صلی اللہ علیہ وسلم كا اختصار !

تحریر: ابوسعيد

صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ”ص، صعم، صلم، صلیو، صلع اور صلعم جیسے رموز و اشارات کا استعمال حکم الہی اور منہج سلف صالحین کی مخالفت ہے۔ یہ قبیح اور بدعی اختصار خلاف ادب ہے۔ یہ ایسی بے ہودہ اصطلاح ہے کہ کوئی نادان ہی اس پر اکتفا کر سکتا ہے۔

٭ حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
واجتنب أيها الكاتب الرمز لها أي الصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطك، بأن تقتصر منها على حرفين، ونحو ذلك، فتكون منقوصة صورة، كما يفعله الكسائي والجهلة من أبناء العجم غالباً وعوام الطلبة، فيكتبون بدلاً من صلى الله عليه وسلم ص، أو صم، أو صلم، أو صلعم فذلك لما فيه من نقص الأجر لنقص الكتابة خلاف الأولى.
”اے لکھنے والے ! اپنی لکھائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کرو کہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔ اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے، جیسے کسائی، بہت سے جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا طرز عمل ہے۔ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ص، صم، صلم یا صلعم لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ کتابت میں نقص کی وجہ سے خلاف اولی ہے۔“ (فتح المغیث بشرح ألفیة الحدیث : 72,71/3)

٭ علامہ ابویحیٰی زکریا انصاری رحمہ اللہ ( م : ۹۲۶ھ) لکھتے ہیں :
وتسن الصلاة نطقا وكتابة عليٰ سائر الأنبياء والملائكة صلى الله وسلم عليهم، كما نقله النوويي عن إجماع من يعتد به .
”تمام انبیاے کرام اور فرشتوں پر بول اور لکھ کر درود و سلام بھیجنا مسنون ہے، جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے تمام معتبر اہل علم کے اجماع سے یہ بات نقل کی ہے۔“ (فتح الباقي بشرح ألفية العراقي : 44/2)

٭ علامہ ابن حجر ہیتمی (۹۰۹۔ ۹۷۴ ھ) لکھتے ہیں :
وكذا اسم رسوله بأن يكتب عقبه صلى الله عليه وسلم، فقد جرت به عادة الخلف كالسّلف، ولا يختصر كتابتها بنحو صلعم ؛ فإنه عادة المحرومين.
”اسی طرح اللہ کے رسول کے نام کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا چاہیے۔ خلف و سلف کی یہی عادت رہی ہے۔ البتہ درود کا اختصارلکھنا، جیسے صلعم، یہ محروم لوگوں کی عادت ہے۔“ (الفتاوی الحدیثیة : 164/1)

٭ علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وأن الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم عبارة عن تعظيمه وتبجيله، فمن عظم رسول الله صلى الله عليه وسلم وحبيبه؛ عظمه الله، ورفع قدره فى الدارين، ومن لم يعظمه؛ أذلة الله، فالمعنىٰ : بعيد من العاقل، بل من المؤمن المعتقد أن يتمكن من إجراء كلمات معدودة علىٰ لسانه، فيفوز بعشر صلوات من الله عز وجل، وبرفع عشر درجات له، وبحط عشر خطيئات عنه، ثم لم يغتنمه حتي يفوت عنه، فحقيق بأن يحقره الله تعالى، ويضرب عليه الذلة والمسكنة، وباء بغضب من الله تعالى، ومن هذا القبيل عادة أكثر الكتاب أن يقتصروا فى كتابة الصّلاة والسّلام على النبى صلى الله عليه وسلم على الرمز .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم ہے۔ جو اللہ کے رسول اور حبیب کی تعظیم کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے عظمت عطا فرمائیں گے اور دنیا و آخرت میں اس کی شان بلند کر دیں گے۔ جو (درود نہ پڑھ کر) آپ کی تعظیم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیں گے۔ مطلب یہ کہ کسی عاقل، بالخصوص کسی ایسے پختہ اعتقاد والے مومن سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنی زبان پر چند کلمات جاری نہ کر سکے جن کے بدلے وہ اللہ تعالیٰ کی دس رحمتوں کے حصول، دس درجات کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی سے بہرہ ور نہ ہو جائے۔ پھر وہ اس غنیمت سے فائدہ نہ اٹھائے، حتی کہ درود اس سے رہ جائے۔ ایسا شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے اور اس پر ذلت و مسکینی نازل کرے اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔ اکثر کاتبوں کی عادت بھی اسی قبیل سے ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود لکھنے کے بجائے اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔“ (شرح المشكاة : 131/2)

٭ جناب مفتی محمد شفیع دیوبندی صاحب، جناب اشرف علی تھانوی صاحب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کے ساتھ درود شریف پڑھنا واجب ہے، اگر کسی نے صرف لفظ ”صلعم“ قلم سے لکھ دیا، زبان سے درود سلام نہیں پڑھا تو میرا گمان یہ ہے کہ واجب ادا نہیں ہو گا، مجلس میں چند علماء بھی تھے، انہوں نے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ آج کل لفظ ”صلعم“ پورے درود پر دلالت تامہ کرنے لگا ہے، اس لیے کافی معلوم ہوتا ہے، حضرت نے فرمایا : میرا اس میں شرح صدر نہیں ہوا، دراصل بات تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے محسن خلق کے معاملہ میں اختصار کی کوشش اور کاوش ہی کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معاملہ میں اختصارات سے کام لینے لگیں تو ہم کہاں جائیں؟

احقر جامع (مفتی محمد شفیع ) عرض کرتا ہے کہ ”جہاں تک کہ ضرورت کا تعلق ہے، سب سے زیادہ ضرورت اختصار کی , حضرات محدثین کو تھی، جن کی ہر سطر میں تقریبا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتا ہے مگر آپ ائمہ حدیث کی کتابوں کا مشاہدہ فرما لیں کہ انہوں نے ہر ہر جگہ نام مبارک کے ساتھ پورا درود و سلام لکھا ہے، اختصار کرنا پسند نہیں کیا۔“ (مجالس حکیم الامت ص : 241)

٭ علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
واعلم أن ما يذكر ويكتب لفظ (صلعم) بدل صلى الله عليه وسلم ؛ فغير مرضي.
”جان لیجیے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ جو صلعم کا لفط بولا اور لکھا جاتا ہے، وہ ناپسندیدہ ہے۔“ (المعرف الشذيی : 1 /110)

٭ جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”جب اسم مبارک لکھے، صلاۃ و سلام بھی لکھے، یعنی صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھے، اس میں کوتاہی نہ کرے۔ صرف ’’ ؑ“ یا ”صلعم“ پر اکتفا نہ کرے۔“ (تبلیغی نصاب، ص : 769)

٭ محمد امجد علی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”اکثر لوگ آجکل درود شریف کے بدلے صلعم، عم، ص، ؑ، لکھتے ہیں، یہ ناجائز و سخت حرام ہے۔ ” (بہار شریت، حصہ سوم، ص : 87)
یاد رہے کہ بہار شریعت کا یہ حصہ ”اعلیٰ حضرت بریلوی“ کا تصدیق شدہ ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 18 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply