زکوٰۃ کے انفرادی اور اجتماعی فوائد

 تحریر:الشیخ الفقیہ ابن العثیمین رحمہ اللہ

اسلام کاتیسرا بنیادی رکن زکوٰۃ ہے ۔ صحیح طریقے سے مستحقین تک زکوٰۃ پہنچانے والے کو درج ذیل انفرادی و اجتماعی  حکمتیں اور فائدے حاصل ہوتے ہیں:

۱:  بندے کے اسلام کا اتمام و اکمال ؛ کیونکہ یہ (زکوٰۃ) ارکانِ اسلام میں سے ہے ، لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ہر مسلمان کا عظیم مقصد ہے ، پس ہر مسلمان شخص اپنے دین کے اکمال کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔
۲: یہ زکوٰۃ دینے والے کے صدق و ایمان کی دلیل ہے ، اس لئے کہ مال دلوں کو بہت پیارا ہوتا ہے اور پیاری و محبوب چیز صرف اسی صورت میں خرچ کی جاتی ہے جب اس جتنی یا اس سے زیادہ محبوب چیز کا حصول مقصود ہو بلکہ اس سے محبوب تر چیز کے حصول پر اس پسندیدہ چیز کو خرچ کیا جاتا ہے ، اسی لئے اس (زکوٰۃ) کو صدقہ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے ، کیونکہ یہ (صدقہ) زکوٰۃ ادا کرنے والے کی اللہ ﷻ کی رضا کی سچی طلب پر دلالت کرتا ہے ۔
۳: یہ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے اخلاق سنوارتی ہے ،یہ اس کو بخیلوں کے زمرے سے نکال کر سخیوں کے زمرے میں داخل کرتی ہے ، کیونکہ جب وہ اپنے نفس کو خرچ کرنے کا عاد ی بنا لیتا ہے ،خواہ علم کا خرچ کرنا ہو یا مال کا صرف کرنا ہو یا جاہ کی قربانی اور یہ خرچ کرنا اس کی عادت اور طبیعت ومزاج بن جاتا ہے حتیٰ کہ جس روز وہ اپنے معمول کے مطابق کچھ خرچ نہیں کرتا تو وہ رنجیدہ اور پریشان ہوجاتاہے ، جیسے وہ شکاری جو ہر روز شکار کرتاہے اگر کسی روز وہ شکار سے پیچھے رہ جائے تو وہ رنجیدۂ خاطر ہوجاتا ہے اور اسی طرح جس شخص نے اپنے نفس کو سخاوت کا عادی بنالیا ہو تو اگر کسی روز اپنے مال یا جاہ یا منفعت سے خرچ نہ کرسکے تو وہ کبیدۂ خاطر ہوجاتا ہے ۔
۴: زکوٰۃ دل کو مطمئن کرتی ہے ، پس انسان جب کوئی چیز خرچ کرتا ہے ، خاص طور پر مال تو وہ اپنے دل میں اطمینان پاتا ہے اور یہ چیز مجرب ہے ، لیکن شرط یہ ہےکہ وہ خرچ کرنا سخاوت اور خوش دلی کے جذبے سے ہو، اس طرح نہ ہوکہ مال تو خرچ کردیا لیکن اس کو دل سے نہیں نکالا، حافظ ابن قیمؒ نے “زادالمعاد” میں ذکر کیا ہے کہ خرچ و سخاوت اشراح صدر اور اطمینان قلب کا سبب ہے  ،لیکن اس سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتا ہے جو سخاوت اور خوش دلی کے جذبے سے خرچ کرتا ہے اور وہ اپنا مال اپنے ہاتھ سے دینے سے پہلے اس کو اپنے دل سے نکالتا اوراداکرتاہے ، رہا وہ شخص جو اپنے ہاتھ سے تو مال ادا کرتا ہے لیکن اس کو دل میں جگہ دیئے رکھتا ہے تو وہ اس خرچ کرنے سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔
۵: یہ انسان کو مومن کامل کے ساتھ ملاتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ))
تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ جو چیز اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے وہی چیز اپنے بھائی کے لئے پسند کرے ۔ (بخاری: ۱۳ و مسلم : ۴۵)
۶:        یہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے کیونکہ جنت اس شخص کے لئے ہے جس نے عمدہ گفتگو کی ، سلام پھیلایا (کثرت سے سلام کیا) ، کھانا کھایا اورنمازِ تہجد پڑھی جبکہ دیگر لوگ محوِخواب تھے۔ (المستدرک ۳۲۱/۱ ح ۱۲۰۰ نحو المعنیٰ مختصراً و سندہ حسن و للحدیث شواہد)
ہم سب جنت میں جانے کے لئے کوشاں ہیں۔
۷:       زکوٰۃ اسلامی معاشرے کو ایک خاندان کی طرح بنادیتی ہے ، اس میں صاحبِ قدرت ناتواں شخص کی اورمالدار شخص تنگ دست کی مدد کرتا ہے  ، پس انسان یہ سمجھنے اور محسوس  کرنے لگ جاتا ہے کہ اسکے بھائی ہیں اس پر واجب ہے کہ وہ ان کےساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے ، ان پر احسان کرے  جس طرح اللہ ﷻ نے اس پر احسان فرمایا ہے ، اللہﷻ نے فرمایا :﴿وَاَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ﴾ اور جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (اس کے بندوں پر) احسان کر۔ (القصص: ۷۷)
پس اس طرح امتِ اسلامیہ ایک خاندان کی طرح ہوجاتی ہے اور متاخرین کے ہاں یہ اجتماعی کفالت کے نام سے معروف ہے اور اس کے لئے زکوٰۃ ہی بہتر ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعے سے فریضہ ادا کرتا ہے اور اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
۸: یہ فقراء کی بغاوت کی حرارت کو ختم کرتی ہے کیونکہ فقیر شخص جب یہ دیکھتا ہے کہ یہ (مالدار) شخص اپنی مرضی کی سواری (پرتعیش گاڑی) پر سواری کرتا ہے ، اپنی من پسند کوٹھی اور بنگلے میں رہتا ہے اور اپنی چاہت کے انواع و اقسام کے کھانے کھاتاہے ، جبکہ وہ (فقیر شخص) پیدل چلتا ہے اور آسمان کی چھت تلے راستوں (Foot Path) پر سوتاہے اور اس طرح کی دیگر سہولتوں سے محرومی، کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اپنے دل میں بغاوت کے کچھ جذبات رکھتا ہے ۔ پس جب مالدار حضرات فقراء پر مال خرچ کرتے ہیں تو وہ ان کی بغاوت (کے تعمیر ہونے والے قلعے ) کو توڑ دیتے  ہیں اور ان کے غیض و غضب (کی آگ) کو ٹھنڈا کردیتے ہیں، اور وہ (فقراء) کہتے ہیں ہمارے کچھ بھائی ہیں جو تنگ دستی میں ہمیں یاد رکھتے ہیں پس اس طرح وہ مالدار حضرات سے الفت رکھتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔
۹  یہ مالی جرائم جیسے چوریاں، ڈاکے اور اغواء کو روکتی ہے اور اس طرح کے دیگر جرائم ، کیونکہ فقراء کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے ، چونکہ مالدار حضرات اپنے مالوں میں سے انہیں دیتے  رہتےہیں اس لئے وہ (فقراء) ان سے الجھاؤ پیدا نہیں کرتے ۔ وہ سونے ،چاندی اور سامانِ تجارت میں سے چالیسواں حصہ (اڑھائی فیصد) زرعی پیداوار اور باغات کے پھلوں پر دسواں یا بیسواں حصہ ، اور مویشیوں میں سے ایک بہت بڑی نسبت سے مویشی ان کو دیتے ہیں، پس وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان پر احسان کرتے ہیں اور ان پر زیادتی نہیں کرتے۔
۱۰:  روزِ قیامت کی گرمی سے نجات۔
          نبی ﷺ نے فرمایا : ہر شخص روزِ قیامت اپنے صدقے کے سائے تلے ہوگا۔ (مسند احمد ۱۴۸/۴ ح ۱۷۳۳۳ و سندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ : ۲۴۳۱ و ابن حبان : ۳۳۱۰و الحاکم ۴۱۶/۱ و وافقہ الذہبی)
اور جس روز اللہ ﷻ کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا تو جن خوش نصیبوں کو اللہﷻ اپنے سائے تلے جگہ نصیب فرمائے گا ، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
((رجل تصدق بصدقۃ فأخفاھا حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ))
ایک وہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کواتنا مخفی رکھا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔ (بخاری: ۱۴۲۳، و مسلم : ۱۰۳۱)
۱۱:  یہ انسان کی اللہ ﷻ کی حدود اور اس کے ضابطوں کی معرفت حاصل کرنے میں معاونت کرتی ہے کیونکہ وہ زکوٰۃ کے احکام، اس کے اموا ل و انصاب اور اس کے مستحقین اور ان کے علاوہ دیگر ضروری چیزوں کی معرفت حاصل کرنے کے بعد ہی زکوٰۃ ادا کرے گا۔
۱۲:  و ہ حسی اور معنوی لحاظ سے مال کو بڑھاتا ہے ، پس جب انسان اپنے مال میں سے صدقہ کرتا ہے تو یہ اس کو آفتوں سے بچاتاہے ، اور بسا اوقات اللہ ﷻ اس صدقے کی وجہ سے اس شخص کے لئے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے اور اس کارزق بڑھا دیتاہے اس لئے حدیث میں آیا ہے : ((ما نقصت صدقۃ من مال))
          صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔      (مسلم : ۲۵۸۸/۶۹ ]۶۵۹۲[)
یہ چیز مشاہدے میں آچکی ہے کہ بخیل شخص کے مال پر بسا اوقات ایسی چیز مسلط کر دی جاتی ہے جو اس کو ختم کردیتی ہے یا اس کازیادہ ترمال جل کر خاکستر ہوجاتاہے ، یا اسے بہت زیادہ خسارہ ہوجاتا ہے اور اس پر امراض حملہ کردیتے ہیں اور وہ علاج کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا بہت سا مال اس سے چلا جاتاہے ۔
۱۳: یہ نزول خیر وبرکات کا ذریعہ ہے ، حدیث میں آیا ہے :
          ((ما منع قوم زکاۃ أموالھم إلا منعوا القطر من السماء))
          جو لوگ اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتے تو وہ بارش سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔ (المستدرک ۵۴۰/۴ ح ۸۶۲۳ نحو المعنیٰ ، اتحاف المھرۃ ۵۹۰/۸ ح ۱۰۰۱۵ و سندہ صحیح و صححہ الحاکم و وافقہ الذہبی)
۱۴:      جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ :   ((إن الصدقۃ تطفيء غضب الرب))
          یقیناً صدقہ رب تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔        (یہ روایت ثابت نہیں ہے)
(سنن الترمذی: ۶۶۴ نحو المعنیٰ و سندہ ضعیف و مع ذلک صححہ الألبانی بشواھد ہ الضعیفۃ و المردودۃ!)
۱۵:      زکوٰۃ بری موت سے بچاتی ہے۔
۱۶:       یہ آسمان سے اترنے والی بلاؤں سے ٹکراتی ہے اور انہیں زمین پر پہنچنے نہیں دیتی۔
۱۷:      یہ خطاؤں کو ختم کردیتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
          ((الصدقۃ تطفيء، الخطیئۃ کما یطفيء الماء النار))
          صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔ (سنن الترمذی: ۶۱۴ وسندہ حسن وقال الترمذی: “حسن غریب”)

اس تحریر کو اب تک 77 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply