کے والی (امیر) بنے۔ [تاريخ الاسلام للذهبي 225/4] سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ 60؁ھ میں فوت ہوئے [تقريب التهذيب : 6758]
◈ سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ 60؁ھ سے پہلے فوت ہوئے، 58؁ھ وغیرہ [ ديكهئے تقريب التهذيب 2337] [وکتب التاریخ]
? یہ بات عقلاً محال ہے کہ 38؁ھ میں فوت ہونے والا شخص 50؁ھ اور 60؁ھ کے درمیان میں فوت ہونے والے کے جنازے میں شامل ہو، لہذا درج بالا روایت نص قاطع اور دلیل واضح ہے کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 50؁ھ کے بعد (یعنی 54؁ھ) میں فوت ہوئے۔ آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فوت نہیں ہوئے۔ یہ ایسی دلیل ہے جس کا کوئی جواب کسی حنفی و دیوبندی و بریلوی کے پاس نہیں ہے۔ والحمدلله

خلاصہ التحقیق : سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے محمد بن عمرو بن عطاء کی روایت منقطع نہیں ہے بلکہ متصل ہے۔ طحاوی اور ان کے مقلدین کا یہ دعویٰ کہ سیدنا ابوقتاد ہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں فوت ہو گئے تھے، غلط اور باطل ہے۔ صحیح و متصل روایات اس دعویٰ کو غلط اور باطل قرار دے رہی ہیں۔

ایک اور دندان شکن دلیل

◈ (مروی ہے کہ) مہلب بن ابی صفرہ نے 44؁ھ میں قندابیل (ہند) پر حملہ کیا۔ کابل کے قیدیوں میں سے مکحول، نافع مولی ابن عمر، کیسان والد ایوب السختیانی اور سالم الافطس تھے۔ [تاريخ خليفه بن خياط ص 206 و تاريخ الاسلام للذهبي ج 4 ص 12 حوادث سنة أربع و أربعين]
? معلوم ہوا کہ امام نافع رحمه الله مدینہ طیبہ میں 44؁ھ یا اس کے بعد لائے گئے۔

◈ نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
فنظرت إلى ابن عباس وأبي هريرة و أبى سعيد و أبى قتادة فقلت : ماهذا ؟ قالوا ! هي السنة
”پس میں نے ابن عباس، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ [سنن النسائي 71، 72/4 ح 1980 وسنده صحيح]
? اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وفات 40؁ھ کے بعد، کم از کم 44؁ھ یا اس کے بعد سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ زندہ موجود تھے۔ لہذا حنفیوں و بریلویوں و دیوبندیوں کا یہ پروپیگنڈا کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 40؁ھ میں یا اس سے پہلے فوت ہو گئے تھے، بے بنیاد ہے۔

ایک اور دلیل

◈ شاہ ولی اللہ الدہلوی کہتے ہیں کہ :
”صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں۔ جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔“ [حجة الله البالغه اردو ج 1 ص 242 مترجم عبدالحق حقاني]
◈ رشید احمد گنگوہی نے کہا:
”مگر کتاب بخاری اصح الکتب میں جو چودہ روز مذکور ہیں وہ سب سے راجح ہے۔“ [تاليفات رشيديه ص 337]
◈ محمد تقی عثمانی نے کہا:
”جہاں تک صحیحین اور مؤطا کا تعلق ہے ان کے بارے میں اتفاق ہے کہ ان کی تمام احادیث نفس الامر میں بھی صحیح ہیں۔“ [درس ترمذي ج 1ص 63]
◈ احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک صحیحین کا بڑا مقام ہے، وہ کسی شخص کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
”کیا قسم کھائے بیٹھے ہو کہ صحیحین کا رد ہی کر دو گے ! . . . . صحیحین سے عداوت کہاں تک بڑھے گی۔“ [فتاوي رضويه/ جديد ج 5 ص 180]
◈ احمد رضا خان لکھتے ہیں :
”یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخار ی و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔“ [فتاوي رضويه 174/5]
? محدثین کرام اور اہل حدیث کے نزدیک بھی صحیحین کی مسند متصل مرفوع تمام احادیث صحیح ہیں۔ دیکھئے [اختصار علوم الحديث لابن كثير ص 33، 23] و [علوم الحديث لابن الصلاح ص 41، 42 دوسرا نسخه ص 97] اور ثنا اللہ الزاہدی (اہلحدیث) کا رسالہ [أحاديث الصحيحين بين الظن و اليقين] والحمدلله

◈ صحیح بخاری میں ہے کہ :
عن محمد بن عمرو بن عطاء أنه كان جالسا فى نفر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فذ كرنا صلاة النبى صلى الله عليه وسلم فقال أبوحميد الساعدي . . . .
”محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ (محمد بن عمرو بن عطاء نے کہا:) پس ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر کیا تو ”سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا . . . .“ [كتاب الاذان باب سنة الجلوس فى التشهدح 828]
? صحیح حدیث سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوا کہ :
➊ محمد بن عمرو بن عطاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مجلس میں موجود تھے۔
➋ اس مجلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہوا تھا۔
➌ سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے محمد بن عمرو بن عطاء کے سامنے حدیث سنائی تھی۔ رہا یہ مسئلہ کہ اس مجلس میں کون کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے تو ان میں سے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا ذکر عبدالحمید بن جعفر ثقه کی عن محمد بن عمرو بن عطاء والی روایت میں موجود ہے۔ والحديث يفسر بعضه بعضا، والحمدلله

ایک اور دلیل

◈ محمد بن عمرو بن عطاء کی روایت کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ محمد بن اسحاق (بن یسار) نے عباس بن سہل بن سعد الساعدی [ثقه / تقريب التهذيب : 3170] سے نقل کیا ہے کہ :
كنت بالسوق مع أبى قتادة و أبى أسيد وأبي حميد كلهم يقول : أنا أعلمكم بصلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا لأحدهم : صل…. إلخ
”میں سیدنا ابوقتادہ، سیدنا ابواسید اور سیدنا ابوحمید کے ساتھ بازار میں تھا۔ ان میں سے ہر آدمی یہ کہہ رہا تھا کہ میں تم میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جانتا ہوں، تو انہوں نے ایک کو کہا: تو نماز پڑھ….إلخ“
[جزء رفع اليدين بتحقيقي : 6 وصحيح ابن خزيمه : 681 و اتحاف المهرة باطراف العشرة ج 14 ص 82 ج 17450]
? یہ روایت حسن ہے۔ ابن اسحاق نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔

محمد بن اسحاق بن یسار کا حدیث میں مقام

محمد بن اسحاق پر محدثین کا اختلاف ہے۔ امام مالک رحمه الله وغیرہ نے اسے کذاب کہا ہے لیکن جمہور محدثین نے انہیں ثقہ و صدوق، صحیح الحدیث اور حسن الحدیث قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب ”نور العینین فی [اثبات] مسئلہ رفع الیدین“ [ص42، 43 طبع سوم]

◈ زیلعی حنفی نے کہا:
وابن إسحاق الأكثر على توثيقه ”اور ابن اسحاق کو اکثر نے ثقہ قرار دیا ہے۔“ [نصب الرايه ج 4 ص 7]
◈ عینی حنفی نے کہا:
إن ابن إسحاق من الثقات الكبار عندالجمهور
”بے شک ابن اسحاق جمہور کے نزدیک بڑے ثقات (ثقہ راویوں) میں سے ہے۔“ [عمدة القاري 270/7]
◈ محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی نے کہا:
”جمہور علماء نے اس کی توثیق کی ہے۔ [سيرت المصطفيٰ ج 1 ص 76]
◈ نیز دیکھئے تبلیغی نصاب از محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی [ص 595] وفضائل ذکر [ص117]
◈ احمد رضا خان بریلوی نے کہا:
محمد بن اسحاق تابعي ثقة امام السير المغازي [الأمن والعلي ص 170]
◈ احمد رضا خان نے مزید کہا:
”ہمارے علماء کرام قدست اسرار ہم کے نزدیک بھی راجح محمد بن اسحاق کی توثیق ہی ہے۔“ [منير العين فى حكم تقبيل الابهامين ص 145 حاشيه]

تنبیہ : جمہور کی اس توثیق و تعدیل کے مقابلے میں سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ :

”محمد بن اسحاق کو گو تاریخ اور مغازی کا امام سمجھا جاتا ہے لیکن محدثین اور ارباب جرح و تعدیل کا تقریبا پچانوے فیصدی گروہ اس بات پر متفق ہے کہ روایت حدیث میں اور خاص طور پر سنن اور احکام میں ان کی روایت کسی طرح بھی حجت نہیں ہو سکتی اور اس لحاظ سے ان کی روایت کا وجود اور عدم بالکل برابر ہے۔“ [احسن الكلام ج 2 ص 70 طبع دوم]

? یہ کہنا کہ محمد بن اسحاق پچانوے فیصدی محدثین جرح کرتے ہیں، صفدر صاحب کا بہت بڑا جھوٹ ہے۔
? بعض لوگوں نے ابن اسحاق کی احکام میں روایات پر جرح کی ہے لیکن جمہور محدثین نے احکام میں بھی انہیں صحیح الحدیث و حسن الحدیث قرار دیا ہے۔ چند حوالے درج ذیل ہیں۔
① ابن خزیمہ [11/1 ح 15، وغيره]
② ابن حبان [الاحسان : 1077 دوسرا نسخه : 1080، وغيره]
③ الترمذی [ح 115 وقال : هذا حديث حسن صحيح إلخ]
④ الحاکم [المستدرک 486/1 ح 1786 وقال : هذا حديث صحيح الاسناد]
⑤ الذہبی [تلخيص المستدرك 486/1 وقال : صحيح]
? محمد بن اسحاق کی بیان کردہ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کو درج ذیل اماموں نے صحیح، حسن اور جید قرار دیا ہے۔
⑥ دارقطنی [317/1، 318 ح 1200 وقال : هذا إسناد حسن]
⑦ بیہقی [كتاب القرأت خلف الامام ص 58 ص 114 وقال : وهذا إسناد صحيح]
⑧ ابوداؤد [بحواله التلخيص الجبير 231/1 ح 344]
⑨ خطابی [معالم السنن 177/1 ح 252 وقال : وإسناده جيد لاطعن فيه] وغيرهم
? معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک محمد بن اسحاق بن یسار کی حدیث احکام میں بھی صحیح یا حسن ہوتی ہے۔ لہٰذا جمہور کے مقابلے میں بعض محدثین کے اقوال کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا کرنا کہ احکام میں اس کی روایت حجت نہیں غلط اور مردود ہے۔

نام نھاد اضطراب کا دعویٰ
بعض الناس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث ”مضطرب“ ہے۔

? ان لوگوں کی بیان کردہ ”اضطرابی“ اسانید اور ان پر تبصرہ درج ذیل ہے۔

① محمد بن عمرو بن عطاء عن ابی حمید رضی اللہ عنہ [صحيح البخاري : 828 و سنن ابي داؤد : 730]
② محمد بن عمرو : أخبرنی مالک عن عیاش أو عباس بن سھل [السنن الكبري للبيهقي 101/2]

? اس کا راوی عیسی بن عبداللہ بن مالک مجہول الحال ہے، اسے سوائے ابن حبان کے کسی نے ثقہ نہیں کہا، لہذا یہ سند ضعیف ہے، محمد بن عمرو بن عطاء سے ثابت ہی نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمه الله نے بھی اس روایت کو ”ضعیف“ ہی قرار دیا ہے۔ [سنن ابي داؤد ص 118 ح 733]

تنبیہ : السنن الکبری للبیہقی میں أخبرني مالك کا لفظ غلط ہے۔ صحیح أحد بني مالك ہے۔ دیکھئے السنن الکبری للبیہقی [ج2 ص 118] و صحیح ابن حبان [الاحسان : 1863 دوسرا نسخه : محققه 181/5 ح 1866]

③ محمد بن عمرو عن عباس بن سہل عن ابی حمید رضی اللہ عنہ [البيهقي 118/2]

? اس کی سند عیسی بن عبداللہ بن مالک ”مجہول الحال“ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یہی ضعیف روایت سنن ابی داؤد [733] میں محمد بن عمرو بن عطاء عن عباس أو عیاش بن سہل کی سند سے ہے۔

④ محمد بن عمرو بن عطاء عن رجل عن ابی حمید رضی اللہ عنہ۔ إلخ ملخصا [شرح معاني الآثار للطحاوي 259/1]

? اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی عبداللہ بن صالح کاتب اللیث مختلف فیہ راوی ہے۔ اگر یحییٰ بن معین، بخاری، ابوزرعہ اور ابوحاتم (وغیرہم) ماہرین اس سے روایت کریں تو روایت صحیح ہوتی ہے، دوسروں کی روایت میں توقف کیا جاتا ہے۔ [ديكهئے هدي الساري مقدمه فتح الباري ص 414] طحاوی کے دونوں استاد فہد اور یحییٰ بن عثمان اہل الحذق (فن حدیث کے ماہرین) میں سے نہیں ہیں لہذا یہ سند ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے میزان الاعتدال [440/6۔ 445] و تقریب التہذیب [3388] والجوہر النقی [309/1]

? دوسرے یہ کہ اصول حدیث کا ایک طے شدہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک ثقہ راوی اپنے استاد سے تصریح سماع (حدثنا، سمعت وغیرہ) کے ساتھ ایک روایت بیان کرے اور یہی روایت اپنے استاد کے درمیان کسی واسطے سے بیان کرے تو دونوں روایتیں محفوظ ہوتی ہیں لیکن اعتبار اسی روایت کا ہوتا ہے جس میں اس نے اپنے استاد سے تصریح سماع کر رکھی ہوتی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے مقدمہ ابن الصلاح [ص 289، 290 دوسرا نسخه ص 392، 391، النوع السابع و الثلاثون : معرفة المزيد فى متصل الاسانيد]
مثلا صحیح بخاری کی ایک روایت مجاهد عن ابن عباس کی سند سے ہے۔ [البخاري : 216]
جبکہ دوسری روایت میں عن مجاهد عن طاؤس عن ابن عباس آیا ہے۔ [البخاري : 1361]
صحیح بخاری کی یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں، انہیں مضطرب قرار دینا غلط ہے۔

تنبیہ : اگر دو سندیں اس طرح ہوں کہ : ➊ محمد بن عمرو بن عطاء عن ابي حميد محمد بن عمرو عن رجل عن ابي حميد
فرض کریں کہ پہلی سند میں سماع کی تصریح نہیں ہے اور دوسری سند میں رجل مجہول ہے تو بے شک ایسی روایت ضعیف ہو جاتی ہے۔ لیکن ہماری بیان کردہ روایت میں سماع کی تصریح بھی ہے۔ لہٰذا وہ عن رجل والی سند سے ضعیف نہیں ہوتی بلکہ یہ بشرط صحت اس کی تائیدی روایت بن جاتی ہے۔ تیسرے یہ کہ عطاف بن خالد والی اس سند میں رجل سے مراد عباس بن سهل ہے جیسا کہ عیسی بن عبداللہ بن مالک (مجہول الحال) کی ضعیف حدیث میں صراحت ہے۔ [ديكهئے الاحسان : 1866] حافظ ابن حبان کے نزدیک یہ روایت محمد بن عمرو نے سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ سے بھی سنی ہے اور عباس بن سہل سے بھی سنی ہے۔ [الاحسان نسخه محققه 182/5]
فیض الباری کے حاشیے پر لکھا ہو اہے کہ :
لا بأس بضعف الرواية فإنها تكفي لتعيين أحد المحتملات
یعنی ضعیف حدیث کے ساتھ دو محتمل معنوں میں سے ایک معنی کا تعین کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ابن حبان و ابوداؤد والی اس ضعیف روایت، جس میں عباس بن سہل کا ذکر موجود ہے، کو نیموی حنفی نے اسناده صحيح لکھا ہوا ہے۔ [آثار السنن : 449] ! ! !

خلاصہ التحقیق : عبدالحمید بن جعفر کی بیان کردہ یہ روایت صحیح و محفوظ ہے اور اس پر اضطراب کی جرح باطل و مردود ہے۔

امام محمد بن یحییٰ الذھلی کا اعلان

سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی مجلس صحابہ میں بیان کردہ حدیث فليح بن سليمان : حدثني العباس بن سهل الساعدي کی سند سے بھی مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه : 863 و سنده حسن، فليح بن سليمان من رجال الصحيحين و وثقة الجمهور]
اس حدیث میں شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد تینوں مقامات پر رفع یدین کا اثبات ہے۔
اس حدیث کے بارے میں امام بخاری رحمه الله اور بے شمار محدثین کے استاد امام محمد بن یحییٰ (الذهلي، م 258 ھ) فرماتے ہیں کہ :
من سمع هذا الحديث، ثم لم يرفع يديه۔ يعني إذا ركع و إذا رفع رأسه من الركوع۔ فصلاته ناقصة
جو شخص یہ حدیث سن لے پھر بھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہ کرے تو اس کی نماز ناقص (یعنی باطل) ہے۔ [صحيح ابن خزيمه ج 1 ص 298 ح 589 و سنده صحيح]
? یاد رہے کہ امام ذھلی کا یہ قول کسی حدیث یا آثار سلف صالحین کے خلاف نہیں ہے۔

چند اھم نکات و فوائد

➊ امام ابوحاتم الرازی نے محمد بن عمرو بن عطاء عن ابي حميد الساعدي کی حدیث کو والحديث أصله صحيح کہہ کر فصار الحديث مرسلا یعنی مرسل قرار دیا ہے۔ [علوم الحديث 63/1 ح 461، النسخة المحققة 424/1 ح 461]
➋ عبدالحمید بن جعفر کے بارے میں ابوحاتم الرازی کہتے ہیں : محله الصدق [الجرح و التعديل 10/6، علل الحديث 382/1 ح 1140، نسخه محققه 50/2] اس پر ابوحاتم کی جرح لايحتج به [ميزان الاعتدال 539/2 ت 4767] باسند صحیح نہیں ملی، لہذا یہ جرح امام ابوحاتم سے ثابت ہی نہیں ہے۔
➌ سیدنا ابواسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات میں سخت اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ 30؁ھ بعض کہتے ہیں : 60؁ھ یا 70؁ھ یا 80؁ھ یا 40؁ھ دیکھئے تقریب التہذیب [6436] ولإصابۃ [ص 1155، 1156]
? لہذا بعض الناس کا بالجزم آپ کی وفات 30؁ھ قرار دینا غلط ہے۔
? طبقہ اربعہ کے راوی ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس المکی نے کہا:
سمعت ابا اسيد الساعدي و ابن عباس ”إلخ [المعجم الكبير للطبراني 268/19، 269 ح 595 و سنده حسن، وقال الهيثمي فى مجمع الزوائد 114/4 : وإسناده حسن]
? جب طبقہ اربعہ والے تابعی کا سماع سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے تو طبقہ ثالثہ والے تابعی کا کیوں ناممکن ہے ؟ اس سے بھی ”العلامۃ الحافظ الصادق“ علی بن محمد المدائنی کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ 60؁ھ میں فوت ہوئے، حافظ ذہبی رحمه الله کا اس قول کو وهذا بعيد کہنا [سير اعلام النبلاء 538/2] بذات خود بعید اور محل نظر ہے۔
➍ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے 43؁ھ اور بعض نے 46؁ھ اور 47؁ھ کہا ہے دیکھئے تہذیب الکمال [240/17] آپ کی صحیح تاریخ وفات نامعلوم ہے۔
? یہ کہنا کہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ 40؁ھ میں فوت ہو گئے تھے، دعویٰ بلا دلیل ہے۔
? اسی طرح بعض الناس کا یہ کہنا کہ ”سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ 40؁ھ سے پہلے روپوش ہو گئے تھے تھے“ غلط ہے۔
➎ امام لیث بن سعد، امام سعید بن عفیر، امام یحییٰ بن معین اور امام ترمذی وغیرہم نے کہا ہے کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ ان ائمہ کی تردید کرتے ہوئے ایک گستاخ شخص لکھتا ہے کہ : ”یہ سب مشرک و کار شیطان کرنے والے تھے !“
? اس کا یہی جواب ہے کہ لعنة الله على الظالمين امت مسلمہ کے جلیل القدر ثقہ اماموں کو ”مشرک“ اور ”کارشیطان کرنے والے“ کہنے والا شخص گستاخ اور گمراہ ہے۔
➏ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ راوی ایک روایت بیان کرتا ہے، اس کے بعض شاگرد اسے مکمل مطول اور بعض شاگرد مختصر و ملخص بیان کرتے ہیں۔ مثلا صحیح بخاری میں مسئي الصلوة کی حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إذا قمت إلى الصلوة فكبر ”إلخ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہوتو تکبیر کہہ…..إلخ [كتاب الاذان، باب وجوب القرأة للإمام و المأموم۔۔ ح757]
? اس میں قبلہ رخ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ قبلہ رخ ہونا نماز کا رکن اور فرض ہے۔ وضو کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس حدیث کی دوسری سند میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إذا قمت إلى الصلوة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر إلخ
”جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو پورا وضو کر، پھر قبلہ رخ ہو جا، پس تکبیر کہہ۔“ إلخ [صحيح البخاري، كتاب الاستئذان، باب من رد فقال : عليك السلام ح 6251]
اب اگر کوئی منکر حدیث یہ شور مچانا شروع کر دے کہ پہلی حدیث میں استقبال قبلہ اور وضو کا ذکر نہیں ہے۔ ”اور معرض بیان میں عدم ذکر کتمان ہے جو یہود کا شیوہ ہے“ !
تو اس گمراہ و بے وقوف کا شور باطل و مردود ہے۔ اسے سمجھایا جائے گا کہ ایک صحیح روایت میں ذکر ہو اور دوسری صحیح میں ذکر نہ تو عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ احادیث کی تمام سندیں اور متون جمع کر کے مشترکہ مفہوم پر عمل کرنا چاہئے۔

◈ انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں کہ :
اعلم أن الحديث لم يجمع إلا قطعة فتكون قطعة عند واحد وقطعة أخري عند واحد فليجمع طرقه و ليعمل بالقدر المشترك ولا يجعل كل قطعة منه حديثا مستقلا
مفہوم : ”اور جان لو کہ احادیث کو ٹکڑوں کی صورت میں جمع کیا گیا ہے۔ پس ایک ٹکڑا ایک راوی کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا دوسرے کے پاس، لہذا چاہئے کہ احادیث کی تمام سندیں (اور متون) جمع کرکے حاصل مجموعہ پر عمل کیا جائے اور ہر ٹکڑے کو مستقل حدیث نہ بنایا جائے ” [فیض الباری ج 3 ص 455]
◈ احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ :
”صدہا مثالیں اس کی پائے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں، کوئی پوری، کوئی ایک ٹکڑا، کوئی دوسرا ٹکڑا، کوئی کس طرح، کوئی کس طرح۔ جمع طرق سے پوری بات کا پتہ چلتا ہے۔“ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 301]
? لہذا جو لوگ شور مچاتے ہیں کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ والی حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین نہیں ہے، ان کا شور غلط اور مردود ہے۔

ایک اھم نکتہ
صحیح سند سے ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [جزء رفع الیدین للبخاری : 22 و سندہ صحیح]
اور یہ بھی صحیح ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع یدین کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه ج 1ص 344، 345 ح 694، 695 وسنده صحيح، وقال الحافظ ابن حجر فى كتابه موافقة الخبر الخبر 409، 410/1 هذا حديث صحيح ]
? ابن جریح نے سماع کی تصریح کر دی ہے اور یحییٰ بن ایوب الغافقی پر جرح مردود ہے، وہ جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق راوی ہیں اور عثمان بن الحکم نے ان کی متابعت کر دی ہے۔ اس روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود ”یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔“
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا مفصل ذکر موجود ہے مگر اس میں شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور رکعتیں (دو رکعتوں) کے بعد کسی رفع یدین کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس حدیث کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز کے بارے میں فرماتے : إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح بخاري مع فتح الباري ج 2 ص 290 ح 803]
? اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہی نماز پڑھتے تھے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نما ز تھی۔ اب چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا و مرفوعا دونوں طرح شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین ثابت ہے لہذا اس سے خودبخود ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رفع یدین کرتے تھے۔ جس شخص کو اس سے اختلاف ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح یا حسن ترک رفع یدین کا ثبوت پیش کرے۔ اس استدلال کے بعد التحقیق الراسخ فی أن أحادیث رفع الیدین لیس لھانا سخ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے استادوں کے استاد (شیخ الشیوخ) حافظ محمد گوندلوی رحمه الله نے بھی یہی استدلال کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رفع یدین ثابت کیا ہے۔ دیکھئے التحقیق الراسخ [ص 90، 91 نویں حدیث] والحمدلله

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سجدوں میں بھی رفع یدین ثابت ہے۔ [بحواله سنن ابن ماجه ص 62 ح 860 ومسند احمد 132/2 ح 6163]

? تو عرض ہے کہ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
⟐ اسماعیل بن عیاش کی غیر شامیین و حجازیین سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [باب ماجاء فی الجنب والحائض ح 131] وتہذیب الکمال [214/2۔ 217]
⟐ اسماعیل بن عیاش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسین 3/68، المرتبۃ الثالثہ] اور یہ روایت عن سے ہے۔
? اس ضعیف سند سے استدلال مردود ہے۔ شیخ البانی رحمه الله کو بڑا وہم ہوا ہے، انہوں نے بغیر کسی دلیل کے اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ انا لله وانا اليه راجعون

➐ بعض الناس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کے متن میں اضطراب ہے۔ وجہ اضطراب یہ ہے کہ طحاوی [127/1] و سنن ابی داؤد [ج1 ص 106 ح 730] میں تورک کا ذکر ہے لیکن سنن ابی داؤد [ج1 ص 107 ح 733] میں تورک کی نفی ولم يتورك ہے۔

? عرض ہے کہ ولم یتورک والی روایت [سنن ابی داؤد : 733] بلحاظ سند ضعیف ہے جیسا کہ اس مضمون میں گزر چکا ہے۔ اس کا راوی عیسی بن عبداللہ بن مالک مجہول الحال ہے۔ اسے حافظ ابن حبان کے علاوہ کسی فقہ نے بھی ثقہ نہیں کہا۔ مجہول الحال روای کی روایت سے اضطراب ثابت کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو دن رات سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ بعض روایات میں“ قالوا جمیعا صدقت ”اور بعض روایات میں ان الفاظ کا نہ ہونا اضطراب کی دلیل نہیں ہے جیسا کہ اسی مضمون میں مفصل و مدلل ثابت کردیا گیا ہے۔

خلاصہ البحث و التحقیق : اس مضمون کی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالحمید بن جعفر ”ثقہ“ کی محمد بن عمرو بن عطاء المدنی ”ثقہ“ سے سیدنا ابوحمید الساعدی المدنی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث بالکل صحیح ہے جس میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے ….إلخ
? یہ روایت بالکل بے غبار ہے اس میں کسی قسم کا اضطراب نہیں۔ جمہور محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت کااس حدیث کی تصدیق کرنا، اس کی واضح دلیل ہے کہ نبی کریم سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رفع یدین کرتے تھے۔ وما علينا إلا البلاغ [29 ربیع الثانی 1426؁ھ]

 

یہ تحریر اب تک 63 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply