شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں……

توحید و سنت کے احیاء اور شرک و بدعت کے استیصال کے لئے دین اسلام میں جو تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ وہ بہت ہی جامع اور اہم ہیں۔ سدّ ذرائع کے تحت تمام وہ رخنے بند کر دیئے گئے ہیں جن سے شرک کی بو آسکتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللهم لا تجعل قبري و ثنا
”اے اللہ میری قبر کو وثن (عبادت گاہ) نہ بنانا۔ اللہ کی لعنت ہے ایسی قوم پر جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو مساجد (سجدہ گاہ ) بنایا۔“
[مسند حميدي: ۱۰۳۱ و سنده حسن]
کائنات میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر کر مکرم و معظم اور محبوب کون ہے؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر کو ”عبادت گاہ نہ بنائے جانے“ کی دعا فرما رہے ہیں تو یہ کسی دوسرے کے لئے کیسے جائز ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے ، اس پر (مجاور بن کر) بیٹھنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع کیا ہے [مسلم: ۹۷۰]
بلکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں (پر بنی ہوئی عمارتوں) کو (گرانے اور انہیں) برابر کرنے کے لئے بھیجا تھا [مسلم: ۹۶۹] لیکن ”یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ “
اقتدار کی حرص اور کرسی کی سلامتی کے لئے مزارات وسیع و عریض کئے جارہے ہیں قبروں پر کمپلیکس تعمیر ہورہے ہیں بلکہ قبروں پر تو حرم (بیت اللہ) کے برآمدے کی نقل اتاری گئی ہے ۔ اس کے باوجود کہ ان سے پہلے جو لوگ ان امور میں سرگرم تھے وہ تاحال ”نشانِ عبرت“ بنے ہوئے ہیں۔
کیونکہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کو بھول کر قبروں کو لو لگانے والے نہیں جانتے کہ“ اللہ جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے“ [آلِ عمران: ۲۶]
اور جسے دینا چاہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے اللہ روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا [بخاري: ۸۴۴]
تو پھر اہلِ اقتدار ہوں یا حزبِ اختلاف، عوام ہو یا خواص اِدھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے توحید و سنت کا دامن تھامتے ہوئے اپنے اللہ وحدہ لاشریک الہ کو راضی کرلیں تو کتنا ہی اچھا ہو!۔

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply