سفر میں نمازِ قصر کا مسئلہ

تحریر : فضیلہ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ

سوال : سسرال میں قصر نماز کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
منتقی الاخبار کے مصنف امام عبدالسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے ج1 ص 216 پر یہ باب قائم کیا۔ سسرال میں قصر کا مسئلہ : حدیث 1528 : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب سے میں مکہ میں آیا ہوں تو میں نے نکا ح کر لیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جو کسی شہر میں نکا ح کر لے وہ مقیم جیسی نماز پڑھے۔ [رواه احمد ]
کیا یہ بات درست ہے کہ سسرال میں قصر نماز نہیں ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً (والسلام خرم ارشاد محمدی )
الجواب :
منتقی الاخبار والی روایت مسند احمد [26/1 ح 443] و مسند الحمیدی [36] میں عكرمة بن إبراهيم الباهلي : حدثنا عبدالله بن عبدالرحمٰن بن أبى ذباب عن أبيه أن عثمان بن عفان صلى بمنيٰ… . کی سند سے مروی ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ الله نے فرمایا :
فهذا منقطع و عكرمة بن إبراهيم ضعيف
” پس یہ منقطع ہے اور عکرمہ بن ابراہیم ضعیف ہے۔ “ [معرفة السنن ولآثار قلمي ج 2 ص 425، نصب الرايه 271/3 ]
عکرمہ بن ابراہیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے لسان المیزان [ج4 ص 210]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا: وفيه عكرمة بن إبراهيم وهو ضعيف [مجمع الزوائد 156/2]
اس کے برعکس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے منیٰ میں نماز پوری پڑھنے کے بعد خطبہ میں ارشاد فرمایا :
ياأيها الناس إن السنة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة صاحبيه ولكنه حدث العام من الناس فخفت أن يستنوا
”اے لوگو ! سنت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں ( سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ) سے ثابت ہے۔ لیکن اس سال لوگوں کی وجہ سے رش ہوا ہے لہٰذا مجھے یہ خوف ہوا کہ یہ لوگ اسے ہی اپنا نہ لیں (یعنی اپنے گھروں میں بھی چار کے بجائے دو فرض پڑھنے نہ لگیں)۔ “ [السنن الكبريٰ للبيهقي ج 3 ص 144 و سنده حسن، وانظر، معرفة السنن والآثار 429/2 ]
↰ اس سے معلوم ہواکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے سفر میں نماز پوری پڑھی تاکہ ناسمجھ لوگ غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔
یاد رہے کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث و آثار صحابہ سے ثابت ہے۔
اگر کسی شخص کا سسرال دوسرے شہر اور کی مسافت پر ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ وہاں قصر کرے لیکن پوری بھی پڑھ سکتا ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ (سفر میں) قصر کرتے رہے اور میں پوری (نماز) پڑھتی رہی، آپ نے روزے نہیں رکھے اور میں روزے رکھتی رہی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أحسنت عائشة ” اے عائشہ ! تو نے اچھا کیا ہے۔“ [سنن النسائي ج 3 ص 122 ح 1457 و سنده صحيح، سنن الدارقطني 187/2 ح 2270 وقال : ”وهو إسناد حسن“و صححه البيهقي 142/3 ]
↰ اس روایت کا راوی العلاء بن زہیر جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے۔ اس پر حافظ ابن حبان کی جرح مردود ہے۔ لہٰذا بعض علماء کا اس حدیث کو”منکر“ یا ضعیف کہنا غلط ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ :
أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقصر فی السفر ویتم و یفطر و یصوم
” بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں قصر بھی کرتے تھے اور پوری نماز بھی پڑھتے تھے۔ روزہ بھی رکھتے تھے اور نہیں بھی رکھتے تھے۔“ [سنن الدارقطني 189/2 ح 2275 وقال : ”وهذا إسناد صحيح“ ]
↰ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
سعید بن محمد بن ثواب سے شاگردوں کی ایک جماعت روایت بیان کرتی ہے، دیکھئے تاریخ بغداد [95/9]
حافظ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کر کے کہا: مستقيم الحديث ” یعنی وہ ثقہ ہے۔“ [ج8 ص 272]
حافظ دارقطنی نے اس کی بیان کردہ سند کو صحیح کہہ کر اسے ثقہ قرار دیا۔
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اس سے روایت لی ہے [134/2 ح 1062]
لہٰذا اسے مجہول و غیر موثق قرار دینا غلط ہے۔
تنبیہ : عطاء بن ابی رباح پر تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔
❀ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يتم الصلوٰة فى السفر و يقصر
” بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پوری نماز بھی پڑھتے تھے اور قصر بھی کرتے تھے۔“ [سنن الدارقطني 189/2 ح 2276 وقال : ”المغيرة بن زياد ليس بالقوي” شرح معاني الآثار 415/1 و مصنف ابن ابي شيبه 452/2 ح 8187 و سنده حسن ]
↰ مغیرہ بن زیاد جمہور کے نزدیک موثق راوی ہے۔
لہٰذا اس پر ليس بالقوي والی جرح مردود ہے۔
خلاصہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں پوری نماز پڑھنے کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں پوری نماز پڑھنا ثابت ہے۔ [مثلاً ديكهئے صحيح بخاري : 1090 و صحيح مسلم : 685/1572 ]
تنبیہ : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سفر میں وفات تک قصر کرنا بھی ثابت ہے۔ [ديكهئے صحيح بخاري : 1102 و صحيح مسلم 679/1579 ]
◈ مشہور تابعی ابوقلابہ (عبداللہ بن زید الجرمی) فرماتے ہیں کہ :
إن صليت فى السفر ركعتين فالسنة و إن صليت أربعا فالسنة
” اگر تم سفر میں دو رکعتیں پڑھو تو سنت ہے اور اگر چار رکعتیں پڑھو تو سنت ہے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه 452/2 ح 8188 وسنده صحيح ]
◈ عطاء بن ابی رباح نے فرمایا کہ :
”اگر قصر کرو تو رخصت ہے اور اگر چاہو تو پوری نماز پڑھ لو۔ “ [ابن ابي شيبه 452/2 ح 8191 و سنده صحيح ]
◈ سعید بن المسب نے فرمایا :
”اگر چاہو تو دو رکعتیں پڑھو اور اگر چاہو تو چار پڑھو۔ “ [ ابن ابي شيبه 452/2 ح 8192 و سنده صحيح ]
◈ امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا :
التقصير رخصة له فى السفر، فإن أتم الصلوٰة أجزأ عنه
” سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور اگر کوئی پوری نماز پڑھے تو جائز ہے۔ “ [سنن الترمذي : 544 ]
امام ترمذی رحمہ الله سے امام شافعی رحمہ الله تک، ان اقوال کی صحیح سندوں کے لئے دیکھیں کتاب العلل للترمذی مع الجامع [ص889] والحمد لله [27 ذو الحجه 1426؁ه]

 

یہ تحریر اب تک 21 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply