صف بندی اور “صف دری”!

تحریر: محمد زبیر صادق آبادی

نماز میں مقتدیوں کا صف بندی کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أقيموا صفوفكم وتراصوا اپنی صفیں قائم کرو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ [صحيح البخاري : ج1 ص 100 ح 719]
? وحید الزماں کیرانوی دیوبندی لکھتے ہیں : تراصت الأشياء ”گتھ متحد ہو جانا، جڑ جانا۔“ [القاموس الوحيد ص 631]

❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
راصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالأعناق، فوالذي نفس محمد بيده ! إني لأري الشياطين تدخل من خلل الصف كأنها الحذف
اپنی صفوں کو ملاؤ اور انہیں قریب رکھو اور گردنوں کو برابر رکھو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے۔ میں دیکھتا ہوں شیطانوں کو وہ صف کی خالی جگہوں سے گھس آتے ہیں گویا کہ وہ بھیڑ کے چھوٹے سے بچے ہیں۔ [سنن النسائي ج 2 ص 92 ح 816 و سنده صحيح و صححه ابن خزيمه : 545ا وابن حبان، الاحسان : 2163 دوسرا نسخه : 2166]
? اس حدیث کے راوی سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه و قدمه بقدمه
”اور ہم میں سے ہر شخص (صف میں) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا لیتا۔“ [صحيح البخاري : 725]

اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے ماسٹر محمد امین اوکاڑوی حیاتی دیوبندی لکھتے ہیں :
امام بخاری رحمہ الله نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نابالغ تھے اور پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے۔ امام بخاری رحمہ الله نے اس قول کو مکمل نقل نہیں فرمایا۔ ان کے استاد ابوبکربن ابی شیبہ نے اس کے بعد یہ نقل کیا ہے ولو ذهبت تفعل ذلك لتري أحدهم كأنه بغل شموس [ص 351 ج 1] اگر تو آج اس طرح ٹخنے ملائے تو دیکھے گا کہ یہ لوگ (صحابہ و تابعین) بدکے ہوئے خچروں کی طرح بھاگیں گے۔ ظاہر بات ہے بڑی عمر کا عقل مند آدمی نابالغ کو پسند نہیں کرتا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اپنے بچنے میں جو کام کیا بچوں کے ساتھ وہ روایت کیا، لیکن جب وہ بڑے ہو گئے تو صحابہ و تابعین ان کے بچنے کی عادت سے بیزار تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ ٹخنے ملانا نہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے نہ سنت صحابہ رضی اللہ عنہ، اگر یہ سنت اور مستحب ہوتا تو صحابہ و تابعین کبھی اس سنت سے بیزار نہ ہوتے (امین اوکاڑوی) [حاشيه امين اوكاڑوي على صحيح البخاري ج1 ص 370 الف، مطبوعه مكتبه مدينه لاهور]

تنبیہ : مطبوعہ نسخے میں دوبار ”بچنے“ ہی لکھا ہوا ہے جبکہ صحیح لفظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوکاڑوی صاحب نے (بچپنے) لکھا ہے۔
اوکاڑوی صاحب کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے :
① اوکاڑوی کے نزدیک سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نابالغ بچے تھے۔
② اوکاڑوی کے نزدیک صحابہ و تابعین سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیزار تھے۔
③ اوکاڑوی کے نزدیک سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے خچروں سے تشبیہ صحابہ و تابعین کو دی تھی۔
④ اوکاڑوی کے نزدیک سیدنا انس رضی اللہ عنہ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے۔
⑤ اوکاڑوی کے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا قول مکمل نقل نہیں فرمایا۔
⑥ اوکاڑوی کے نزدیک ٹخنے ملانا سنت صحابہ نہیں ہے۔

اب ان اوکاڑوی اعتراضات کے جوابات علی الترتیب پیش خدمت ہیں :

① اوکاڑوی کے نزدیک سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نابالغ بچے تھے۔

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بذات خود فرماتے ہیں :
قدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة۔ وأنا ابن عشرومات و أنا ابن عشرين
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو میں دس سال کا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو میں بیس سال کا تھا۔“ [صحيح مسلم، كتاب الاشربة باب 17 ح 2029/125 و ترقيم دارالسلام : 2590، و درسي نسخه ج 2 ص 174]
? اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیس سال کے بالغ نوجوان تھے لہٰذا اوکاڑوی صاحب نے انہیں نابالغ اور بچہ کہہ کر جھوٹ بھی بولا ہے اور ان کا مرتبہ گھٹا کر توہین بھی کی ہے۔

② اوکاڑوی کے نزدیک صحابہ و تابعین سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیزار تھے۔

? اوکاڑوی صاحب نے صحابہ و تابعین کے بیزار ہونے کی کوئی دلیل نہیں دی، لہٰذا اس تحریر میں ان کا یہ دوسرا جھوٹ ہے۔
تنبیہ : اوکاڑوی صاحب نے مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے جو روایت پیش کی ہے وہ حميد بن انس کی سند سے مروی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه ج1 ص 351 ح3524]
? حميد بن انس غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ روایت حميد عن أنس کی سند سے مروی ہے۔
◈ اسے اسماعیلی نے بھی حميد قال أنس کی سند سے روایت کیا ہے، دیکھئے : فتح الباری [211/2تحت ح 725]
◈ حمید الطویل طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسين 3/71]
◈ عینی حنفی نے بھی ان کی تدلیس کا اقرار کیا ہے۔ [ديكهئے عمدة القاري ج 1ص 280 تحت ح 49]
◈ حمید مدلس کی یہ روایت عن سے ہے۔ ان الفاظ والی روایت میں سماع کی تصریح نہیں ہے بلکہ یہ سند ضعیف ہے۔

✔ اوکاڑوی صاحب بذات خود فرماتے ہیں :
”اور مدلس جو روایت عن سے کرے، وہ منقطع ہوتی ہے۔“ [تجليات صفدر ج 2 ص 78، مطبوعه : جمعية اشاعة العلوم الحنفيه فيصل آباد، طبع اول 1998؁ ء]

? امام بخاری رحمہ الله نے اگر اس قول کو رد کر دیا ہے تو ناراض ہونے کی بات نہیں، یہ قول ثابت ہی نہیں ہے۔ اس ضعیف روایت کے ترجمے میں اوکاڑوی صاحب نے خیانت کرتے ہوئے أحدهم کے ترجمے میں اپنی طرف بریکٹیں لگا کر (صحابہ و تابعین) کے الفاظ لکھ دیئے ہیں۔ بریکٹوں کے یہ الفاظ بے دلیل، غلط اور صحابہ کرام کی توہین کے مترادف ہیں۔

③ اوکاڑوی کے نزدیک سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے خچروں سے تشبیہ صحابہ و تابعین کو دی تھی۔

? اس بات کی اوکاڑوی صاحب نے کوئی دلیل نہیں دی۔ عرض ہے کہ اگر یہ ضعیف و مردود روایت صحیح بھی ہوتی تو أحدهم سے مراد صحابہ و ثقہ تابعین قطعاً نہیں ہیں بلکہ وہ مجہول اور نامعلوم ”حضرات“ ہیں جو سنت کے خلاف نمازیں پڑھتے تھے۔ جبکہ صحابہ کرام سے تو یہ ثابت ہے کہ وہ صف میں قدم سے قدم اور کندے سے کندھا ملاتے تھے۔ رضی اللہ عنھم

④ اوکاڑوی کے نزدیک سیدنا انس رضی اللہ عنہ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے۔

? اس بات کی بھی اوکاڑوی صاحب نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ اس اوکاڑوی دعویٰ کے برعکس یہ ثابت ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل پیچھے صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی ہے۔ دیکھئے : صحیح بخاری [ج1 ص 55 ح 380] و صحیح مسلم [ج1 ص 234 ح 658] اور امین اوکاڑوی کے حاشیے والا صحیح بخاری کا نسخہ [ج1 ص 228 ح 371]

⑤ اوکاڑوی کے نزدیک امام بخاری رحمہ الله نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا قول مکمل نقل نہیں فرمایا۔

? جب یہ قول بلحاظ سند ضعیف ہے تو امام بخاری رحمہ الله کا اسے نقل نہ کرنا بالکل صحیح ہے۔

⑥ اوکاڑوی کے نزدیک ٹخنے ملانا سنت صحابہ نہیں ہے۔

? سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، دونوں صحابیوں سے یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرام قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاتے تھے۔ دیکھئے : صحیح بخاری [ج 1 ص 100] و صحیح ابن حبان [موارد الظمآن : 396] صحابہ کرام سے اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ والحمدلله

اسماعیلی (و ابن ابی شیبہ) والی ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہوئے انوار خورشید دیوبندی نے لکھا ہے :
سیدنا انس اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اس انداز بیان سے کہ ہم میں سے ہر شخص ایسا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ صف بندی کا یہ انداز دور رسالت میں تھا بعد میں نہیں رہا…… [حديث اور اهل حديث ص 515]

? عرض ہے کہ جو طریقہ دور رسالت میں جاری و ساری تھا اور ”ہر شخص ایسا کرتا تھا“ اس کی واضح دلیل ہے تو یہ طریقہ ضعیف روایت کی وجہ سے کیوں کر متروک ہو گیا ؟

انوار خورشید دیوبندی نے اس بحث کے اختتام پر لکھا ہے کہ ”نیز غیر مقلدین کو چاہئے کہ گردن سے گردن بھی ملایا کریں کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بھی تذکرہ ہے …..“ [حديث اور اهل حديث ص 519]

? عرض ہے کہ صف بندی میں گردن سے گردن ملانے والی کوئی حدیث روئے زمین پر موجود نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ”غیر مقلدین“ سے ان کی کیا مراد ہے۔
◈ اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب فرماتے ہیں :
” کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے۔“ [مجالس حكيم الامت ص 345]
? تھانوی صاحب کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ابوحنیفہ رحمہ الله غیر مقلد تھے۔ اگر انوار خورشید صاحب امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو مخاطب بنائے بیٹھے ہیں تو عرض ہے کہ ہم امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی گستاخی برداشت نہیں کریں گے۔ اگر وہ ”غیر مقلدین“ سے مراد اہل حدیث لیتے ہیں تو عرض ہے کہ ہمارا صفاتی نام اہل حدیث ہے، غیر مقلدین ہمارا صفاتی نام نہیں ہے۔ والحمدلله

◈ محمد پالن حقانی گجراتی دیوبندی لکھتا ہے :
”بڑی شرم کی بات ہے کہ ہمارے زمانے میں بعض لوگ فساد، بغض، عناد اور فرقہ پرستی کے جھگڑوں میں مبتلا ہو گئے ہیں، اپنی پیٹ بھرائی کے لئے دوسروں کو لہابی، وہابی، بدعتی، گمراہ، کافر، غیر مقلد وغیرہ وغیرہ کہتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگ نفس پرست ہوتے ہیں۔ ان کو مذہب کا اور مسلمانوں کی بربادی کا کچھ بھی خیال نہیں ہوتا۔“ [شريعت يا جهالت ص 108 مطبوعه : مكتبه خليل، الوهاب ماركيٹ 38۔ اردو بازار لاهور]
? یہ کتاب محمد زکریا تبلیغی صاحب اور ابوالحسن ندوی صاحب کی تصدیق شدہ ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ زکریا صاحب، ندوی صاحب اور پالن حقانی صاحب کے نزدیک انوار خورشید صاحب نفس پرست ہیں۔ انہیں مذہب اسلام اور مسلمانوں کی بربادی کا کچھ بھی خیال نہیں ہے۔

تنبیہ بلیغ : بعض لوگ صفوں میں چار انچ یا کم و زیادہ جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث و اجماع و آثار میں نہیں ہے۔ یہ صف بندی نہیں بلکہ ”صف دری“ یعنی صفیں چیرنا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص صف چیرے اللہ اے کاٹ دے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد : 666 و سنده حسن، و صححه ابن خزيمة : 1549 والحاكم على شرط مسلم 213/1 ووافقه الذهبي] وما علينا إلا البلاغ

 

اس تحریر کو اب تک 75 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply