سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے مناقب و فضائل

تحریر: حافظ شیر محمد
سیدنا ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ الجراح القرشی النہری المکیؓ سابقین اولین میں سے ہیں۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إن لکلّ أمۃٍ أمینًا و إنّ أمیننا أیتھا الأمۃ أبو عبیدۃ بن الجراح))

بے شک ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے (میرے) امتیو! بے شک ہمارا امین ابو عبیدہ بن الجراح (رضی اللہ عنہ) ہیں۔(صحیح بخاری: ۳۷۴۴ و صحیح مسلم: ۲۴۱۹)

سیدنا حذیفہ بن الیمانؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نجرانیوں (کے وفد) سے فرمایا تھا:((لأبعثنّ إلیکم رجلاً أمینًا حق أمین، حق أمین)) میں تمھاری طرف ایسا آدمی بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہے ، امین ہے ۔ پھر آپ(ﷺ) نے لوگوں (اپنے صحابہ کرامؓ) کو دیکھا پھر ابوعبیدہ بن الجراح (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو روانہ کیا۔ (صحیح مسلم: ۲۴۲۰ و اللفظ لہ ، صحیح بخاری: ۳۷۴۵)

سیدنا حذیفہؓ ہی سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ کے پاس نجران سے عاقت اور سید (دو عیسائی) آئے ۔ وہ آپ سے مباہلہ کرنے چاہتے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ایسا نہ کر، اللہ کی قسم ! اگر وہ نبی ہوئے اور ہم نے مباہلہ کرلیا تو ہم اور ہماری اولاد کبھی کامیاب نہ رہے گی۔ انھوں نے کہا :”آپ جو چاہتے ہیں ہم آپ کو دیتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ ایک امین آدمی بھیج دیں، امین (امانت دار) کے سوا دوسرا کوئی شخص نہ بھیجیں۔ “

آپ ﷺنے فرمایا: میں تمہارے ساتھ وہ امین بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہے ۔ صحابہ کرامؓ کو دیکھنے لگے تو آپ نے فرمایا: ابوعبیدہ بن جراح اٹھ کر کھڑے ہوجاؤ۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اس امت کے امین ہیں۔ (صحیح بخاری: ۴۳۸۰)

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یمن والے (مسلمان) آئے تو کہا:ابعث معنا رجلاً یعلّمنا السنۃ والإسلام آپ ہمارے ساتھ ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام سکھائے ۔ آپ(ﷺ) نے ابوعبیدہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: یہ اس امت کے امین ہیں۔ (صحیح مسلم: ۲۴۱۹/۵۴ و ترقیم دارالسلام: ۶۲۵۳)

جسے رسول اللہ ﷺ حقیقی معنوں میں امین قرار دیں، ان کی کتنی عظیم شان ہے۔ ! اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ لوگوں کو قرآن و سنت سکھاتے تھے اور یہی دینِ اسلام ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے زبان وحی سے فرمایا: ((وأبو عبیدۃ بن الجراح فی الجنۃ)) اور ابوعبیدہ بن الجراح جنتی ہیں۔
                                                            (سنن الترمذی: ۳۷۴۷ و سندہ صحیح، ماہنامہ الحدیث: ۱۹ص ۵۶)

عبداللہ بن شقیقؒ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے صحابیوں میں سے کون آپ (ﷺ) کو زیادہ محبوب تھا؟انہوں نے فرمایا : ابوبکر ، میں نے پوچھا: پھر کون (زیادہ محبوب) تھا؟ انہوں نےفرمایا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون (زیادہ محبوب) تھا؟ انہوں نے فرمایا: ابوعبیدہ بن الجراح ۔ میں نے پوچھا : پھر کون؟ تو آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) خاموش ہوگئیں۔                              (سنن الترمذی: ۳۶۵۷ وقال :”ھذا حدیث حسن صحیح” سنن ابن ماجہ: ۱۰۲ وسندہ صحیح)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((نعم الرجل أبوبکر، نعم الرجل عمر، نعم الرجل أبوعبیدۃ بن الجراح، نعم الرجل أسید بن حضیر، نعم الرجل ثابت بن قیس بن شماس، نعم الرجل معاذ بن جبل، نعم الرجل معاذ بن عمرو بن الجموح))
ابوبکر (صدیق) اچھے آدمی ہیں، عمر اچھے آدمی ہیں، ابو عبیدہ بن الجراح اچھے آدمی ہیں، اسید بن حضیراچھے آدمی ہیں، ثابت بن قیس بن شماس اچھے آدمی ہیں، معاذ بن جبل اچھے آدمی ہیں (اور) معاذ بن عمرو بن الجموح اچھے آدمی ہیں۔                              (مسند احمد ج ۲ ص ۴۱۹ ح ۹۴۳۱ وسندہ صحیح، سنن الترمذی: ۳۷۹۵ وقال:”ھذا حدیث حسن”)

سیدنا ابوعبیدہ الجراحؓ اس لشکر کے امیر تھے جنہیں نبی ﷺ نے جہاد کے لئے بھیجا تھا۔اس لشکر کو سمندر کے پاس ایک بڑی مچھلی مردہ حالت میں ملی تھی جس کا گوشت صحابہ کرام کئی دنوں تک کھاتے رہے بلکہ رسولِ کریم ﷺ نے بھی اس گوشت میں سے کھایا تھا۔ دیکھئے صحیح بخاری (۴۳۶۱،۴۳۶۰) و صحیح مسلم (۱۹۳۵) ایک دفعہ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ ابوعبیدہ بن الجراح جیسے لوگوں سے یہ گھر بھرا ہوا ہوتا ۔ (حلیۃ الاولیاء ج ۱ص ۱۰۲ و سندہ حسن)

آپ اٹھارہ ہجری (۱۸؁ھ) کو طاعون عمواس میں بیمار ہوئے اور انتہائی صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔ دیکھئے کتاب الزہد لابن المبارک (ح ۸۸۲ و سندہ حسن، الحارث بن عمیرۃ الزبیدی الحارثی صدوق) اسی بیماری میں آپ ۱۸؁ھ کو اٹھاون (۵۸) سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ابن سعد کہتے ہیں:”رسول اللہ ﷺ کے دارالارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ابوعبیدہ مسلمان ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کے دوسرے سفر میں ہجرت فرمائی پھر (مدینہ) واپس آئے تو بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے ” (طبقات ابن سعد ۳۸۴/۷) عشرہ مبشرہ میں سے آخری جلیل القدر صحابی کا تذکرہ ختم ہوا۔

جس طرح اللہ کے رسول: محمد ﷺ تمام کائنات میں بے مثل  وبے نظیر تھے۔صرف رُویت کے لحاظ سے بھی ایک عام صحابی کے درجے کو صحابہ کے بعد امت میں سے کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا ۔ اللہﷻ سے دعاہے کہ وہ ہمارے دلوں کو سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے ۔ آمین۔
یہ تحریر اب تک 116 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply