رمضان کے احکام و مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں

تحریر :حافظ ندیم ظہیر

الحمد لله رب العالمين و الصلوة والسلام على رسول الامين، اما بعد :
❀ رمضان، رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے۔ جونہی اس ماہ کا آغاز ہوتا ہے فتحت ابواب الجنة ”جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں“ اور غلقت ابواب جهنم ’’ دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں“ اور سلسلت الشياطين (سرکش) ”شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔“ [بخاري : 1898، 1899]
❀ اور جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ [بخاري : 1901]
❀ روزہ دار ہی وہ خوش قسمت ہے جس کے لئے جنت کے آٹھ دروازوں سے الريان نامی دروازہ مخصوص ہے۔ [بخاري : 1896]
❀ اس کے برعکس ایسے آدمی کی ناک خاک آلودہ قرار دی گئی جس نے (اپنی زندگی میں) رمضان کا مہینہ پایا لیکن بخشش سے محروم رہا۔ [سنن ترمذي : 3545و إسناده حسن]
↰ بڑے ہی نصیب والا ہے وہ شخص جو ”ماہ رمضان“ کی تمام تر فضیلتیں کماحقہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ اللهم اجعلنا منه
احکام :
چاند دیکھ کر روزہ رکھنا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر روزہ افطار کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی میں تیس دن پورے کر لو۔“ [بخاري : 1909، مسلم : 1081]

روزے کی نیت :
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے لیکن نیت دل کے قصد وارادے کا نام ہے نہ کہ زبان سے خود ساختہ الفاظ کا ادا کرنا جیسا کہ وبصوم غد نويت من شهر رمضان عوام میں مشہور ہے۔ حالانکہ یہ بے اصل ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

سحری کے مسائل :
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا کھانا فرق (کرتا) ہے۔ [مسلم : 2096]
❀ مزید ارشاد فرمایا : سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ [بخاري : 1923، مسلم : 1095]

سحری کب تک کھا سکتے ہیں ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو ( تو اذان کی وجہ سے) اسے رکھ نہ دے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔“ [ ابوداؤد : 2350و إسناده حسن]
◈ مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ سحری کے وقت کے تعین میں لکھتے ہیں :
”جب کوئی شخص اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ یہ اذان فجر ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ کھانے پینے سے رک جائے۔ اگر موذن طلوع فجر سے قبل اذان دے رہا ہو تو پھر رک جانا واجب نہیں بلکہ کھانا پینا جائز ہے۔“ [فتاوي اسلاميه2؍173 طبع دارالسلام]
↰ مذکورہ بالا حدیث نبوی کا تعلق ایسے حضرات کے لئے ہے جو دیر سے بیدار ہوں جب کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ ان متساہلین کے لئے ہے جو پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود اذان ختم ہونے تک کھاتے رہتے ہیں۔ والله اعلم بالصواب

حالت جنابت میں سحری کرنا :
حالت جنابت میں سحری کھا کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئے : [صحيح مسلم : 1109؍80]

تقاضائے روزہ :
روزے کا تقاضا ہے کہ جھوٹ، بہتان، چغلی، غیبت، لڑائی، جھگڑے سے بچا جائے اور تقویٰ کو اپنایا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ”کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنہیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔“ [دارمي : 2722، إسناده ؍طبع دارالمعرفه]
↰ یعنی جو مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا نیز :
❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ [بخاری : 1903]

جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا :
مباحات روزہ، غسل کرنا، مسواک کرنا، بھول کر کھانا یا پینا، سینگی لگوانا، سرمہ لگانا، کنگھی کرنا اور تیل لگانا وغیرہ، دیکھئے : [صحیح بخاری کتاب الصوم]

روزہ جلدی افطار کرنا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہمیشہ وہ لوگ بھلائی میں رہیں گے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔“ [بخاري : 1957، مسلم : 1098]
↰ معلوم ہوا کہ وہ لوگ خطا پر ہیں جو قصدا روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں اور اسے احتیاط کا نام دیتے ہیں۔

افطاری کی دعا :
ذهب الظما ء وابتلت العروق وثبت الاجر ان شا ءالله [ ابوداؤد : 12357سناده حسن]
↰ اس کے علاوہ جو دعا عوام میں مشہور ہے وہ سنداً صحیح نہیں ہے۔

قیام اللیل (تراویح ) :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرتا ہے اس کے گزشتہ [صغیرہ] گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ [بخاري : 37]
↰ قیام اللیل، تہجد، تراویح ایک ہی نماز کے نام ہیں لیکن عموما رمضان کی رات کو کیا جانے والا قیام تراویح کے نام سے معروف ہے اور اس کی تعداد گیارہ رکعات ( [3 8] 1، 2 2 2 2 2) ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے۔ آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ [مسلم : 736]
❀ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں کہ : رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ [بخاري : 2013]
❀ ایسے ہی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [موطا امام مالك1؍114ح229، السنن الكبري للبيهقي1؍293 وقال النيموي الحنفي ”اسناده صحيح“ ] [آثار السنن ص350]
↰ معلوم ہوا کہ تراویح کی تعداد گیارہ رکعات [3 8] ہی ہے۔ اور واضح رہے کہ پورا ماہ رمضان امام کے ساتھ نماز تراویح ادا کرنا مسنون اور افضل ہے دیکھئے سنن ترمذی [806] جو حضرات اسے بدعت کہتے ہیں ان کا قول بے دلیل و مردود ہے۔

غیر اہل حدیث اور آٹھ تراویح :
غیر اہل حدیث کے اکابرین نے بھی آٹھ رکعات تراویح کو تسلیم کیا ہے۔
◈ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں :
”اور سنت موکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات تو بالا تفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [براهين قاطعه ص 95]
◈ عبدالشکور لکھنوی دیوبندی :
عبدالشکور لکھنوی دیوبندی نے اپنی کتاب علم الفقہ [ص198] میں آٹھ رکعات ہی کو مسنون قرار دیا ہے۔

روزہ اور اعتکاف کے اجماعی مسائل :
◈ اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔
◈ اجماع ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے۔
◈ اجماع ہے کہ روزہ دار کو بے اختیار قے آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
◈ اجماع ہے کہ جو روزہ دار قصدا قے کرے اس کا روزہ باطل ہے۔
◈ اجماع ہے کہ روزہ دار (اپنی) رال اور (اپنا) تھوک نگل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
◈ اجماع ہے کہ عورت کو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں اور درمیان میں ایام شروع ہو جائیں تو پاکی کے بعد پچھلے روزہ پر بنا کرے گی۔
◈ اجماع ہے کہ ادھیڑ عمر، بوڑھے جو روزہ کی استطاعت نہیں رکھتے روزہ نہیں رکھیں گے (بلکہ فدیہ ادا کریں گے)۔
◈ اجماع ہے کہ اعتکاف لوگوں پر فرض نہیں، ہاں اگر کوئی اپنے اوپر لازم کر لے تو اس پر واجب ہے۔
◈ اجماع ہے کہ اعتکاف مسجد حرام، مسجد رسول، اور بیت المقدس میں جائز ہے۔ [1]
◈ اجماع ہے کہ معتکف اعتکاف گاہ سے پیشاب، پاخانہ کے لئے باہر جا سکتا ہے۔
◈ اجماع ہے کہ معتکف کے لئے مباشرت (بیوی سے بوس و کنار) ممنوع ہے۔
◈ اجماع ہے کہ معتکف نے اپنی بیوی سے عمداً حقیقی مجامعت کر لی تو اس نے اعتکاف فاسد کر دیا۔ [الاجماع لابن المنذر ص 47، 48]
وما علينا الا البلاغ
——————
[1] ان تینوں مساجد میں بالاتفاق اعتکاف جائز ہے ان کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف اگرچہ اختلافی مسئلہ ہے لیکن راجح یہی ہے کہ تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے۔

یہ تحریر اب تک 4 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply