سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مناقب و فضائل

تحریر:حافظ شیر محمد

سیدۃ نساء العالمین في زمانھا، البضعۃ النبویۃ و الجھۃ المصطفویۃ….. بنت سید الخلق رسول اللہﷺ…. و أم الحسنین“اپنے زمانے میں دنیا کی ساری عورتوں کی سردار، نبی کریم ﷺ کا جگر گوشہ اور نسبتِ مصطفائی…. سید الخلق رسول اللہ ﷺ کی بیٹی …. اور حسنین کی والدہ” (سیراعلام النبلاء ۱۱۸/۲، ۱۱۹)
سیدنا علیؓ نے جب ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا پیغام بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((فاطمۃ بضعۃ مني، فمن أغضبھا أغضبني)) فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے ، جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا ۔ (صحیح بخاری: ۳۷۱۴ و اللفظ لہ ، صحیح مسلم: ۲۴۴۹)
ایک روایت میں ہے ((یؤ ذیني ماآذاھا)) وہ چیز مجھے تکلیف دیتی ہے جس سے اسے تکلیف پہنچی ہے (صحیح بخاری: ۵۲۳۰ و صحیح مسلم: ۲۴۴۹، دارالسلام: ۶۳۰۷)
ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا : ((أما ترضین أن تکوني سیدۃ نساء أھل الجنۃ أو نساء المؤمنین؟)) کیا تم اہل جنت اور مومنوں کی عورتوں کی سردار ہونے پر راضی نہیں ؟ تو وہ (خوشی سے) ہنس پڑیں۔ (صحیح بخاری: ۳۶۲۴، صحیح مسلم: ۲۴۵۰)
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ فاطمہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اس طرح چلتی ہوئی آئیں گویا کہ نبی ﷺ چل رہے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا : ((مرحباً یا ابنتي)) خوش آمدید اے میری بچی ! پھر آپ (ﷺ) نے انہیں اپنی دائیں یا بائیں طرف بٹھا لیا ۔ (صحیح بخاری : ۳۶۲۳ وصحیح مسلم : ۲۴۵۰)
عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کی عادات و اطوار ،آپ کے اٹھنے بیٹھنے کی پروقار کیفیت اور سیرت میں فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا، جب وہ نبی ﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو  آپ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے پھر ان کو بوسہ لے کر اپنی جگہ بٹھاتے تھے اور جب نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ کا بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتی تھیں۔(سنن الترمذی: ۳۸۷۲ و سندہ حسن، وقال الترمذی: ھٰذا حدیث حسن غریب)
رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت سیدہ فاطمہؓ کو خوشخبری دی تھی کہ وہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں سوائے مریم بنت عمران کے ۔ (الترمذی : ۳۸۷۳ وسندہ حسن)
سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، پھر آپ عشاء تک (نفل) پڑھتے رہے ، پھر جب فارغ ہو کر چلے تو میں (بھی) آپ کے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سن کر فرمایا : یہ کون ہے ؟ حذیفہ ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : ((ماحاجتک غفر اللہ لک و لأمک)) تجھے کیاضرورت ہے ؟ اللہ تجھے اور تیری ماں کو بخش دے ۔ (پھر) آپ نے فرمایا: ((إن ھٰذا ملک لم ینزل الأرض قط قبل ھٰذہ اللیلۃ استأذن ربہ أن یسلّم عليّ و یبشرني بأن فاطمۃ سیدۃ نساء أھل الجنۃ و أن الحسن و الحسین سیدا شباب أھل الجنۃ)) یہ فرشتہ اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا ۔ اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کہنے کی اجازت مانگی اور یہ (فرشتہ) مجھے خوشخبری دیتا ہے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (سنن الترمذی : ۳۷۸۱ وسندہ حسن، وقال  الترمذی: حسن غریب، وصححہ ابن خزیمہ : ۱۱۹۴ و ابن حبان : ۲۲۲۹ و الذہبی فی تلخیص المستدرک ۳۸۱/۳)

نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی ، سیدہ فاطمہ ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بلایا اور(اپنی چادر کے نیچے داخل کرکے) فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل (اہل بیت) ہیں۔ (صحیح مسلم : ۲۴۰۴/۳۴ و ماہنامہ الحدیث : ۲۶ ص ۶۲) 

سیدنا ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :((والذي نفسي بیدہ! لا یبغضنا أھل البیت رجل إلا أدخلہ اللہ النار))

اس  ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ہم اہل بیت سے جو آدمی بھی بغض رکھے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے (جہنم کی) آگ میں داخل کرے گا۔ (صحیح ابن حبان ، الاحسان: ۶۹۳۹، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۸، الموارد: ۲۲۴۶ و سندہ حسن، و صححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم ۱۵۰/۳ح ۴۷۱۷، و انظر سیر اعلام النبلاء ۱۲۳/۲)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد (ﷺ)، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔ (مسند احمد ۲۹۳/۱ و سندہ صحیح، ماہنامہ الحدیث : ۳۰ ص ۶۳)
نبی ﷺ نے مرض الموت میں سیدہ فاطمہؓ کو بلا کر راز کی ایک بات بتائی تو وہ رونے لگیں پھر دوسری بات بتائی تو وہ ہنسنے لگیں۔ فاطمہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے بتایا: “میں اس بیماری میں فوت ہوجاؤں گا” تو میں رونے لگی پھر آپ ﷺ نے مجھے بتایا کہ اہلِ بیت میں سب سے پہلے (وفات پاکر) میں آپ سےجا ملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔ (صحیح بخاری: ۳۷۱۵، ۳۷۱۶ و صحیح مسلم : ۲۴۵۰)
سیدہ فاطمہؓ آپﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد تقریباً بیس سال کی عمر(۱۱ ہجری) میں فوت ہوئیں۔ (دیکھئے تقریب التہذیب : ۸۶۵۰)

تنبیہ (۱): جس روایت میں آیا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے وفات سے پہلے غسلِ وفات کیا تھا، ضعیف و منکر روایت ہے ۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث: ۲۸ ص ۱۵،۱۴

تنبیہ(۲):         بعض گمراہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ “سیدہ فاطمہؓ کی وفات کا سبب یہ ہے کہ (سیدنا) عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے انہیں دھکا دیا تھا” ۔ یہ بالکل بے اصل ، من گھڑت اور موضوع قصہ ہے ۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں آلِ بیت ، تمام صحابۂ کرام ، خلفائے راشدین ، سیدنا حسن ، سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور سیدہ فاطمہؓ کی محبت سے بھر دے ۔ آمین۔

اس تحریر کو اب تک 18 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply