زیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت، حصہ دوئم

اس تحریر کا حصہ اول یہاں ملاحضہ کیجیے
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت و اہمیت پر مبنی بہت سی روایات زبان زد عام ہیں۔ ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري، وجبت له شفاعتي ”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری سفارش واجب ہو جائے گی۔“ [سنن الدارقطني : 278/2، ح : 2669، شعب الإيمان للبيهقي : 490/3، ح : 5169، مسند البرار كشف الأستار : 57/2، ح 1197]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، اس کے بارے میں :
➊ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإن فى القلب منه، أنا أبرا من عهدته
”میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 135/6]
◈ نیز اس روایت کو امام صاحب نے ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ [أيضا]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ومع ما تقدم من عبارة ابن خزيمة، وكشفه عن علة هذا الخبر، لا يحسن أن يقال : أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه إلا مع البيان.
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہو چکی سے، نیز انہوں نے اس روایت کی علت بھی بیان کر دی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں ! وضاحت کر کے ایسا کہا جا سکتا ہے۔“ [ايضا]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو فى صحيح ابن خزيمة وأشار الي تضعيفه .
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ [المقاصد الحسنة فى بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة : 1125]
➋ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيها لين ”اس میں کمزوری ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➌ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فهو منكر ”یہ روایت منکر ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 490/3]
➍ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
➎ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وهو حديث منكر ”یہ حدیث منکر ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 212/11، وفي نسخة : 115/11]
➏ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو مع هذا حديث غير صحيح ولا ثابت، بل هو حديث منكر عند ائمة هذا الشان. ضعيف الاسناد عندهم، لايقوم بمثله حجة، ولا يعتمد علي مثله عند الاحتجاج الا الضعفاء في هذا العلم
یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی روایت دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 30]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يصح فى هذا الباب شیء . ”اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“ [التلخيص الحبير : 267/2]
◈ نیز فرماتے ہیں :
وفيه ضعف ”اس روایت میں کمزوری ہے۔“ [اتحاف المهرة : 123/9-124]
↰ اس روایت کے راوی موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محدثین کرام نے اس کو ’’ مجہول“ اور اس کی بیان کردہ روایات کو ”منکر“ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
➊ امام ابوحاتم رازی نے اسے ’’ مجہول“ قرار دیا ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 166/8]
➋ امام دارقطنی نے اسے ’’ مجہول“ قرار دیا ہے۔ [لسان الميزان لابن حجر : 136/6]
➌ امام عقلیی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايصح حديثه، ولا يتابع عليه ”اس کی حدیث ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➍ اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ کے قول وأرجوا أنه لا بأس به [الكامل فى ضعفاء الرجال : 351/6] ذکر کرتے ہوئے حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فالحق فيه أنه لم تثبت عدالته. ”حق بات یہ ہے کہ اس راوی کی عدالت ثابت نہیں ہوئی۔“ [بيان الوهم والابهام فى كتاب الاحكام : 322/4]
↰ حافظ ابن قطان رحمہ اللہ کی یہ بات بالکل درست ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے اس قول سے موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں ہوئی، کیونکہ جعفر بن میمون نامی راوی کے بارے میں امام صاحب فرماتے ہیں :
وأرجوا أنه لا باس به، ويكتب حديثه فى الضعفاء . ”مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی حدیث ضعیف راویوں میں لکھی جائے گی۔“ [لكامل : 138/2ء، وفي نسخة : 562]

↰ یعنی امام ابن عدی رحمہ اللہ ”ضعیف“ راویوں کے بارے میں بھی یہ الفاظ بول دیتے ہیں۔ ان کی مراد شاید یہ ہوتی ہے کہ یہ راوی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
ہماری بات کی تائید علامہ عبد الرحمن بن یحیی یمانی معلی رحمہ اللہ (1313۔ 1386ھ) کے ایک قول سے بھی ہوتی ہے۔ یوسف بن محمد بن منکدر کے بارے میں بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے بالکل یہی الفاظ کہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
◈ علامہ یمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذه الكلمة رأيت ابن عدي يطلقها فى مواضع تقتضي أن يكون مقصوده : أرجوا أنه لا يتعمد الكذب، وهذا منها، لأنه قالها بعد أن ساق أحاديث يوسف، وعامتها لم يتابع عليها.
”میں نے کئی ایسے مقامات پر امام ابن عدی کی طرف سے اس کلمے کا اطلاق دیکھا ہے، جہاں ان کے قول کا مقصود یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یوسف (بن محمد بن منکدر) کی بیان کردہ روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی نے ایسا کہا ہے اور ان میں سے اکثر روایات منکر ہیں۔“ [التعليق على الفوائد المجموعة، ص : 51]

↰ ثابت ہوا کہ موسیٰ بن ہلال کو واضح طور پر کسی متقدم امام نے ”ثقہ“ قرار نہیں دیا۔ اس کی حدیث ”ضعیف“ اور ”منکر“ ہوتی ہے، جیسا کہ ائمہ کی تصریحات بیان ہو چکی ہیں۔ لہذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ [ميزان الاعتدال : 225/4] کا اسے ’’ صالح الحدیث“ کہنا ان کا علمی تسامح ہے، یہ بات درست نہیں۔ ہم نقل کر چکے ہیں کہ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ اس لئے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس تسامح کو اس حدیث کی صحت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ متقدمین ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار نہیں دیا۔ اعتبار محدثین ہی کی بات کا ہے۔

روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من جاءني زائرا لا يعلمه حاجة إلا زيارتي، كان حقا على ان اكون له شفيعا يوم القيامة
”جو شخص صرف میری زیارت کی خاطر میرے پاس آئے گا، مجھ پر روز قیامت اس کی سفارش کرنا واجب ہو جائے گا۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 291/12، ح : 13149، المعجم الاوسط للطبراني : 4543، الخلعيات للخلعي : 52، المعجم لابن المقري : 158، تاريخ أصبهان لابي نعيم الاصبهاني : 190/2، الدرة الثمينة فى أخبار المدينة لابن النجار : 155]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس کا راوی مسلمہ بن سالم جہنی (مسلم بن سالم جہنی) ’’ مجہول“ اور ”ضعیف“ ہے۔
حافظ ہیثمی [مجمع الزوائد : 2/4] اور حافظ ابن حجر [تقريب التهذيب : 6628] نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
حافظ ابن عبد الہادی [الصارم المنكي، ص : 36] نے اسے موسیٰ بن ہلال عبدی کی طرح کا ”مجہول الحال“ کہا ہے۔ اس کی کوئی توثیق ثابت نہیں۔
↰ یہی وجہ ہے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس سند کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
لہذا حافظ عراقی رحمہ اللہ [تخريج احاديث الاحياء : 306/1] کا اس کے بارے میں وصححه ابن السكن کہنا اس کی صحت کے لئے مفید نہیں۔
◈ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :
انه حديث ضعيف الإسناد، لا يصلح الاحتجاج به، ولا يجوز الاعتماد على مثله .
”اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اسے دلیل بنانا اور اس جیسی روایت پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 36]
↰ پھر اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہے، نہ کہ وفات کے بعد قبر مبارک کی زیارت۔

روایت نمبر

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من زارني فى مماتي، كان كمن زارني فى حياتي، ومن زارني حتى ينتهي إلى قبري، كنت له شهيدا يؤم القيامة، أو قال : ”شفيعا“ .
”جو میری موت کے بعد میری زیارت کرے گا، اس نے گویا زندگی میں میری زیارت کی اور جو شخص میری زیارت کو آئے حتی کہ میری قبر تک پہنچ جائے، اس کے لئے میں روز قیامت گواہی دوں گا۔“ یا فرمایا : ’’ سفارش کروں گا۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 457/3]

تبصرہ : اس کی سند سخت ”ضعیف“ اور ”منکر“ ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (663- 748ھ) فرماتے ہیں :
هذا موضوع . ”یہ خود ساختہ روایت ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 349/3، ت : 6709]
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے ”غیر محفوظ“ قرار دیا ہے۔ [الضعفاء الكبير : 457/3]
↰ اس کا راوی فضالہ بن سعید بن زمیل ماربی ”ضعیف“ ہے۔ کسی نے اسے ”ثقہ“ نہیں کہا البتہ اس کے بارے میں :
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وحديثه غير محفوظ، ولا يعرف الا به .
”اس کی حدیث شاذ ہے اور اس سے یہی ایک روایت مشہور ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 457/3]
◈ حافظ ابونعیم فرماتے ہیں :
روي المناكير، لاشي ء . ”اس نے منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ ناقابل التفات ہے۔“ [لسان الميزان لابن حجر:436/4]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے واه یعنی ”ضعیف“ کہا ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 510/2]
◈ حافظ ابن حجر نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [التلخيص الحبير : 267/2]
◈ حافظ ابن ملقن نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [البدر المنير : 255/3]

فائدہ : محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی راوی کو امام دارقطنی [سوالات البرقاني : 464] اور امام حبان [الثقات ;45/9] رحمہ اللہ نے ”ثقہ“ قرار د یا ہے لیکن امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : منكر الحديث، أحاديثه مظلمة منكرة
”یہ منکر الحدیث راوی ہے۔ اس کی بیان کردہ روایات سخت ضعیف اور منکر ہیں۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 2239/6، وفي نسخة : 234/6]
↰ یعنی یہ باوجود ثقہ ہونے کے ’’ منکر“ روایات بیان کرتا تھا۔ یہ روایت بھی اس کی مناکیر میں سے ہے۔

روایت نمبر

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زارني بالمدينة محتسبا، كنت له شفيعا وشهيدا يؤم القيامة
”جو شخص مدینہ منورہ آ کر ثواب کی نیت سے میری زیارت کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا اور اس کے حق میں گواہی بھی دوں گا۔ [تاريخ جرجان لحمزة بن يوسف السهمي، ص : 434، كتاب القبور لابن أبى الدنيا كما فى التلخيص الحبير لابن حجر : 265/2، شعب الإيمان للبيهقي : 488/3]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی ابومثنی کعبی (سلیمان بن یزید) ”ضعیف“ ہے۔
اس کے بارے میں :
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث، ليس بقوي .
”یہ منکر الحدیث اور ضعیف راوی ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 149/4]

◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا: ہے۔ [العلل الواردة فى الأحاديث النبوية : 3823]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يخالف الثقات فى الروايات، لا يجوز الاحتجاج به، ولا الرواية عنه، إلا للاعتبار.
”یہ روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ نہ اس کی روایات سے دلیل لینا جائز ہے، نہ اس کی روایات کو بیان کرنا۔ ہاں صرف متابعات و شواہد میں اس کی روایات کو بیان کیا جا سکتا ہے۔“ [كتاب المجروحين : 151/3]
↰ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے اپنی کتاب [الثقات 395/6] میں بھی ذکر کر دیا ہے۔ اصولی طور پر ان کا جمہور کے موافق جرح والا قول لے لیا جائے گا۔

رہا امام ترمذی رحمہ اللہ [الجامع : 1493] کا اس کی ایک حدیث کو ”حسن“ اور امام حاکم رحمہ اللہ [المستدرك على الصحيحين : 222/4] کا ”صحیح الاسناد“ قرار دینا تو وہ اس کی ثقاہت پر دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا کسی حدیث کو ”حسن“ کہنا ان کی ایک خاص اصطلاح ہے، جس کا اطلاق انہوں نے بہت سے مقامات پر ”ضعیف“ سند والی روایات پر بھی کیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ کا مذکورہ حکم ان کے تساہل پر مبنی ہے۔

غرضیکہ ابومثنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 3840]
➋ یہ ابومثنی راوی تبع تابعی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ہی ثابت نہیں۔ یوں اس کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ”منقطع“ بھی ہے۔
فائدہ :

اس روایت کی ایک سند مسند اسحاق بن راہویہ میں بھی ہے،

لیکن وہ ایک ”شیخ“ مبہم کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر

قال يحيى بن الحسن بن جعفر فى أخبار المدينة : ثنا محمد بن يعقوب : ثنا عبد الله بن وهب عن رجل، عن بكر بن عبدالله، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال : من اتى المدينة زائرا لي، وجبت له شفاعتي يؤم القيامة، ومن مات فى أحد الحرمين، بعث آمنا
”عبداللہ بن وہب ایک آدمی کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ بکر بن عبد اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا : جو شخص میری زیارت کے لیے مدینہ آئے گا، اس کے لیے روز قیامت میری شفاعت واجب ہو جائے گی اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہو گا، وہ امن کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔“ [شفاء السقام للسبكي، ص : 40]

تبصرہ :
یہ باطل روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس میں ”رجل“ مبہم ہے۔ اس کی دیانت و امانت اور حافظہ تو درکنار، اس کا نام بھی معلوم نہیں۔
➋ بکر بن عبداللہ کون ہے ؟ اس کا تعارف، تعین اور توثیق مطلوب ہے۔ یہ کوئی تابعی ہے یا تبع تابعی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈائریکٹ اس کی روایت ”مرسل“ اور ”منقطع“ ہے۔
➌ اس میں عبداللہ بن وہب مصری کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ انہوں نے نہ اپنے استاذ کا نام لیا ہے نہ اس سے سماع کی صراحت کی ہے۔
↰ محسوس یوں ہوتا ہے کہ یہ اسی نامعلوم شحص کی کارروائی ہے۔

◈ علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (705-744ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
وهو حديث باطل، لا أصل له، وخبر معضل، لا يعتمد على مثله، وهو من أضعف المراسيل وأوهى المنقطعات.
”یہ باطل، بے اصل اور سخت منقطع روایت ہے۔ ایسی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عام مرسل اور منقطع روایات سے بھی گئی گزری روایت ہے۔“ [الصارم المنكي، ص : 243]

↰ پھر اس روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہونے کا کوئی ذکر ہیں۔ اس کا تعلق تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ساتھ تھا۔ یا اس سے مراد خواب میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہے۔

روایت نمبر

سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ ہے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زارني بعد مؤتي، فكأنما زارني فى حياتي، ومن مات بأحد الحرمين، بعث آمنا يؤم القيامة .
”جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں فوت ہو گا، قیامت کے روز امن کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔“ [سنن الدارقطني : 277/2، شعب الايمان للبيهقي : 488/3]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ نے اسے ”معلول“ قرار دیا ہے۔ [الفتح السماوي فى تخريج أحاديث القاضي البيضاوي : 381/1]

اس روایت میں دو علتیں ہیں :
➊ ہارون بن ابوقزعہ راوی ”منکر الحدیث“ ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يتابع عليه. ”یہ منکر الحدیث راوی ہے۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 362/4، و سندهٔ صحيح]

◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهارون أبو قزعة لم ينسب، وإنما روى الشيء اليسير الذى أشار إليه البخاري.
”ہارون ابوقزعہ غیر منسوب راوی ہے۔ اس نے بہت تھوڑی روایات بیان کی ہیں، جن (کے منکر ہونے) کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 128/7]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ضعفه يعقوب بن شيبة، وذكره العقيلي والساجي وابن الجارود فى الضعفاء.
”اسے امام یعقوب بن شیبہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام عقیلی، امام ساجی اور امام ابن جارود نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔“ [لسان الميزان : 181/6]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے [الثقات 580/7] میں ذکر کیا ہے جو کہ ان کا تساہل ہے۔ بات وہی ہے جو جمہور محدثین نے فرمائی ہے۔
➋ رجل من آل حاطب ’’ مجہول“ و ’’ مبہم“ ہے۔ اسی لئے تو :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي إسناده الرجل المجهول. ”اس کی سند میں مجہول راوی ہے۔“ [التلخيص الحبير : 266/2]
لہٰذا اس روایت کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

روایت نمبر

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري – أو قال : من زارني – كنت له شفيعا أو شهيدا، ومن مات فى أحد الحرمين، بعث الله من الآمنين يؤم القيامة
”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، میں اس کے لئے سفارشی اور گواہ بنوں گا اور جو حرمین میں سے کسی حرم میں فوت ہو گا، اسے روز قیامت اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا۔“ [مسند الطيالسي، منحة المعبود : 228/1، السنن الكبرى للبيهقي : 245/5، شعب الإيمان للبيهقي : 488/3]

تبصرہ : اس کی سند باطل ہے، کیونکہ :
➊ سوار بن میمون راوی کا کتب رجال میں کوئی ذکر نہیں مل سکا۔
➋ رجل من آل عمر ’’ مجہول“ ہے۔
اس لیے اس روایت کی سند کے بارے میں :
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا إسنادمجهول. ”اس کی سند مجہول راویوں پر مشتمل ہے۔“ [السنن الكبري : 245/5]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فى إسناده نظر. ”اس کی سند میں نکارت ہے۔ [البدر المنير لابن الملقن : 298/6]

فائدہ :

شعب الایمان بیہقی [489/3] میں یہ روایت یوں ہے :
. . . حدثنا شعبة عن سوار بن ميمون : حدثنا هارون بن قزعة، عن رجل من آل الخطاب، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : من زارني متعمدا، كان فى جواري يؤم القيامة، ومن سكن المدينة وصبر على بلائها، كنت له شهيدا وشفيعا يؤم القيامة، ومن مات فى أحد الحرمين بعثه الله من الآمنين يؤم القيامة .
”جو شخص قصداً میری زیارت کرے گا، وہ روز قیامت میرے پڑوس میں ہو گا۔ جو شخص مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کرے گا اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دوں گا اور سفارش کروں گا اور جو شخص حرمیں میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہو گا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز امن والوں میں سے اٹھائیں گے۔“

اس کی سند بھی باطل ہے، کیونکہ :
➊ اس میں وہی سوار بن میمون ”مجہول“ موجود ہے، جس کا ذکر ابھی ہوا ہے۔
➋ اس میں ہارون بن قزعہ بھی ہے، جس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
➌ رجل من آل الخطاب ”مجہول“ اور ”مبہم“ ہے۔
اس بارے میں :
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والرواية فى هذا لينة. ”اس بارے میں روایت کمزور ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 362/4]

روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من حج، فزار قبري بعد موتي كان كمن زارني فى حياتي
”جو شخص میری وفات کے بعد حج کرے، پھر میری قبر کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 406/12، سنن الدارقطني : 278/2، الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 790/2، السنن الكبري للبيهقي : 246/5، أخبار مكة للفاكهي : 437/1، مسند أبى يعلى كما فى المطالب العالية لابن حجر : 372/1]

تبصرہ : یہ سخت ترین ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ :
➊ حفص بن سلیمان قاری راوی ”متروک الحدیث“ ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 1404]
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
وضعفه الجمهور. ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائد : 163/10]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقد ضعفه الجمهور. ”اسے جمہور اہل علم نے ضعیف کہا ہے۔“ [القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص : 120]
➋ لیث بن ابوسلیم راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فضعفہ الجماهير . ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [شرح صحيح مسلم : 52/1]
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور. ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [تخريج أحاديث الإحياء : 1817]
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وضعفه الأكثر. ’’ اسے جمہور اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائد : 90/1، 91، 178/2]
◈ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعفه الجمهور . ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [زوائد ابن ماجه : 542]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور. ”یہ راوی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“ [البدر المنير : 104/2، 227/7، تحفة المحتاج : 48/2]
◈ علامہ ابوالحسن سندھی حنفی لکھتے ہیں :
وفي الزوائد : ليث ابن ابي سليم، ضعفه الجمهور.
’’ زوائد میں ہے کہ لیث بن ابوسلیم راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [حاشية السندي على ابن ماجه : 1891]

فائدہ :

➊ معجم کبیر طبرانی [406/12] اور معجم اوسط طبرانی [201/1] میں حفص بن سلیمان کی متابعت عائشہ بنت سعد نے کر رکھی ہے۔

لیکن اس کے بارے میں :
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
وفيه عائشة بنت سعد، ولم أجد من ترجمها.
”اس سند میں عائشہ بنت سعد ہے۔ مجھے کتب رجال میں کہیں اس کے حالات نہیں ملے۔“ [مجمع الزوائل : 2/4]
اسی طرح اس سند میں علی بن حسن بن ہارون انصاری اور لیث بن بنت لیث بن ابوسلیم کے حالات زندگی بھی نہیں مل سکے۔ اس میں چوتھی علت یہ ہے کہ امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ احمد بن رشدین ”ضعیف“ ہیں۔ بنابریں یہ متابعت بےکار اور بے فائدہ ہے۔

(ب) شفاء السقام سبکی [ص : 27] میں حفص بن سلیمان قاری کی متابعت جعفر بن سلیمان ضبعی نے کی ہے۔

لیکن وہ بھی بےسود اور غیر مفید ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابوبکر محمد بن سری بن عثمان تمار موجود ہے جس کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي المناكير و البلايا، ليسي بشي
”یہ منکر اور جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔ یوں یہ ناقابل التفات راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 559/3]
↰ اس میں دوسری علت یہ ہے کہ نصر بن شعیب راوی ”ضعیف“ ہے۔

تنبیہ :

سبکی کی شفاء السقام [ص : 27] میں ابوالیمن ابن عساکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ مذکورہ سند میں جعفر بن سلیمان نہیں بلکہ حفص بن سلیمان راوی ابوعمر اسدی غافری قاری ہے۔ اسے جعفر قرار دینا وہم اور تصحیف ہے۔ [اتحاف الزائر وإطراف المقيم للسائر، ص : 29]

یہ راوی جو بھی ہو، سند بہرحال ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر

أخرجه أبو الفتح الأزدي فى فوائده، قال : حدثنا النعمان بن هارون بن أبى الدلهاث : ثنا أبو سهل بدر بن عبدالله المصيصي : ثنا الحسن بن عثمان الزيادي : ثنا عمار بن محمد : حدثني خالي سفيان عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله ابن مسعود، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من حج حجة الإسلام، وزار قبري، وغزا غزوة، وصلى فى بيت المقدس، لم يساله الله عما افترض عليه.
”سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اسلام کی حالت میں حج کرے، میری قبر کی زیارت کرے، اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور بیت المقدس میں نماز پڑھے گا، اللہ تعالیٰٰ اس سے فرائض کے بارے میں سوال نہیں کرے گا۔“ [شفاء السقام للسبكي، ص : 34، لسان الميزان لابن حجر : 4/2]

شفاء السقام میں راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بجائے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ یہ تصحیف ہے، درست بات وہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔ دیکھیں : [لسان الميزان لابن حجر : 4/2، القول البديع السخاوي : 135، وغيره]
تبصرہ : یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ صاحب کتاب ابوالفتح ازدی خود ”ضعیف“ اور ’’متکلم فیہ“ راوی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774 ھ) لکھتے ہیں :
وضعفه كثير من الحفاظ من اهل زمانه، واتهمه بعضهم بوضع حديث رواه . . . .
”اسے اس کے بہت سے ہم عصر حفاظ نے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض نے تو اس پر ایک حدیث گھڑنے کا الزام بھی لگایا ہے۔“ [البداية والنهاية : 303/11، وفي نسخة : 344]
◈ ابونجیب عبدالغفار بن عبدالواحد ارموی کہتے ہیں :
رأيت أهل الموصل يوهنون أبا الفتح الأزدي جدا، ولا يعدونه شيئا.
”میں نے موصل کے اہل علم کو دیکھا ہے کہ وہ ابوالفتح ازدی کو بہت زیادہ ضعیف اور ناقابل التفات قرار دیتے تھے۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 244/2]
◈ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوبکر برقانی سے اس کے بارے میں پوچھا :
فأشار إلى أنهٔ كان ضعيفا، وقال : رأيته فى جامع المدينة، وأصحاب الحديث لا يرفعون به رأسا، ويتجنبونه.
”انہوں نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : میں نے اسے بغداد کی مسجد میں دیکھا۔ محدثین اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اس سے اجتناب کرتے تھے۔“ [تاريخ بغداد : 244/2]
◈ خود امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي حديثه غرائب ومناكير.
”اس کی بیان کردہ احادیث میں غریب اور منکر روایات ہیں۔“ [تاريخ بغداد : 244/2]
◈ امام خطیب فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے بارے میں محمد بن جعفر بن علان سے پوچھا تو :
فذكره بالحفظ، وحسن المعرفة بالحديث، وأثنى عليه.
”انہوں نے اسے ضبط اور حدیث کی اچھی معرفت سے متصف کیا اور اس کی تعریف کی۔ [ايضا]
بہرحال حافظ محمد بن حسین بن احمد بن حسین ابوالفتح ازدی موصلی کومحدثین نے صراحتاً ”ضعیف“ قرار دیا ہے، اس کے برعکس اس کے متعلق کوئی واضع توثیق ثابت نہیں۔
➋ ابوسہل بدر بن عبداللہ مصیصی کے بارے میں سبکی کہتے ہیں :
ما علمت من حاله شيئا.
”مجھے اس کے حالات کچھ علم نہیں۔“ [شفاء السقام، ص : 34-35]
➌ اس میں ابراہیم نخعی کی ”تدلیس“ بھی ہے۔
اس روایت کے بارے میں :
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في ثبوته نظر. ”اس کا ثبوت محل نظر ہے۔“ [القول البديع، ص : 135]
◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل اور جھوٹی قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال : 1 /300]
◈ابن عراق کنانی نے بھی اسے باطل کہا ہے۔ [تنزيه الشريعة : 175/2]
◈حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا الحديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم بلا شك ولا ريب عند اهل المعرفة بالحديث .
”حدیث کی معرفت رکھنے والے اہل علم کے نزدیک اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ حدیث خود گھڑ کر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ذمے لگائی گئی ہے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 169]

روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من حج البيت، ولم يزرني، فقد جفاني
”جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی، اس نے مجھ سے بے وفائی کی۔“ [الكامل لابن عدي : 2480/7، وفي نسخة : 14/7، المجروحين لابن حبان : 73/3، غرائب مالك للدارقطني كما فى شفاء السقام، ص : 28، تاريخ جرجان للسهمي، ص : 217]

تبصرہ : یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس میں محمد بن محمد بن نعمان راوی ”ضعیف“ ہے۔ جیسا کہ :
◈ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قال الدارقطني : الطعن فى هذا الحديث من محمد بن محمد بن النعمان.
”امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں خرابی محمد بن محمد بن نعمان کی وجہ سے ہے۔“ [الموضوعات : 217/2]
محمد بن محمد بن نعمان راوی ”متروک“ ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 6275]
➋ نعمان بن شبل باہلی بصری راوی بھی ”متروک“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يأتي من الثقات بالطامات، وعن الاثبات بالمقلوبات .
”یہ ثقہ راویوں کے ذمے جھوٹی اور حفظ و ضبط والے راویوں کے ذمے مقلوب روایات لگاتا ہے۔“ [كتاب المجروحين : 73/3]

فائدہ ➊ اس راوی کے بارے میں موسیٰ بن ہارون حمال کہتے ہیں :
كان متهما . ”اس (نعمان بن شبل) پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 14/7]
↰ لیکن اس قول کی سند کے راوی ابراہیم بن محمد بن عیسیٰ کی توثیق نہیں مل سکی۔

➋ عمران بن موسیٰ دجاجی کہتے ہیں :
وكان ثقة. ”یہ (نعمان بن شبل) ثقہ راوی تھا۔“ [لكامل لابن عدي : 14/7]
↰ لیکن یہ قول بھی جھوٹا ہے۔ اس کی سند میں صالح بن احمد بن ابومقاتل قیراطی راوی ہے، جس کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”متروک“ کہا ہے۔ [سوالات الحاكم للدارقطني : 113]

◈ خود امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے اس کے بارے میں کہتے ہیں :
تجسر على رفع أحاديث موقوفة، وعلى وصل أحاديث مرسلة، وعلى أحاديث يسرقها من قوم، حتى لا يفوته شيء.
”اس نے موقوف احادیث کو مرفوع اور مرسل احادیث کو موصول بنانے کی جسارت کی، نیز اس نے بہت سی احادیث لوگوں سے چوری کیں، حتی کہ اس سے کوئی چیز رہ نہ گئی۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 74/4]

◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا موضوع. ”یہ من گھڑت روایت ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 265/4]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [البدر المنير : 299/6]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے اسے لا يصح ”غیر صحیح“ کہا ہے۔ [المقاصد الحسنة : 1178]
↰ یہ حافظ سخاوی اور حافظ ابن ملقن کا تساہل ہے کہ اس روایت کو صرف ”ضعیف“ اور ”غیر صحیح“ کہا ہے، ورنہ اس طرح کے راویوں کی روایت موضوع ”من گھڑت“ درجے سے کم نہیں ہوتی۔
◈ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے صنعانی، زرکشی اور ابن الجوزی نے موضوع ”من گھڑت“ قرار دیا ہے۔ [الفوائد المجموعة فى الأحاديث الموضوعة : 34]

اسی طرح ابن طاہر ہندی [تذكرة الموضوعات : 76] اور ابن عراق کنانی [تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة : 172/2] نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔

روایت نمبر

أخرج أبو الحسن یحيى بن الحسن ابن جعفر فى أخبار المدينة من حديث النعمان بن شبل، ثنا محمد بن الفضل عن جابر، عن محمد بن علي، عن على، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”من زار قبري بعد موتي، فكانما زارني فى حياتي، ومن لم يزرني، فقد جفاني“
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی اور جس نے میری زیارت نہ کی، اس نے مجھ سے بے وفائی کی۔“ [ شفاء السقام للسبكي، ص : 39]

تبصرہ : یہ جھوٹی سند ہے، کیونکہ :
➊ اس میں وہی نعمان بن شبل ”متروک“ راوی موجود ہے جس کا تذکرہ ابھی ابھی ہوا ہے۔
➋ محمد بن فضل بن عطیہ عبسی کوفی راوی کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
كذبوه. ”محدثین کرام نے اسے جھوٹا کہا ہے۔“ [تقريب التهذيب : 6225]

➌ جابر بن یزید جعفی مشہور رافضی ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف رافضي ”یہ ضعیف رافضی راوی ہے۔“ [تقريب التهذيب : 878]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
والجعفي متفق على ضعفه، وترك حديثه
”جابر جعفی کے ضعیف اور متروک الحدیث ہونے پر (جمہور) محدثین کرام کا اتفاق ہے۔“ [خلاصة الاحكام : 684/2]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور. ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [طبقات المدلسين : 53]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندا اور رافضیوں کی کا رروائی ہے۔
➍ محمد بن علی ابوجعفر محمد باقر کی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ”منقطع“ ہوتی ہے۔

روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت سے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من زار قبري حلت له شفاعتي ”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لئے میری سفارش واجب ہو جائے گی۔“ [مسند البرار كشف الأستار: 57/2، ح : 1198]

تبصرہ : یہ سفید جھوٹ ہے، کیونکہ :
➊ اس کے راوی عبداللہ بن ابراہیم غفاری کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك، ونسبه ابن جبان إلى الوضع۔
”یہ متروک راوی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا ہے۔“ [تقريب التهذيب : 3199]

➋ اس کا استاذ عبدالرحمن بن زید بن اسلم بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عبدالرحمن متفق على تضعيفه.
”عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعیف ہونے پر (جمہور) اہل علم کا اتفاق ہے۔“ [اتحاف المهرة : 97/12، ح : 15163]

روایت نمبر

أخرج أبو الفتوح سعيد بن محمد بن إسماعيل اليعقوبي فى (جزءہ ) من طريق خالد بن يزيد : ثنا عبد الله ابن عمر العمري، قال : سمعيت سعيدا المقبري يقول : سمعت أبا هريرة رضى الله عنه، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”من زارني بعد مؤتي، فكأنما زارني وأنا حي“
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں مجھے دیکھا۔“ [شفاء السقام للسبكي، ص : 34-35]

تبصرہ : یہ بھی جھوٹی اور باطل سند ہے، کیونکہ :
اس کے راوی خالد بن یزید ابوولید عمری کے بارے میں :
◈ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :
کہ یہ ”کذاب“ ہے۔ [الجرح والتعديل لابن ابي حاتم : 360/3 وسندۂ صحيح]
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان كذابا، أتيته بمكة، ولم أكتب عنه، وكان ذاهب الحديث.
”یہ سخت جھوٹا راوی تھا۔ میں اسے مکہ میں ملا، لیکن اس سے کوئی حدیث نہیں لکھی۔ یہ حدیث میں ناقابل اعتبار تھا۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 307/3]
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وخالد هذا يحدث بالخطا، ويحكي عن الثقات ما لا أصل له .
”یہ خالد راوی غلط روایات بیان کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے بے اصل روایات نقل کرتا ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 18/3]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [السنن : 226/1]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث جدا، اكثر من كتب عنه أصحاب الرأى، لا يشتغل بذكره، لأنه يروي الموضوعات عن الأثبات.
”یہ سخت منکر احادیث بیان کرتا ہے۔ اکثر اصحاب رائے ہی اس سے روایات لکھتے ہیں۔ اس کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ثقہ راویوں کے ذمے من گھڑت لگاتا ہے۔“ [كتاب المجروحين : 284/1-285]
↰ اس کے متعلق ادنی کلمہ تولیق بھی ثابت نہیں۔

روایت نمبر

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زارني ميتا، فكأنما زارني حيا، ومن زار قبري، وجبت له شفاعتي يؤم القيامة، وما من أحد من أمتي له سعة، ثم لم يززني، فليس لهٔ عذر
”جس نے میرے فوت ہونے کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔ جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے قیامت کے دن میری سفارش واجب ہو گئی اور میرے جس امتی کے پاس فرصت ہوئی، لیکن اس نے پھر بھی میری زیارت نہ کی، اس کا کوئی عذر قبول نہیں ہو گا۔“ [الدرة الثمينة فى فضائل المدينة لابن النجار، ص : 144]

تبصرہ : یہ جھوٹی روایت اور گھڑنتل ہے، کیونکہ :
➊ سمعان بن مہدی کے بارے میں :
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حيوان لا يعرف، ألصقت به نسخة مكذوبة، رأيتها، قبح الله من وضعها .
”یہ نامعلوم جاندار ہے۔ اس کی طرف ایک جھوٹی کتاب منسوب ہے۔ میں نے وہ دیکھی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو گھڑنے والے پر لعنت کرے۔“ [ميزان الاعتدال : 234/2]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فذكر النسخة، وهى أكثر من ثلات ماة حديث، اكثر متونها موضوعة .
”اس نے ایک نسخہ ذکر کیا ہے، جس میں تین سو سے زائد احادیث ہیں۔ ان میں سے اکثر متون من گھڑت ہیں۔“ [لسان الميزان : 114/3]
➋ ابوالعباس جعفر بن ہارون واسطی کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
آتي بخبر موضوع ”اس نے من گھڑت روایت بیان کی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 1 / 420]
➌ محمد من مقاتل رازی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تكلم فيه، ولم يترك. ”یہ مجروح راوی ہے لیکن متروک نہیں۔“ [ميزان الاعتدال : 47/4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 6319]

روایت نمبر

ایک روایت میں ہے :
من زارني وزار أبى إبراهيم فى عام واحد، ضمنت له الجنة .
”جس نے میری اور میرے والد ابراہیم علیہ السلام کی ایک ہی سال میں زیارت کی، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ [المجموع شرح المهذب للنووي : 261/8، وفي نسخة : 209/8]

تبصرہ :
حافظ نووی رحمہ اللہ اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وهذا باطل، ليس هو مرويا عن النبى صلى الله عليه وسلم، ولايعرف فى كتاب صحيح ولا ضعيف، بل وضعه بعض الفجرة.
”یہ باطل روایت ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں، نہ ہی کسی صحیح یا ضعیف کتاب میں اس کا ذکر ہے۔ اسے تو بعض جھوٹے لوگوں نے خود گھڑ لیا ہے۔“ [ايضا]

روایت نمبر

ایک روایت یوں ہے :
رحم الله من زارني، وزمام ناقته بيده
”جس شخص نے اپنی اونٹنی کی لگام تھامے ہوئے میری زیارت کی، اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم فرمائے۔“ [المقاصد الحسنة للسخاوي : 363/1، ح : 515]

تبصرہ :
حافظ سخاوی رحمہ اللہ یہ روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
قال شيخنا (ابن حجر) : إنه لا أصل له بهذا اللفظ.
”ہمارے شیخ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) نے فرمایا ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت بے اصل و بے سروپا ہے۔“

روایت نمبر

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من حج الي مكة، ثم قصدني فى مسجدي، كتبت له حجتان مبرورتان .
”جو شخص مکہ مکرمہ میں حج کرنے کے بعد میری مسجد میں میری زیارت کو آئے، اس کے لئے دو مقبول حجوں کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي لابن عبدالهادي، ص : 79]

تبصرہ :
یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی اسید بن زید بن نجیح جمال کوفی ’’متروک“ اور ’’ کذاب“ ہے۔ اسے :
امام یحییی بن معین [تاريخ يحيى بن معين برواية العباس الدوري : 39/2] نے ”کذاب“ اور امام نسائی [كتاب الضعفاء والمتروكين : 285] نے ”متروک“ اور امام دارقطنی [تاريخ بغداد للخطيب : 48/7، و سندهٔ حسن] نے ”ضعیف الحدیث“ کہا ہے۔

◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
يتبين على رواياته ضعف، وعامة ما يرويه لا يتابع عليه
”اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔ اس کی بیان کردہ اکثر روایات منکر ہیں۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 401/1]

◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكانوا يتكلمون فيه . ”محدثین کرام اس پر جرح کرتے تھے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 318/2]

◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن الثقات المناكير ويسرق الحديث، ويحدث به
”یہ ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتا تھا اور حدیث کو چوری کر کے اسے بیان کرتا تھا۔“ [كتاب المجروحين : 180/1]

◈ ابونصر بن ما کوالا کہتے ہیں :
ضعفوه. ”محدثیں نے اسے ضعیف کہا ہے۔“ [الاكمال : 56/1]

◈ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان غير مرضي فى الرواية. ”یہ روایت حدیث میں محدثین کا ناپسندیدہ تھا۔“ [تاريخ بغداد : 47/7]
اس کے علاوہ بھی اس پر بہت سی جروح ثابت ہیں۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں صحیح بخاری میں اس کی روایت مقرون بغیرہ ہے۔

➋ عیسیٰ بن بشیر راوی کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لايدري من ذا، وأتي بخبر باطل
”معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔ اس نے ایک جھوٹی روایت بیان کی ہے۔“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 310/3]

روایت نمبر

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت ہے کہ :
من سأل لرسول الله صلى الله عليه وسلم الدرجة الوسيلة، حلت له الشفاعة يؤم القيامة، ومن زار قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان فى جوار رسول الله صلى الله عليه وسلم .
”جس نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے وسیلے کے درجے کا سوال کیا، اس کے لیے قیامت کے روز شفاعت واجب ہو جائے گی اور جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی، وہ (جنت میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہے گا۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي لابن عبد الهادي، ص : 182، وفي نسخة : 151-152]

تبصرہ :
یہ موضوع و مکذوب روایت ہے۔
اس کو گھڑنے والا راوی عبدالملک بن ہارون بن عنترہ ہے۔ یہ باتفاق محدثین ”کذاب“ اور ”متروک“ ہے۔ یہ جھوٹی حدثیں گھڑنے کا ماہر تھا۔
◈ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا من المكذوبات أيضا على على رضي الله عنه.
”یہ روایت بھی خود گھڑ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذمے تھوپی گئی ہے۔“ [الصارم المنكي : 182]

زیارت قبر نبوی کی روایات اور اہل علم کی تحقیق

یہ ساری کی ساری ”ضعیف“ احادیث ہیں جو ناقابل حجت ہیں۔ دین صحیح احادیث کا نام ہے۔ ان احادیث کے بارے میں اہل علم کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
➊ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661-728 ھ) فرماتے ہیں :
الأحاديث التى رويت فى زيارة قبره ضعيفة، بل موضوعة.
”نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے حوالے سے بیان کی جانے والی تمام روایات ضعیف بلکہ من گھڑت ہیں۔“ [الرد على البكري ;253]

➋ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (705-744ھ) کہتے ہیں :
وجميع الأحاديث التى ذكرها المعترض (أي السبكي) فى هذا الباب، وزعم : إنها بضعة عشر حديثا، ليس فيها حديث صحيح، بل كلها ضعيفه واهية، وقد بلغ الضعف ببعضها الي ان حك عليه الائمة الحفاظ بالوضع، كما أشار إليه شيخ الإسلام [ابن تيمية] .
”معترض (سبکی) نے اس بارے میں جتنی بھی روایات ذکر کی ہیں اور دعوئی کیا ہے کہ یہ دس سے زائد حدیثیں ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث صحیح نہیں، بلکہ یہ ساری کی ساری ضعیف اور کمزور ہیں، بلکہ بعض کا ضعف تو اتنا شدید ہے کہ ان پر ائمہ دین و حفاظ نے من گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے۔ اسی طرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي : 21]

➌ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرماتے ہیں :
طرق هذا الحديث كلها ضعيفة
”اس حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 267/2]

فائدہ : حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673۔ 748ھ) لکھتے ہیں :
وفي الباب الأخبار اللينة، مما يقوي بعضه بعضا، لأن ما فى رواتها متهم بالكذب.
”اس بارے میں روایات کمزور ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں، کیونکہ ان کے راویوں میں سے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام نہیں ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 213/11]

◈ اسی طرح حافظ سخاوی رحمہ اللہ (831-902ھ) فرماتے ہیں :
وكذا قال الذهبي : طرفه كلها لينة، لكن يتقوى بعضها ببعض، لأن ما فى روايتها منهم بالكذب
”اسی طرح ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی سندیں تو ساری کی ساری ضعیف ہیں، لیکن وہ ایک دوسرے سے تقویت حاصل کرتی ہیں، کیونکہ ان کی سند میں کوئی متہم بالکذب راوی موجود نہیں۔“ [المقاصد الحسنة : 647/1]

یعنی حافظ ذہبی و سخاوی کے نزدیک بھی اس حدیث کی ساری سندیں ”ضعیف“ ہیں اور اس کی کوئی ایک بھی سند حسن یا صحیح نہیں۔ البتہ وہ ان ساری ”ضعیف“ سندوں کے مل کر قابل حجت ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کی یہ بات ان کے تساہل پر مبنی ہے اور کئی اعتبار سے محل نظر ہے :
➊ اس حدیث کی کئی سندوں میں ”کذاب“ اور ”متہم بالکذب“ ”راوی موجود ہیں، جیسا کہ قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسی حدیث کی بعض سندوں کے راویوں کو ”کذاب“ اور ”متروک“ قرار دیا ہے۔
➋ کئی ”ضعیف“ سندوں کے باہم مل کر قابل حجت بننے کا نظریہ متقدمین ائمہ دین کے ہاں رائج نہیں تھا۔ یہ بعد کے ادوار میں متاخرین نے بنایا اور اپنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تساہل پسندانہ قاعدے کے نفاذ میں متاخرین بھی اختلاف کا شکار ہیں۔ اسی حدیث کا معاملہ دیکھ لیں کہ ”ضعیف ضعیف =قابل حجت“ کے قاعدے کو تسلیم کرنے والے اہل علم ہی اس کے حکم میں مختلف ہیں، بعض اسے ”ضعیف“ بلکہ من گھڑت قرار دیتے ہیں تو ”بعض اسے قابل حجت بتا رہے ہیں۔

الحاصل : قبر نبوی کی زیارت کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں بیان کی جانے والی تمام روایات ”ضعیف“ اور ناقابل حجت ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ پائی۔ دین صحیح سند کے ساتھ ہم تک پہنچنے والی احادیث کا نام ہے۔ حدیث کے ”ضعیف“ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو، وہ کسی مسلمان کا دین ہرگز نہیں بن سکتی۔

 

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply