سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب و فضائل

تحریر:  حافظ شیر محمد 

   
سیدنا ابو الاعور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل القرشی العدویؓ فرماتے ہیں کہ:
          “واللہ لقد رأیتني و إنَّ عمر لموثقي علی الإسلام قبل أن یسلم عمر، ولو أنَّ أُحدًا رفضّ للذي صنعتم بعثمان لکان محقوقاً أن یرفضّ
اللہ کی قسم ! مجھے وہ وقت یاد  ہے جب عمر(رضی اللہ عنہ )نے اسلام قبول کرنے سے پہلے، مجھے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا۔ تم لوگوں نے (سیدنا) عثمان (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اگر اس کی وجہ سے احد (کا پہاڑ) اپنی جگہ سے ہٹ جاتا تو یہ اس کے مستحق تھا کہ ہٹ جائے ۔ (صحیح البخاری : ۳۸۶۲)
معلوم ہواکہ سیدنا سعید بن زیدؓ السابقین الاولین میں سے اور قدیم الاسلام ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا :
“وسعید بن زید فی الجنۃ” اور سعید بن زید جنتی ہے ۔ (سنن الترمذی:۳۷۴۷ و سندہ صحیح، الحدیث : ۱۹ص ۵۶)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ:
احد العشرۃ المشھود لھم بالجنۃ، ومن السابقین الأولین البدریین، ومن الذین رضي اللہ عنھم و رضواعنہ، شھد المشاھد مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وشھد حصار دمشق و فتحھا، فولاہ علیھا أبوعبیدۃ بن الجراح، فھو أول من عمل نیابۃ دمشق من ھذہ الأمۃ
“آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، انہیں جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ، آپ سابقین اولین اور بدری صحابیوں میں سے تھےجن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ آپ(تمام) غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے ۔ آپ دمشق کے محاصرے اور فتح کے وقت (وہاں) موجود تھے۔ آپ کو (سیدنا) ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے دمشق کا والی بنایا اور اس امت میں دمشق کے سب سے پہلے نائب آپ رہے تھے ۔” (سیر اعلام النباء ج ۱ ص ۱۲۵،۱۲۴)

تنبیہ:     سیدنا سعید بن زیدؓغزوۂ بدر کے موقع پر مدینہ میں حاضر نہیں تھے بلکہ شام میں تھے ۔ دیکھئے الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ج۲ ص ۴۶ ج ۳۲۶۱)

غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں آپ کا حصہ مقرر کیا گیا تھا (جس کی وجہ سے آپ کو بدری کہا جاتا ہے )۔          دیکھئے معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی (ج۱ ص ۱۴۱ بسند صحیح عن محمد بن اسحاق بن یسار ، ص ۱۴۲ بسند صحیح عن معمر)

غالباً اسی وجہ سے امام نافع (مولیٰ ابن عمرؓ) کی روایت میں آیا ہے کہ :””وکان بدریاً” اور وہ (سعید بن زید) بدری تھے ۔ (معرفۃ الصحابۃ ص ۱۴۳  وسندہ صحیح)

سیدنا عمرؓ کی بہن فاطمہ بنت الخطابؓ آپ کی زوجہ محترمہ تھیں جن کے بارے میں ایک ضعیف روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اپنی بہن اور بہنوئی کو اسلام لانے کی وجہ سے مار مار کر لہولہان کردیا تھا۔ پھر انہوں نے (وضوء یا غسل) کرکے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی  اور مسلمان ہوگئے تھے (!)
سعید بن زیدؓ کے والد زید بن عمرو بن نفیل توحید اور دین ابراہیمی پر تھے اور نبی کریم ﷺ کے نبی معبوث ہونےسے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے ۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر الصدیقؓ فرماتی ہیں کہ:
“میں نے دیکھا، زید بن عمرو بن نفیل کعبہ سے پیٹھ لگائے ، کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے تھے کہ : اے قریشیو! اللہ کی قسم ، میرے سوا تم میں سے کوئی دینِ ابراہیم پر نہیں ہے ۔ (اسماءؓ فرماتی ہیں کہ:) وہ (زید) لڑکیوں کو زندہ درگور نہیں کرتے تھے ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو قتل کرنا چاہتا تو یہ اس سے کہتے : اسے قتل نہ کرو، اس کے تمام اخراجات میں اپنے ذمہ لیتا ہوں ، پھر وہ اس لڑکی کو لے لیتے تھے۔ جب وہ بڑی عمر کو ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے : اگر تو چاہے تو تیری لڑکی تیرے حوالے کردوں، ورنہ میں ہی اس کے سارے معاملات پورے کروں گا۔ (صحیح البخاری : ۳۸۲۸)

زید بن عمرو نے تحقیق کرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے اور دعا فرمائی :

          “اللھم إني أشھدأني علی دین إبراھیم” اے اللہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں ۔(صحیح بخاری)

زید بن عمرو کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”یأتي یوم القیامۃ أمۃ وحدہ” وہ قیامت کے دن ایک امت (کی حیثیت سے) ہو کر آئے گا۔                     (المستدرک للحاکم ۲۱۶/۳ ح ۴۹۵۶ و سندہ حسن ، و صححہ الحاکم علی شرط مسلم و أقرہ الذہبی فی التلخیص)

اَروٰی نامی ایک عورت نے سیدنا سعید بن زیدؓ پر مروان بن الحکم الاموی کی عدالت میں جھوٹا دعویٰ کردیا کہ انہوں نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے ۔ عدالت میں سعید بن زیدؓ نے نبی کریم ﷺ کی ایک  حدیث سنا کر فرمایا:
اللھم إن کانت کاذبۃ فعم بصرھا و اقتلھا في أرضھا “اے میرے اللہ ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اسے اندھا کردے او ر اسے اس کی زمین میں ہلاک کر ۔راویٔ حدیث (عروہ) کہتے ہیں  کہ: وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی ہوگئی اور پھر وہ ایک دن اپنی زمین پر چل رہی تھی کہ ایک گڑھے (کنویں) میں گر کر مر گئی۔ (صحیح مسلم : ۱۶۱۰ وترقیم دارالسلام: ۴۱۳۴)
اولیاء اللہ سے دشمنی کا یہ انجام انتہائی عبرتناک ہے مگر پھر بھی لوگ باز نہیں آتے۔ سیدنا سعید بن زیدؓ کی بہت کم روایات ہم تک پہنچی ہیں جن میں دو حدیثیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہیں۔
ایک دفعہ کوفہ کی بڑی مسجد میں کسی (ظالم اور بدنصیب) شخص نے سیدنا علیؓ کو برا کہا تو سیدنا سعید بن زیدؓ نے اس پر سخت انکار کیا اور وہاں نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث سنائی جس میں عشرہ مبشرہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے۔
 نبی کریم ﷺ نے فرمایا :”أبوبکر فی الجنۃ، و عثمان فی الجنۃ، علي فی الجنۃ” إلخ  ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں اور علی جنتی ہیں….. الخ سعید بن زیدؓ نے فرمایا:
واللہ المشھد شھدہ رجل یغبر فیہ وجھہ مع رسول اللہ ﷺ أفضل من عمل أحدکم ولو عمّر عمر نوح علیہ الاسلام” اللہ کی قسم ! جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی معرکے میں حاضر رہا ہے اور اس کے چہرے پر غبار پڑا ہے وہ  تمہارے تمام (نیک ) اعمال سے افضل ہے اگرچہ تمہیں نوح         کی عمر بھی مل جائے۔                                                  (دیکھئے مسند احمد ج ۱ص ۱۸۷ ح ۱۶۲۹ و سندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کے غبار کو بھی کسی نیک انسان کا عمل نہیں پہنچ سکتا ۔ سبحان اللہ
نافع (تابعی) فرماتے ہیں کہ آپ (۵۰؁ھ یا  ۵۲؁ھ تو میں) عقیق (مدینہ سے باہر ایک مقام) پر فوت ہوئے، پھر آپ کو مدینہ لایا گیا اور آپ (مدینہ میں ) دفن کئے گئے۔ (طبقات ابن سعد ج۳ ص ۳۸۴ و سندہ حسن)
آپ جمعہ کے دن فوت ہوئے تھے، آپ کی وفات کی خبر پہنچی تو (سیدنا) ابن عمرؓ عقیق چلے گئے اور (مصروفیت کی وجہ سے) نماز جمعہ چھوڑ دی۔ (ابن سعد ۳۸۴/۳ و سندہ صحیح)
عبداللہ بن عمرؓ نے انہیں حنوط (خوش بو) لگایا اور اُٹھا کر مسجد لے گئے ، پھر آپ کا جنازہ  پڑھا اور دوبارہ وضوء نہ کیا۔
                           (طبقات ابن سعد  ۳۸۴/۳ و سندہ صحیح)
نافع سے روایت ہے کہ سعید بن زید بدری صحابی تھے۔ سیدنا ابن عمرؓکو معلوم ہوا کہ وہ (سیدنا سعید بن زیدؓ) جمعہ کے دن بیمار ہیں تو انہوں نے سورج بلند ہونے اور نماز جمعہ قریب ہونے کے باوجود جمعہ چھوڑ دیا اور سعید بن زیدؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاری : ۳۹۹)  رضي اللہ عنہ

اس تحریر کو اب تک 26 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply