شک و شبہ والے امور سے اجتناب بہتر ہے

تحریر : خادم حسین پردیسی

بے عیب نعمتوں سے اعراض کر کے شک و شبہ والی باتوں میں گرفتار کیوں ہوا جائے ؟
شریعت ہر مسلمان کو اس کا حکم دیتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے اور اپنے دامن کو گناہوں کی آلودگی سے محفوظ رکھے۔ لیکن کچھ امور ایسے ہیں جو اگرچہ حلال اور حرام کی قید سے آزاد ہیں لیکن شک و شبہ کی زد میں آتے ہیں، ان سے اجتناب کرنا ہی مسلمان کے لئے پسندیدہ ہے کیونکہ ان کے کرنے سے انسان بھلائی کے راستے سے بھٹک کر گناہوں کی وادی میں کھو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ اس قسم کے تردد کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا وہ فلاں کام کریں یا نہ کریں؟ لیکن اگر وہ ان جیسے کاموں سے مکمل اجتناب کر کے اپنے آپ کو اس اشکال سے نجات دلا دیں تو یہ ان کے دین و ایمان کی سلامتی کے لئے بہتر ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص رات کو بلاوجہ جاگنے کا عادی ہے اگرچہ وہ رات گناہوں میں بسر نہیں کرتا لیکن ممکن ہے کہ کچھ عرصہ بعد اس کا رات کو مسلسل جاگنا اسے گناہوں کی طرف کھینچ کر لے جائے۔ اس لئے اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ دن کو محنت اور جدوجہد کرے اور رات کے وقت اپنے بستر پر دراز ہو جائے کیوں کہ رات آرام ہی کیلئے تخلیق کی گئی ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ رات کو بہت دیر سے سونے والے صبح کی نماز جماعت سے نہیں پڑھتے بلکہ بعض بدنصیب تو نماز پڑھے بغیر طلوعِ آفتاب کے بعد تک سوئے رہتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ ایک لڑکا بہت دیر سے اپنے گھر آیا اور سو گیا۔ صبح جب اس کے والد نماز کے لئے جا رہے تھے تو اسے اٹھایا، وہ اُوں اُوں کرکے دوسری طرف کروٹ بدل کر سو گیا۔ جب اس کے والد مسجد میں نماز و اذکار وغیرہ کے بعد واپس آئے تو سورج طلوع ہو چکا تھا اور وہ لڑکا آرام سے خراٹے بھر رہا تھا۔ والد نے غصے سے کہا: اٹھو سورج نکل آیا ہے۔
لڑکا بولا: ابا جی ! اگر آدھی رات کو سورج نکل آئے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟
اس بدنصیب لڑکے کے نزدیک ابھی آدھی رات ہوئی تھی۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو نماز عشاء کے بعد جلدی سلانے کی کوشش کریں۔
اسی طرح کچھ لوگوں کو مکمل صحت اور تندرستی کے باوجود فارغ رہنے کی عادت ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اس فراغت کو دین و دنیا کے کسی مفید کام میں صَرف کریں، کہیں ان کی یہ فراغت انہیں گناہوں کا راستہ نہ دکھا دے۔ احادیث مبارکہ میں شک و شبہ والے امور سے اجتناب کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔

❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں ایک کھجور دکھائی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لولا أني أخاف أن تكون من الصدقة لأكلتها ”اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ یہ کھجور صدقہ کی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔“ [ بخاري : 2431، مسلم : 1071]
اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد کیلئے لوگوں کے صدقہ کا استعمال حرام ہے۔
جس کام میں انسان شک و شبہ محسوس کرے اور پھر اسے یہ خوف لاحق ہو کہ کہیں میرے اس فعل سے لوگ مطلع نہ ہو جائیں تو ایسے کام سے دور رہنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کیونکہ جو بات دل میں تردد پیدا کرے اور پھر اس کے متعلق لوگوں کے باخبر ہو جانے کا خوف بھی ہو تو یہی بات گناہ کہلاتی ہے۔

◈ امام مسلم نیشاپوری رحمہ اللہ سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : البر حسن الخلق والإثم ما حاك فى صدرك و كرهت أن يطلع عليه الناس ”نیکی (یہ ہے ) کہ اچھے اخلاق سے پیش آیا جائے اور گناہ ( یہ ہے ) کہ تم تردد میں مبتلا ہو جاؤ اور اس بات سے خوف کھاؤ کہ کہیں لوگوں کو اس کی خبر نہ ہو جائے۔“ [صحيح مسلم : 2553]
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار ایسی نعمتوں سے نوازا ہے، جو شک و شبہ سے بالاتر ہیں تو پھر انسان ان بے عیب نعمتوں سے اعراض کر کے شک و شبہ والی باتوں میں کیوں گرفتار ہوتے ہیں؟ !۔

◈ امام ترمذی رحمه الله سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”دع ما يريبك إليٰ ما لا يريبك“
”میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے یہ حدیث حفظ کی ہے، شک و شبہ والی بات کو بغیر شک و شبہ والی بات کیلئے ترک کر دو۔“ [ سنن الترمذي : 2518 و قال : ”هٰذا حديث صحيح ”و سنده صحيح و صححه ابن خزيمه : 2348 و ابن حبان : 512 و الحاكم 13/2، ووافقه الذهبي ]
اگر کوئی شخص غلطی سے حرام چیز کھا لے جس کے متعلق اسے پہلے نہ بتایا گیا ہو تو اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے بدن کی اس حرام چیز سے نشونما نہ ہونے دے بلکہ اسے نکال باہر کرے۔

◈ امام بخاری رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ایک غلام انہیں روزانہ (اپنی غلامی کا ) معاوضہ دیا کرتا تھا اور وہ اس کے معاوضے سے (کچھ) کھایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لے کر آیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ چیز لے کر کھا لی۔ غلام کہنے لگا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کیا کھایا ہے ؟ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا (میں نے ) کیا (کھایا ہے ) ؟ غلام نے کہا: میں نے جاہلیت میں ایک آدمی کو نجومی بن کر کوئی بات کہی تھی جبکہ میں اس میدان کا آدمی نہ تھا لیکن میں نے اسے دھوکا دیا اور اسے اپنی طرف سے وہ بات بتا دی۔ وہ شخص مجھے (آج) ملا ہے تو اس نے مجھے اس بات کے بدلہ میں یہ چیز دی ہے۔ تو انہوں نے اپنا ہاتھ (اپنے منہ میں ) ڈالا اور جو کچھ ان کے پیٹ میں تھا اسے قے کر کے باہر نکال دیا۔ [صحيح بخاري : 3842 ]
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حرام باتوں سے بچائے اور شک و شبہ والے امور سے بھی اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين يا رب العالمين

 

یہ تحریر اب تک 19 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply