صحیح حدیث حجت ہے ، چاہے خبرِ واحد ہو یا متواتر

تحریر : حافظ زبیر علی زئی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿مَنۡ يُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ ﴾
” جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔“ [النسآء : ۸۰]
اس آیتِ کریمہ و دیگر آیات سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا فرض ہونا ثابت ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ قُبا (مدینے) میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج کی رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آگیا ہے ۔ پس سارے نمازی جو شام کی طرف رخ کئے نماز پڑھ رہے تھے ، نماز ہی میں کعبہ کی طرف مڑ گئے ۔
[مؤطا امام مالك رواية ابن القاسم بتحقيقي : ۲۷۷ و سنده صحيح ، رواية يحييٰ بن يحييٰ ۱۹۵/۱ ح ۴۶۰ ، صحيح البخاري : ۴۰۳ و صحيح مسلم : ۵۲۶]
معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین عقیدے میں بھی صحیح خبرواحدکو حجت سمجھتے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے بادشاہ ہرقل کی طرف دعوتِ اسلام کے لئے جو خط بھیجا تھا ، اسے سیدنا دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا تھا ۔ دیکھئے : [صحيح بخاري : ۷]
اس سے معلوم ہوا کہ صحیح خبر واحد ظنی نہیں ہوتی بلکہ یقینی ، قطعی اور حجت ہوتی ہے ۔
حافظ ابن الصلاح الشہرزوری لکھتے ہیں :
”صحیحین میں جتنی احادیث (حدثنا کے ساتھ بیان کردہ) ہیں وہ قطعی طور پرصحیح ہیں کیونکہ امت (اجماع کی صورت میں) معصوم عن الخطأ ہے لہٰذا جسے امت نے صحیح سمجھا ہے اس پر عمل (اور ایمان) واجب ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ روایات حقیقت میں بھی صحیح ہی ہیں ۔ اس پر محی الدین نووی کا اختلاف ذکر کرنے کے باوجود ابن کثیر رحمہ اللہ الدمشقی لکھتے ہیں :اور یہ استنباط اچھا ہے … ۔ ۔ میں اس مسئلے میں ابن الصلاح کے ساتھ ہوں ، انہوں نے جو کہا: اور راہنمائی کی ہے (وہی صحیح ہے) واللہ اعلم “
[اختصار علوم الحديث مع تحقيق الشيخ الالباني ج ۱ ص ۱۲۵ ، ۱۲۶]
ابن کثیر رحمہ اللہ رحمہ الله مزید فرماتے ہیں :
اس کے بعد مجھے ہمارے استاد علامہ ابن تیمیہ کا کلام ملا جس کا مضمون یہ ہے : جس حدیث کو (ساری) امت کی (بالاجماع) تلقی بالقبول حاصل ہے ، اس کا قطعی الصحت ہونا ائمہ کرام کی جماعتوں سے منقول ہے ۔ ان میں قاضی عبدالوہاب المالکی ، شیخ ابوحامد الاسفرائنی ، قاضی ابوالطیب الطہری اور شافعیوں میں سے شیخ ابواسحاق الشیرازی ، حنابلہ میں سے (ابوعبداللہ الحسن) ابن حامد (البغدا دی الور اق) ، ابویعلیٰ ابن الفراء ، ابوالخطاب ، ابن الزاغونی اور ان جیسے دوسرے علماء ، حنفیہ میں سے شمس الائمہ السرخسی سے یہی بات منقول ہے ۔ (کہ تلقی بالقبول والی احادیث قطعی الصحت ہیں)ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے فرمایا : اشاعرہ (اشعری فرقے) کے جمہور متکلمین مثلاًً ابواسحاق الاسفرائنی اور ابن فورک کا یہی قول ہے … ۔ اور یہی تمام اہل حدیث (محدثینِ کرام اور ان کے عوام) اور عام سلف الصالحین کا مذہب (دین) ہے ۔ یہ بات ابن الصلاح نے بطورِ استنباط کہی تھی جس میں انہوں نے ان اماموں کی موافقت کی ہے۔
[اختصار علوم الحديث ج ۱ص ۱۲۸ ، ۱۲۷]
جو حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے ، اس کے بارے میں امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں : اسے ترک کرناجائز نہیں ہے ۔
[مناقب الشافعي للبيهقي ج۱ ص ۴۸۳ و سنده صحيح]
امام شافعی رحمہ الله فرماتے تھے
متي رويتُ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثًا صحيحًا فلم آخذ به والجماعة . فأشهد كم أن عقلي قد ذهب
جب میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث بیان کی جائے اور میں اسے (بطورِ عقیدہ و بطورِ عمل) نہ لوں تو گواہ رہو کہ میری عقل زائل ہو چکی ہے ۔
[مناقب الشافعي ج ۱ص ۴۷۴ و سنده صحيح]
معلوم ہوا کہ امام شافعی کے نزدیک ، صحیح حدیث پر عمل نہ کرنے والا شخص پاگل ہے ۔
امام شافعی خبر واحد (صحیح) کو قبول کرنا فرض سمجھتے تھے ۔ دیکھئے :
[جماع العلم للشافعي ص ۸ فقره : ۱]
امام شافعی رحمہ الله نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله سے فرمایا :
تم ہم سے زیادہ صحیح حدیثوں کو جانتے ہو ، پس اگر خبر (حدیث) صحیح ہو تو مجھے بتا دینا تاکہ میں اس پر عمل کروں چاہے (خبر) کوفی ، بصری یا شامی ہو ۔
[حلية الاولياء ۱۷۰/۹ ، وسنده صحيح ، الحديث : ۲۵ ص ۳۲]
معلوم ہوا کہ صحیح حدیث چاہے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہو یاسنن اربعہ و مسند احمد وغیرہ میں ہو یا دنیا کے کسی معتبر و مستند کتاب میں صحیح سند سے موجود ہو تو اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا فرض ہے ۔ اسے ظنی ، خبر واحد ، مشکوک ، اپنی عقل کے خلاف یا خلافِ قرآن وغیرہ کہہ کر رد کردنیا باطل ، مردود اور گمراہی ہے ۔
امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله نے فرمایا :
جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (صحیح) حدیث رد کی تو وہ شخص ہلاکت کے کنارے پر (گمراہ) ہے ۔
[ مناقب احمد ص ۱۸۲ ، وسنده حسن ، الحديث : ۲۶ ص۲۸]
امام مالک رحمہ الله کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا :
”یہ حدیث حسن ہے ، میں نے یہ حدیث اس سے پہلے کبھی نہیں سنی”اس کے بعد امام مالک رحمہ الله اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ۔
[تقدمة الجرح و التعديل لابن ابي حاتم ص ۳۱ ، ۳۲ ج۱ ، وسنده حسن]
امام ابوحنیفہ رحمہ الله کے بارے میں حنفی علماء یہ کہتے ہیں کہ صحیح حدیث ان کا مذہب تھا ۔
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں :
أما بالخبر الواحد فقال بجوازه الأئمة الأربعة
قرآن کی خبر واحد(صحیح) کے ساتھ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے ۔
[غيث الغمام ص ۲۷۷]
معلوم ہوا کہ زمانۂ تدوینِ حدیث کے بعد ، اصولِ حدیث کی رُو سے صحیح روایت کو ایمان ، عقائد ، صفات اور احکام وغیرہ سب مسائل میں قبول کرنا فرض ہے ۔
(۱۴/فروری ۲۰۰۷؁ء)

اس تحریر کو اب تک 37 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply