صالحین کو پکارنا

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

ان باتوں کا جاننا ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے کیوں کہ ان پر زمانہ جاہلیت کے اہل کتاب اور امی عمل پیرا تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کی خوبی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابل کی چیز سامنے ہو۔ اشیاء کی حقیقت تو ان کے اضداد ہی سے واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلہ کی سب سے زیادہ خطرناک بات یہ سے کہ دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے بارے میں ایمان سے خالی ہو مزید برآں اگر وہ دین جاہلیت کو اچھا سمجھتا ہے اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہو تو یہ تباہی کی انتہا ہے، اللہ تعالیٰ ا اس سے پناہ میں رکھے۔
✿ ارشاد خداوندی ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّـهِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ [ 29-العنكبوت:52]
”اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں ؟“

اہل جاہلیت اللہ کی بندگی اور دعا میں صالحین کو بھی شریک کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ صالحین کی اس تعظیم کو اللہ پسند کرتا سے اور اس کے ذریعہ اللہ کے یہاں وہ اپنے لئے شفاعت چاہتے تھے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ صالحین بھی اس کو اچھا سمجھتے ہیں جیسا کہ :
✿ سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ٭ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ [ 39-الزمر:3]
”بیشک ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو اللہ کی عبادت کرو دین اس کے لئے خالص کر کے۔ دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے زیبا ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ ) ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا۔ “
✿ اور باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّـهِ [10-يونس:18]
”اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ اس کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ “
اور یہی وہ سب سے بڑا مسئلہ تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے عبادت کا خالص تصور پیش کیا اور انہیں بتایا کہ یہ ہے اللہ کا دین، جس کے سوا کوئی بات اس کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو گی اور انہیں باخبر کیا کہ اہل جاہلیت کی ان پسندیدہ باتوں پر جو بھی عمل کرے گا اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ پورے دین کے لئے اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی بنیاد پر مسلم اور کافر کی تفریق کی جاتی ہے، اسی بناء پر دونوں کے درمیان عداوت ہوتی ہے اور اسی غرض سے جہاد شروع ہوا۔
✿ چنانچہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ [2-البقرة:193]
”اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔ “

اس تحریر کو اب تک 17 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply