سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے محبت

 نبی کریم ﷺ کے حواری سیدنا زبیر بن العوام بن خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرزندار جمند اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔
          رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ:”ان لکل نبي حواریّاً و حواريّ الزبیر بن العوام”  ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں (صحیح البخاری : ۲۸۲۶ و صحیح مسلم : ۲۴۱۵)

          سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ :”أما أبوہ فحواري النبی ﷺ“ اور اس (عبداللہ بن الزبیرؓ ) کے ابا جان ، نبی ﷺ کے حواری تھے (صحیح البخاری : ۴۶۶۵)

سفیان بن عیینہ نے فرمایا  کہ : حواری ناصر (مددگار) کو کہتے ہیں۔(سنن ترمذی : ۳۷۴۴ و سندہ صحیح)

بنوقریظہ والے دن، نبی اکرم ﷺ نے زبیرؓ کو فرمایا:”فداک أبي و أمي“ میرے ماں باپ تجھ پر فدا (قربان) ہوں (صحیح البخاری: ۳۷۲۰ و صحیح مسلم: ۲۴۱۶)

سیدنا عمرؓ نے فرمایا:
          ”ماأجدأحق بھذا الأمر من ھؤ لاء النفرأ والرھط الذین توفي رسول اللہﷺ وھو عنھم راضٍ، فسمّی علیاً عثمان و الزبیر و طلحۃ وسعداً و عبدالرحمٰن“ میرے خیال میں اس خلافت کا مستحق ان لوگوں کے علاوہ دوسرا کوئی شخص نہیں ہے ، جن سے رسول اللہ ﷺ وفات تک راضی تھے ، آپ نے علی، عثمان، زبیر ، طلحہ ، سعد (بن ابی وقاص) اور عبدالرحمٰن (بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کا نام لیا۔ (صحیح البخاری: ۳۷۰۰)

سیدنا عثمانؓ نے فرمایا:”أما والذي نفسي بیدہ إنہ لخیرھم ما علمت و إن کان لأحبھم إلی رسول اللہﷺ” اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بےشک وہ (زبیرؓ) میرے علم کے مطابق ان لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور آپ نبی ﷺ کو ان سب سے زیادہ محبوب تھے (صحیح البخاری : ۳۷۱۷)

رب کریم کا ارشاد ہے کہ ﴿ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۲﴾ۚ﴾ جن لوگوں نے تکلیف اٹھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہی، ان میں نیک اور متقی لوگوں کے لئے بڑا اجر ہے۔ (آل عمران: ۱۷۲)

          اس آیت کے بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنے بھانجے عروہ بن الزبیرؒ سے فرماتی ہیں کہ :”أبواک، واللہ من الذین استجابواللہ والرسول من بعدما أصابھم القرح“ اللہ کی قسم ! تیرے دونوں والدین (ابا زبیر ؓ اور نانا ابوبکرؓ) ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زخم و تکلیف اٹھانے کے بعد بھی اللہ و رسول کی پکار پر لبیک کہی۔ (صحیح مسلم: ۲۴۱۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۲۴۹)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”زبیر (بن العوام) جنت میں ہیں“ (سنن الترمذی: ۳۷۴۷ و إسنادہ صحیح، الحدیث: ۱۹ص ۵۶)

ایک روایت میں آپﷺ نے سیدنا زبیرؓ کو شہید کہا۔ (صحیح مسلم: ۲۴۱۷ و الحدیث :۱۹ ص ۵۶)

جنگِ جمل میں آپ سیدنا علیؓ کے خلاف لشکر میں تھے کہ آپ کے پاس سیدنا عبداللہ بن عباسؓ تشریف لائے اور کہا :آپ اپنی تلوار کے ساتھ علی بن ابی طالب  بن عبدالمطلب سے جنگ کر رہے ہیں، (آپ کی والدہ) صفیہ بن عبدالمطلب کہاں ہے؟ یہ سن کر زبیرؓمیدانِ جنگ سے لوٹ آئے تو (راستے میں) ابن جرموز ملا، اس نے (غداری اور دھوکے سے) آپ کو شہید کردیا۔ آپ کی شہادت کے بعد عبداللہ بن عباس علیؓ کے پاس گئے اور پوچھا:صفیہ کے بیٹے (زبیر) کا قاتل کہاں جائے گا ؟ تو علیؓ نے فرمایا : (جہنم کی ) آگ میں۔(طبقات ابن سعد ۱۱۰/۳ و سندہ حسن ، ثابت بن یزید سمع من ھلال بن خباب قبل اختلاطہ، انظرنیل المقصود في تحقیق سنن أبي داؤد:۱۴۴۳)

زربن حبیشؒ سے روایت ہے کہ میں (سیدنا) علیؓ کے پاس تھا کہ (سیدنا زبیرؓ کے قاتل) ابن جرموز نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو علیؓ نے فرمایا:ابن صفیہ (زبیرؓ) کے قاتل کو آ گ کی “خوشخبری” دے دو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے (مسند احمد ۸۹/۱ ح ۶۸۰ و سندہ حسن)

اس روایت کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے ۔(المستدرک ۳۶۷/۳ ح ۵۵۷۹)

سیدنا علیؓ نے فرمایا : مجھے یہ پوری امید ہے کہ میں، طلحہ اور زبیر(بن العوام) ان لوگوں میں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ان کےدلوں میں جو رنجش ہوگی ہم اسے نکال دیں گے ]وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح (بیٹھے) ہوں گے[(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۸۱،۲۸۲/۱۵ ح ۳۷۸۱۰ وسندہ حسن ، الحدیث:۲۰ ص ۴۸) سیدنا زبیرؓ بچپن میں مسلمان ہوئے تھے اور چھتیس ہجری کو جنگِ جمل سے واپس لوٹتے ہوئے شہید کئے گئے ۔رضي اللہ عنہ 

تحفۃ الاشراف کی ترقیم کے مطابق کتاب ستہ میں آپ کی بیان کردہ بیس سے زیادہ احادیث ہیں ان میں سے مشہور ترین حدیث درج ذیل ہے:

سیدنا زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:”من کذب عليّ فلیتبوأ مقعدہ من النار“جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے گا وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی) آگ میں تلاش کرے ۔ (صحیح بخاری: ۱۰۷)

اے اللہ ! ہمارے دِلوں کو سیدنا زبیرؓ اور تمام صحابہ کرامؓ کی محبت سے بھر دے۔ رضي اللہ عنھم أجمعین

اس تحریر کو اب تک 24 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply