ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘ لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَا یِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحاً قَرِیْباً’’ اللہ راضی ہو گیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو ہے اُسے اللہ خوب جانتا ہے، پس اُس نے اُن پر سکون نازل فرمایا اور فتح قریب عطا فرمائی ( الفتح: ۱۸)
‘‘لایدخل النار أحد ممن بایع تحت الشجرۃ’’بیعتِ رضوان کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔[سنن الترمذی: ۳۸۶۰ وقال: ‘‘ھذا حدیث حسن صحیح’’ و سندہ صحیح و أصلہ فی صحیح مسلم: ۲۴۹۵]
نبی ﷺ نے اپنی مبارک زبان سے انہیں جنت کی خوش خبری دی ہے۔ [سنن الترمذی: ۳۷۴۷وسندہ صحیح، الحدیث:۱۹ص ۵۶]
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ اُحد کے دن فرمایا: ‘‘أوجب طلحۃ’’ طلحہ کے لئے جنت واجب ہو گئی۔[مسند ابی یعلیٰ ۲؍۳۳ح۲۷۰وسندہ حسن، و الترمذی: ۱۲۹۲ ، ۳۷۳۹وقال: ‘‘ھذا حدیث حسن غریب’’ إلخ وصححہ الحاکم ۳؍۳۷۴ووافقہ الذھبی]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘ مِنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ رِجَال‘’صَدَقُوْ ا مَا عَا ھَدُو اللہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ صلے’’پہلے مومنوں میں سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا، اُن میں سے بعض کی زندگی کے دن پورے ہو گئے اور بعض (آنےو الے وقت کے ) منتظر ہیں۔ (سورۃ الاحزاب:۲۳)
نبی ﷺ نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو ‘‘زندگی کے دن پورے ہو گئے ’’ میں ذکر فرمایا ہے۔[سنن الترمذی: ۳۲۰۳وسندہ حسن وقال الترمذی: ‘‘ھذا حدیث حسن غریب’’ إلخ]
غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ کا دفاع کرتے کرتے طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔[صحیح البخاری: ۴۰۲۳]
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ جنگِ جمل کے موقع پر تریسٹھ(۲۳) سال کی عمر میں چھتیس (۳۶) ہجری کو شہید ہوئے۔ [تقریب التہذیب: ۳۰۲۷]
آپ کو مروان بن الحکم الاموی نے گھٹنے پر تیر مارا تھا (جس سے ) آپ شہید ہو گئے[طبقات ابن سعد ۳؍۲۲۳ و سندہ صحیح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘ إنی لأ رجو أن أکون أنا و طلحۃ و الزبیر ممن قال اللہ ’’‘‘ونز عنا مافی صدورھم من غل’’ مجھے یہ پوری امید ہے کہ میں ، طلحہ اور زبیر (بن العوام) ان لوگوں میں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ان کے دلوں میں جو رنجش ہو گی ہم اسے نکال دیں گے [وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح(بیٹھے) ہوں گے](سورۃ الحجر: ۴۷) اسے امام ابن ابی شیبہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔[المصنف ۱۵؍۲۸۱ ، ۲۸۲ ح۳۷۸۱۰نیز دیکھئے طبقات ابن سعد ۳؍۲۲۵وسندہ حسن]
جنگ جمل کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘واللہ ما أری بعد ھذا خیراً’’اللہ کی قسم، میرے خیال میں اب اس کے بعد کوئی خیر نہیں ہے [مصنف ابن ابی شیبہ۱۵؍۲۷۸ح۳۷۸۱۰وسندہ صحیح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘لعن اللہ قتلۃ عثمان فی السھل و الجبل و البروالبحر’’عثمان (رضی اللہ عنہ) کو قتل (شہید) کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو، میدان میں ، پہاڑ میں، خشکی میں اور سمندر میں ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ ۱۵؍۲۶۸ح۳۷۷۸۲و سندہ صحیح، سالم بن ابی الجعد بری من التدلیس: الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ۴۸؍۲] بعض روافض اصحابِ جمل کی تکفیر کرتے ہیں، اُن کی تردید میں ابو جعفر الباقر محمد بن علی بن الحسین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ : ‘‘ لم یکفر أھل الجمل’’ اصحاب جمل(جنہوں نے باہمی جنگ لڑی) نے کفر نہیں کیا۔[مصنف ابن ابی شیبہ ۱۵؍۲۵۸ح۳۷۷۵۷وسندہ صحیح] ایک روایت کا خلاصہ ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔[دیکھئے صحیح مسلم: ۵۰؍۲۴۱۷و أضواء المصابیح:۶۱۰۸]
‘‘أقل العیب علی المرء أن یجلس فی دارہ’’ آدمی اگر اپنے عیوب کم کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے[مسند مسدد کما فی المطالب العالیۃ: ۲۸۱۴وقال ابن حجر: ‘‘صحیح موقوف’’ و کتاب الزھد لابن المبارک، روایۃ نعیم بن حمادالصدوق: ۱۲، و الزھد لوکیع:۲۵۴و الزھد لابی داود: ۱۱۷ ، ۱۱۸و الزھد لابن ابی عاصم : ۸۱والعزلۃ للخطابی:۲۲وسندہ صحیح]