صحیحین میں بدعتی راوی

تحریر: ابن الحسن المحمدی


ہم راوی کے صدق و عدالت اور حفظ وضبط کو دیکھتے ہیں۔ اس کا بدعتی، مثلاً مرجی، ناصبی، قدری، معتزلی، شیعی وغیرہ ہونا مصر نہیں ہوتا۔ صحیح قول کے مطابق کسی عادل و ضابط بدعتی راوی کا داعی الی البدعہ ہونا بھی مضر نہیں ہوتا اور اس کی وہ روایت بھی قابل قبول ہوتی ہے جو ظاہراً اس کی بدعت کو تقویت دے رہی ہو۔ 

بدعت کی اقسام : 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : 
(1) بدعت صغریٰ، (2) بدعت کبریٰ 
بدعت صغریٰ کی مثال انہوں نے تشیع سے دی ہے جبکہ بدعت کبریٰ کی مثال کامل رفض اور اس میں غلو سے دی ہے۔ 
(ميزان الاعتدال : 5/1، 6) 

انہوں نے ابان بن تغلب راوی کے بارے میں لکھا ہے : 
 شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه، وعليه بدعته . 
’’ یہ کٹر شیعہ لیکن سچا تھا۔ ہمیں اس کی سچائی سے سروکار ہے۔ اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا۔ “ (ميزان الاعتدال : 5/1) 

اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بدعتی راوی ثقہ اور عادل کیسے ہو سکتا ہے تو اس کا جواب ہم حافظ ذہبی رحمہ اللہ ہی کی زبانی ذکر کرتے ہیں، وہ لکھتےہیں : 
 وجوابه ان البدعة على ضربين، فبدعة صغرى كغلو التشيع او كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق، فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الاثار النبوية، وهذه مفسدة بينة ثم بدعة كبرى كالرفض الكامل والغلو فيه والحط على أبي بكر وعمر – رضي الله عنهما – والدعاء الى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة. وايضا فما استحضر الان في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا بل الكذب شعارهم والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله، حاشا وكلا، فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا – رضي الله عنه، وتعرض لسبهم والغالي في زماننا وعرفنا هو الذى يكفر هؤلاء السادة ويتبرأ من الشيخين ايضا، فهذا ضال معثر، ولم يكن ابان بن تغلب يعرض للشيخين اصلا، بل قد يعتقد عليا افضل منهما. 
بدعت کی دو قسمیں ہیں : 

(1) بدعت صغریٰ جیسے غلو یا بلاغلو شیعیث۔ اس قسم کی رائے تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ باوجود یہ کہ وہ دیندار، پرہیزگار اور سچے تھے۔ اگر ان کی احادیث ردّ کر دی جائیں تو تمام احادیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور یہ واضح خرابی ہے۔ 

(2) بدعت کبریٰ جیسے کامل رفض اور اس میں غلو، سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے وقار کو مجروح کرنا اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا۔ اس نوع کے راویوں سے حجت نہیں لی جائے گی، نہ ان کی عزت و تکریم کی جائے گی۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ میرے حافظےکے مطابق ایسے راویوں میں سے کوئی ایک بھی سچا اور قابل اعتبار آدمی موجود نہیں بلکہ جھوٹ ان کا شعار اور تقیہ و نفاق ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جس شخص کا یہ حال ہو اس کی روایت کیسے قبول کی جائے گی ؟ ہرگز نہیں۔ سلف کے دور میں غالی شیعہ وہ شخص تھا جو سیدنا عثمان، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ، سیدنا معاویہ اور اس گروہ پر اعتراض کرتا تھا اور ان کو برا بھلا کہتا تھا جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی جبکہ ہمارے زمانے میں غالی وہ شخص ہے جو ان محترم شخصیتوں کی تکفیر کرتا ہے اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے براءت کا اعلان کرتا ہے۔ ایسا شخص سراسر گمراہ ہے۔ جہاں تک ابان بن تغلب کا تعلق ہے تو اس نے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ صرف یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان سے افضل ہیں۔ “ (ميزان الاعتدال : 5/1، 6) 

بدعت صغریٰ، یعنی غیر مکفرہ کے مرتکب راوی کی روایت قبول کی جائے گی، بشرطیکہ وہ ثقہ و صدوق ہو۔ بدعت غیر مکفرہ کو شرک اور کفر سے جا ملانا درست نہیں۔ 

بدعت کبریٰ، یعنی مکفرہ کے مرتکب راوی کی روایت مردود ہے کیونکہ وہ ساقط العدالت ہے۔ عدالت کے لیے پہلی شرط ہی اسلام ہے جو اس میں مفقود ہو چکی ہے۔ 

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ھ ) لکھتے ہیں : 
لا إشكال في رد روايته . 
’’ بدعت کبریٰ کے مرتکب راوی کی روایت کے مردود ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ “ 
(اختصار علوم الحديث: ص 83) 

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
 ولا يبقي من الرواة الذين لم اذكرھم الا من ھو ثقة او صدوق، وان كان ينسب الي ھوي، فھو فيه متاول . 
’’ میں نے جن راویوں کو (اپنی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال میں) ذکر نہیں کیا، وہ سب کے سب ثقہ یا صدوق ہیں، اگرچہ ان (میں سے بعض ) کو بدعتی کہا گیا ہے لیکن وہ ایک تاویل کی وجہ سے اس بدعت میں مبتلا تھے۔ (الكامل لابن عدي : 16/1) “ 

ائمہ حدیث کا مجموعہ تصرفات یہ آگاہی دیتا ہے کہ بدعتی راوی خواہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو، جب تک اس کی بدعت اس کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی اور اس کے خون کو جائز قرار نہیں دیتی، اس کی روایت قابل قبول ہو گی۔ 

فائدہ نمبر ۱: 
اگر راوی ثقہ و صدوق ہو، بدعت غیر مکفرہ کا مرتکب ہو تو اس کی روایت قبول ہو گی خواہ وہ روایت ظاہراً اس کی بدعت کو تقویت دے رہی ہو۔ یہی صحیح اور حق بات ہے۔ 

علامہ جوزجانی (م ۲۵۹ھ ) کہتے ہیں کہ اگر بدعتی راوی کی روایت اپنی بدعت کی تقویت میں ہو تو قبول نہیں۔ (احوال الرجال للجوزجاني : 32) 

یاد رہے کہ جوزجانی صدوق، حسن الحدیث ہیں لیکن خود غالی ناصبی، بدعتی تھے۔ ان کی یہ بات درست نہیں۔ (ديكھئيے التنكيل بما في تانيب الكوثري من الاباطيل:42/1، 52) 

فائدہ نمبر ۲ : 
 امام اہل سنت نعیم بن حماد الخزاعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے پوچھا کہ محدثین کرام نے عمرو بن عبید کو کس وجہ سے متروک قرار دیا ہے تو امام صاحب نے فرمایا : عمرو بن عبید عقیدۂ قدر کا داعی تھا۔ “ (تقدمه الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 273، وسنده حسن) 

اگر کوئی یہ اشکال پیش کرے کہ جب داعی الی البدعہ کی روایت قبول ہے تو عمرو بن عبید کو داعی الی القدر ہونے کی بنا پر متروک کیوں قرار دیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمرو بن عبید پر محدثین کرام کی جروح یہ بتاتی ہیں کہ یہ ’’ کذاب “ اور ’’ وضاع “ بھی تھا۔ یقیناً یہ اپنی بدعت کے لیے جھوٹ بولنا اور حدیثیں گھڑنا روا سمجھتا ہو گا۔ گویا اس کی اپنی بدعت کی طرف دعوت جھوٹ اور وضع حدیث سے مرکب تھی۔ ایسی مرکب دعوت راوی کو ناقابل اعتبار اور ساقط العدالت بنا دیتی ہے، لہٰذا محدثین کرام نے اسے متروک قرار دیا۔ 

یہاں بطور خاص یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ کسی شخص کے قدری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ منکر تقدیر ہے، بلکہ قدری لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ شر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے یا شر صرف بندے کا فعل ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ خیر و شر دونوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا صحیح نہیں۔ اس لیےکہ شر اللہ تعالیٰ نے حکمت کے تحت پیدا کیا ہے، لہٰذا وہ شر بھی اپنی حقیقت میں اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے خیر ہے۔ اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فعل میں شر نہیں بلکہ اس کی مخلوقات میں شر موجود ہے۔ اتنی سی بات منکرین حدیث سمجھ نہیں پائے اور انہوں نے محدثین کرام کو منکرین تقدیر کہہ کر اعتراضات شروع کر دیے ہیں۔ 

فائدہ نمبر ۳ : 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
 محمد بن الحسن الشيباني صاحب الراي وكان مرجئا داعيا إليه، وهو أول من رد على أهل المدينة، ونصر صاحبه، يعني النعمان، وكان عاقلا، ليس فى الحديث بشيء، كان يروي عن الثقات، ويهم فيها، فلما فحش ذلك منه استحق تركه من أجل كثرة خطئه، لأنه كان داعية إلى مذهبهم . 
 ’’ محمد بن الحسن الشیبانی صاحب الرائے اور مرجی تھا، ارجاء کی طرف دعوت دیتا تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے اہل مدینہ کی مخالفت کی اور اپنے استاذ، یعنی نعمان کی نصرت و تائید کی۔ وہ قیاس کرتا تھا، حدیث میں کسی کام کا نہ تھا۔ وہ ثقہ راویوں سے روایات بیان کرتا تھا اور ان میں وہم کھاتا تھا۔ جب یہ اوہام زیادہ ہو گئے تو کثرت خطا کی وجہ سے وہ متروک قرار دیے جانے کا مستحق ہو گیا کیونکہ وہ اہل ارجاء کے مذہب کی طرف دعوت دیتا تھا۔ “ (كتاب المجروحين لابن حبان: 275/2، 276) 

محمد بن حسن شیبانی بالاتفاق ’’ ضعیف “ راوی ہے۔ اس کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ’’ کذاب “ قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ عمرو بن عبید والی کاروائی میں ملوث تھا۔ اس کی طرح اس کی بھی اپنی بدعت کی طرف دعوت جھوٹ کے ساتھ مرکب تھی۔ 

فائدہ نمبر ۴ : 
 اگر کوئی کہے کہ صحیح بخاری میں عباد بن یعقوب الرواجنی ابوسعید الکوفی راوی موجود ہے جو مشہور رافضی ہے اور بدعت کا داعی ہے تو واضح رہے کہ یہ راوی حسن الحدیث ہے اور جمہور محدثین کرام نے اس کی توثیق کی ہے۔ کسی بھی ثقہ و صدوق راوی کی روایت قابل قبول ہوتی ہے جب تک وہ ساقط العدالت نہ ہو جائے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اصولِ بخاری میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں۔ 

حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں : 
وعنه البخاري حديثا في الصحيح مقرونا بآخر . 
’’ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس سے اپنی صحیح میں ایک حدیث روایت کی ہے لیکن وہ حدیث اس کے ساتھ دوسرے ثقہ راوی کو ساتھ ملا کر بیان کی ہے۔ “ 
(ميزان الاعتدال : 379/2) 

گویاا مام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں اس سے حجت نہیں لی۔ 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
’’ اس کی روایت کے علاوہ اس حدیث کے اور طرق بھی بخاری میں موجود ہیں۔ “ (ھدي الساري لابن حجر) 
لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوا۔ 
ولِلّٰهِ اَلْحَمْدُ 

اگر کوئی کہے کہ صحیح بخاری میں عمران بن حطان نامی راوی کی روایت موجود ہے جو کہ خارجیوں کا رئیس تھا تو جواب یہ ہے کہ خروج کا الزام ثابت ہو جانے کی صورت میں بھی اس راوی کی حدیث کے لیے مضر نہیں کیونکہ یہ صدوق، حسن الحدیث تھا۔ جمہورمحدثین کرام نے اس کی توثیق کی ہے۔ پھر صحیح بخاری کے اندر اصول میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتےہیں کہ متابعت میں صرف ایک حدیث ہے اور اس کے بھی کئی اور طرق موجود ہیں۔ (ھدي الساري لابن حجر : 433) 

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جو راوی اصول کے نہیں، یعنی ان کی روایات متابعات و شواہد میں ذکر کی گئی ہیں، وہ ہماری بحث سے خارج ہیں۔ عمومی طور پر منکرین حدیث اور عقل پرستوں کا حملہ انہی راویوں پر ہوتا ہے جو اصول کے راوی نہیں ہیں، یعنی امام بخاری و مسلم نے اپنی سند کے ساتھ ان سے مرفوع، مسند اور متصل روایت بیان نہیں کی ہوتی۔ ان کی روایات متابعات و شواہد میں ہوتی ہیں یا دوسرے راویوں کو ملا کر ذکر کی گئی ہوتی ہیں۔ ایسے راویوں پر جرح کر کے یا ان کو بدعتی قرار دے کر یہ باور کرانا کہ بخاری و مسلم میں ضعیف راوی موجود ہیں، محض مغالطہ ہے۔ 

یہی صحیح روایات بخاری و مسلم سے پہلے دوسرے محدثین کرام نے اپنی کتابوں میں بھی درج کی ہوتی ہیں، اس کے باوجود حملہ بخاری و مسلم پر ہوتا ہے۔ کیوں ؟ 

جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب منکرین حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : 
 ’’ یہ بےچارے اصولِ حدیث میں بالکل کورے ہیں۔ محمد بن خازم بخاری اور مسلم کے مرکزی راوی ہیں۔ اصولِ حدیث کی رُو سے ثقہ راوی کا خارجی یاجہمی، معتزلی یا مرجی، وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت ہیں۔ “ (احسن الكلام از صفدر، حصه اول: ص31) 

صحیح بخاری و مسلم میں بدعتی راویوں کے بارے میں چند اصولی باتیں یاد رکھنی چاہئیں : 
(1) صحیحین میں بدعت کبریٰ، یعنی بدعت مکفرہ کے مرتکب راوی کی کوئی روایت موجود نہیں۔ 
(2) صحیحین میں ثقہ و صدوق بدعتی راویوں کی روایات موجود ہیں۔ ایسے راویوں کی روایات میں کوئی مضرت نہیں۔ 
(3) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق بدعتی راویوں کی روایات موجود ہیں جو بدعت کے داعی تھے۔ یہ چیز بھی چنداں مضر نہیں۔ 
(4) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی ہیں جن پر بدعتی ہونے کا محض الزام ہے۔ 
(5) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی موجود ہیں جن پر کسی بدعتی کی تعریف کی بنا پر وہی الزام تھوپ دیا گیا۔ 
(6) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی ہیں جو پہلے بدعتی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنی بدعت سے رجوع کر لیا تھا۔ 
(7) یہ بھی ممکن ہے کہ صحیح بخاری میں موجود روایت بدعتی راوی نے اپنی بدعت کو اختیار کرنے سے پہلے بیان کر دی ہو۔ 
(8) صحیح بخاری و مسلم میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی موجود ہیں جن کی روایات بظاہر ان کی بدعت کو تقویت دیتی ہیں۔ یہ چیز بھی مضر نہیں کیونکہ صدق و عدالت سے موصوف ثقہ و صدوق راوی کسی صحیح حدیث میں غلط تاویل کر سکتا ہے۔ جب وہ خود سچا اور عادل ہے تو اس کی غلط تاویل سے صحیح حدیث میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ اس کی روایت قبول کرنے میں کوئی مانع اور حرج نہیں۔

السنہ جہلم شمارہ ۳۵، ص۳۹۔۳۲

یہ تحریر اب تک 35 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply