ضعیف ، موضوع اور مردود روایات اور ان کا رد (پہلا حصہ)

تصنیف : ابوعبدالرحمٰن الفوزی
ترجمہ : جناب صدیق رضا

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
”بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ [15-الحجر:9]
یہ وعدہ الٰہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل ہے اس لئے کہ سنت قرآن کریم (ذکر) کے لئے بیان و تفسیر ہے، اور سنت شریعت میں بہت زیادہ قدرو منزلت ہے، پس سنت کے امر کا التزام شریعت کا التزام ہے، اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی وجہ سے کہ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ”جس نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ “ [4-النساء:80]
یقیناًً اہل الرائے (اہل بدعت) اور اپنے مذہب کے لئے متعصب بعض کینہ پرور اور بیمار دل والوں نے ایسی کوششیں کیں جو کسی بھی محترم انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط باتیں منسوب کریں، ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار ” کہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “ [بخاري : 107 ]
لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بعض اہل علم کو یہ توفیق بخشی کہ وہ شریعت مطہرہ سے اس قسم کے لوگوں کو دسیسہ کاریوں کو دور کر دیں۔ جو بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑ ی ہیں۔ تو ان اہل علم نے صحیح اور ضعیف کو واضح کر دیا، اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا اور سنت محفوظ ہو گئی اور سنت کی حفاظت سے قرآنی احکام بھی محفوظ ہو گئے۔ [تلخيص از مقدمة الكتاب ]
اسی سلسلے میں الشیخ ابوعبدالرحمٰن فوزی بن عبداللہ بن محمد/ البحرین، بلاد العرب نے ایک کتاب ”تبصرۃ أولی الأحلام من قصص فیھا کلام“ ترتیب دی ہے جس میں قصہ گو لوگوں کے من گھڑت واقعات کی حقیقت واضح کی گئی ہے جس کا ترجمہ محترم جناب صدیق رضا صاحب نے کیا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین) (حافظ ندیم ظہیر)

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اجتہاد کا قصہ
پہلا قصہ : سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا قصہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا (تو اس وقت ان سے پوچھا) :
كيف تقضي إذا عرض لك قضاء ؟ قال : أقضي بكتاب الله قال : فإن لم تجد فى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا فى كتاب الله ؟ قال : اجتهد رأي ولا آلوا، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره وقال : الحمدلله الذى وفق رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم لما يرضي رسول الله صلى الله عليه وسلم
جب آپ کو کوئی قضیہ پیش آئے گا تو آپ کس طرح فیصلہ کریں گے ؟ عرض کیا کہ میں کتاب اللہ کے ذریعے فیصلہ کروں گا، فرمایا : اگر آپ کتاب اللہ میں (اس قضیہ کا حل) نہ پائیں ؟ تو عرض کیا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے فیصلہ کروں گا، فرمایا کہ اگر آپ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ( اس کا حل ) نہ پائیں ؟ تو عرض کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور کوئی کوتاہی نہیں کروں گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر (اپنا بابرکت ہاتھ) مارا اور فرمایا : اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قاصد کو اس بات کی توفیق مرحمت فرمائی جس پر اللہ کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) راضی ہے۔ (منکر، یعنی یہ روایت ضعیف ہے )۔
تخریج : اس روایت کو ابوداؤد نے اپنی سنن [ج3 ص 303 ح 3592، 3593] ترمذی نے اپنی سنن [ج3 ص 607 ح 1327، 1328] احمد نے مسند [ج5 ص 230 ح 32007] اور بیہقی نے سنن الکبریٰ [ج10ص 114] اور المدخل [ص 208 تا 209 ح 256] ابوداؤد الطیالسی نے مسند [ص 76 ح 559] دارمی نے سنن [ج1 ص 116 ح 2509] ابن ابی شیبۃ نے المصنف [ج7 ص 239 ح 202978] اور جوزقانی نے الاباطیل [ج1 ص 105، 106 ح 101] اور عبد بن حمید نے المنتخب [ص 76 ح 124] اور ابن الجوزی نے العلل المتناہیۃ [ج2 ص758 ح 1264] ، خطیب بغدادی نے الفقیہ و المتفقہ [ج1 ص 155، 188، 189] ، العقیلی نے ”الضعفاء الکبیر“ [ج1 ص 215 ح 262 ] طبرانی نے ”المعجم الکبیر“ [ج20 ص 170 ح 362] اور المزی نے ”تہذیب الکمال“ [ج1 ص 1217 المخطوط] اور ابن عبدالبر نے ”جامع بیان العلم“ [ص 359، 360] اور (محمد بن خلف) وکیع نے ”أخبار القضاۃ“ [ج1 ص 97، 98] او ابن سعد نے ”الطبقات الکبریٰ“ [ج2، ص 347، 348] میں متعدد (بہت سے ) طریق سے بیان کیا کہ عن شعبة قال : أخبري أبوعون الثقفي قال : سمعت الحارث بن عمرو يحدث عن أصحاب معاذ من أهل حمص عن معاذ بن جبل رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعثه إلى اليمن قال له، فذكره
میں (الفوزی الاثری ) نے کہا: اور یہ سند ضعیف ہے اس کی دو علتیں ہیں :
اول : الحارث بن عمرو مجہول ہے۔
دوم : اصحاب معاذ یعنی معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کی جہالت (ان کا مجہول ہونا)۔
دیکھئے ابن حجر کی التہذیب [ج2 ص 132] اور انہی کی تقریب التہذیب [ص 147 رقم : 1039 ]
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے التاریخ الکبیر [ج2 ص 277] میں فرمایا کہ : الحارث بن عمرو بن أخی المغیرہ بن شعبۃ الثقفی نے اصحاب معاذ سے اور انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے (اور ) روایت کیا ان سے ابوعون نے، تو یہ صحیح نہیں اور معروف نہیں یہ روایت مگر اس مرسل سند سے : إلخ۔
امام ترمذی رحمہ الله نے فرمایا : اس حدیث کو ہم جانتے مگر اس سند سے اور میرے نزدیک اس کی اسناد متصل نہیں : إلخ۔
امام جوزقانی نے فرمایا : یہ حدیث باطل ہے۔
امام ابن الجوزی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح نہیں اگر چہ تمام ( ! ) فقہاء اس روایت کو اپنی کتب میں بیان کرتے ہیں اور ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں اور قسم ہے مجھے کہ اگرچہ اس کے معنی درست ہے، ( لیکن ) بات یہ ہے کہ اس کا ثبوت معروف نہیں۔ اس لئے کہ الحارث بن عمرو مجہول ہے اور معاذ رضی اللہ عنہ کے اصحاب (ساتھی) اہل حمص میں تو وہ پہچانے نہیں جاتے (معروف نہیں ہیں مجہول ہیں) اور نہ ہی اس کا طریق (معروف ہے ) پس اس حدیث کے ثبوت کی کوئی وجہ نہیں۔
امام ذہبی رحمہ الله فرماتے ہیں : ابوعون محمد بن عبیداللہ الثفقی نے اس روایت کو الحارث بن عمرو الثقفی…۔۔ سے بیان کرنے میں تفرد کیا اور ابوعون کے علاوہ الحارث سے کسی نے روایت نہیں کیا اور الحارث…مجہول ہے۔ إلخ [ميزان الاعتدال ج 1ص 439 ]
ابن حجر کہتے ہیں کہ ابن حزم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح نہیں، اس لئے کہ الحارث مجہول ہے اور اس کے شیوخ (اساتذہ) پہچانے نہیں جاتے اور بعض لوگوں نے اس حدیث کے تواتر کا دعویٰ کیا، اور یہ غلط ہے (جھوٹ ہے ) بلکہ یہ تواتر کی ضد ہے۔ اس لئے کہ حارث سے اس روایت کو ابوعون کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کیا تو کس طرح یہ روایت ”متواتر“ ٹھہری ؟
اور عبدالحق (اشبیلی) نے فرمایا : یہ روایت کسی صحیح طریق (ذریعہ) سے نہ مسند ہوئی ہے نہ پائی جاتی ہے اور ابن طاہر نے اس حدیث پر کلام پر مشتمل اپنی منفرد تصنیف میں فرمایا : جان لو ! کہ میں نے اس حدیث کو چھوٹی بڑی مسانید میں تلاش کیا، اور حدیث کے علم جاننے والوں میں سے جن سے میری ملاقات ہوئی ان سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا، پس میں نے اس روایت کو نہیں پایا سوائے دو سندوں کے۔ ان میں سے ایک سند شعبۃ اور دوسری سند عن محمد بن جابر أشعت بن أبى اشعثاء عن رجل من ثقيف عن معاذ اور یہ دونوں سندیں صحیح نہیں ہیں۔ إلخ
علامہ البانی رحمہ الله نے الضعیفۃ [ج2 ص 273] میں فرمایا……
……اس اسناد میں تین علتیں ہیں :
اول : ارسال۔
دوم : الحارث بن عمرو (جو کہ ) مجہول ہے۔
سوم : اصحاب معاذ رضی اللہ عنہ کی جہالت یعنی ان لوگوں کا مجہول ہونا۔
امام مزی نے تحفۃ الاشراف [ج8 ص 421] میں اس روایت کو ذکر کیا : اور خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الفقیہ و المتفقہ [ج1 ص 189] میں فرمایا : وقد قيل أن عبادة بن نسي رواه عن عبدالرحمن بن غنم عن معاذ وقال هذا إسناد متصل ورجاله معروفون بالثقة : إلخ
یعنی کہا گیا کہ عبادۃ بن نسی نے اس حدیث کو روایت کیا عبدالرحمٰن بن غنم سے، انہوں نے معاذ سے اور فرمایااس کی سند متصل ہے اور اس کے راوی ثقہ ہونے میں معروف ہیں۔
لیکن حافظ (ابن حجر) نے الامالی میں 170 کے بعد کی مجلس میں فرمایا : ہاں یہ اسی طرح ہے، بلکہ عبدالرحمٰن بن غنم کو تو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے اور جو راوی ان سے روایت کر رہا ہے وہ بھی ثقہ ہے لیکن اس سے روایت کرنے والا راوی ثقہ نہیں ہے، ابن ماجہ نے اس کو روایت کیا ہے اپنی سنن [ج1 ص 21ح] میں اور جوزقانی نے الاباطیل [ج1 ص 109، 108] میں اس حدیث کے بعض حصہ کو یحییٰ بن سعید کی سند کے ساتھ اور اس مبہم (مجہول شخص) کا نام محمد بن حسان بتلایا اور وہ ”مصلوب“ کے نام سے معروف ہے۔ امام احمد، الفلاس، امام نسائی رحمہ اللہ، امام ابوحاتم رحمہ اللہ اور دیگر محدثین سے اسے کذاب قرار دیا۔ پس ا س کی حدیث نہ تو استشہاداً صحیح ہے نہ ہی متابعۃً۔ یعنی شواہد و متابعت میں بھی اس کی حدیث پیش کرنا صحیح نہیں۔ إلخ [الامالي : ص 214 ق ]
(ابن حجر نے تہذیب التہذیب ج 9 ص 95 رقم الترجمۃ 6055 میں ابوداؤد کا قول نقل کیا۔ هو مجهول و حديثه ضعيف ، اور خود بھی تقریب میں اسے مجہول قرار دیا۔ رقم الترجمۃ : 5828۔ مترجم) دیکھئے حاشیۃ العلل المتناھیۃ [ج2 ص 759 ]
امام بوصیری نے فرمایا : یہ سند ضعیف ہے، محمد بن سعید المصلوب حدیث گھڑنے کے الزام سے متہم ہے۔

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply