سیدنا اویس القرنی ؒ کے متعلق روایات کی صحت!

سوال : محترم حافظ زبیر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ : مجھے کافی عرصہ سے حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق کچھ سوالات کے جواب معلوم کرنا تھے مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں۔
① جنگ اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے پر اپ یعنی اویس قرنی نے اپنے تمام دانت توڑ لئے کیا یہ درست ہے۔ کیا ایسا کرنا اور خود کو نقصان پہنچانا جائز ہے ؟
② نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ خاص طور سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ آپ ان سے دعا کروایا کریں ؟ کیا یہ درست ہے ؟ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہ کا رتبہ ان سے بلند ہے اور ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے۔۔۔
③ آپ رحمہ اللہ اپنے والدین کی خدمت میں مشغولی کے باعث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے۔ والدین کی خدمت اپنی جگہ درست۔ میں نے کہیں پڑھا تھا غالباً یوں کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی اولاد اس کے ماں باپ سے زیادہ اس کو عزیز نہ ہو جائیں۔ مہربانی فرما کر اس کی بھی تقحیح فرما دیجئے اور جواب بھی تحریر فرمائیے۔ (والسلام لیاقت علی راولپنڈی)

الجواب :
① یہ روایت کہ سیدنا اویس بن عامر القرنی رحمہ اللہ نے اپنے تمام دانت توڑ دیئے تھے، بے اصل اور من گھڑت روایت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہو گئی ہے۔ محدثین کی کتابوں میں اس روایت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔
② سیدنا اویس القرنی رحمہ اللہ کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف تھا لیکن صحیح و محقق بات یہی ہے کہ ان کا وجود ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن خير التابعين رجل يقال له أويس، وله والدة، وكان به بياض، فمر وه فليستغفر لكم
” ’’ تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں، اس کی والدہ (زندہ ) ہے اور اس ( کے جسم) میں سفیدی ہے۔ اس سے کہو کہ تمہارے لئے دعا کرے۔ “ [صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل اويس القرني ح 2542 و ترقيم دارالسلام : 6491 ]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اویس رحمہ اللہ مستجاب الدعوات تھے یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی دعا خاص طور پر قبول فرماتا تھا۔ صحیح مسلم کی دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہ ہو سکے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی شامل تھی۔
روایات اویس میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کوئی ذکر نہیں تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ان سے استغفار ( دعا کی درخواست) کرانا مذکور ہے۔ [صحيح مسلم، ترقيم دارالسلام : 6492 ]
کسی افضل شخص کا مفضول شخص سے دعا کروانا توہین کی بات نہیں ہوتی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے افضل تھے مگر ان سے آپ کا (استسقاء کی) دعا کروانا ثابت ہے، دیکھئے : [صحيح بخاري1010، 3710 ]
تنبیہ بلیغ : سیدنا اویس رحمہ اللہ بذاتِ خود دوسرے مفضول اور غیر افضل افراد سے دعا کرواتے تھے، دیکھئے : [صحيح مسلم ح6492 ترقيم دارالسلام]
لہٰذا اس قسم کی باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیئے۔
③ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے دیکھئے : [ صحيح بخاري : 15و صحيح مسلم : 44 ]
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام لانے والے تمام تابعین پر یہ فرض و واجب تھا کہ وہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کرتے اگرچہ ان کے پاس حاضر نہ ہو سکنے کا شرعی عذر بھی تھا۔ دوسرے یہ کہ راقم الحروف نے حدیث کی روشنی میں عرض کر دیا ہے کہ اویس رحمہ اللہ کا مدینہ منورہ تشریف نہ لانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے تھا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے کہ مدینہ حاضر ہو جاؤ۔ والله اعلم
تنبیہ : اویس قرنی والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔ (11ذو القعدہ 1427ھ)

 

یہ تحریر اب تک 36 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. Anonymous

    MashAllah

Leave a Reply