رمضان کےروزوں کی قضا

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

سوال: کیا رمضان میں کسی عذر کی بنا پر چھوڑے گئے روزوں کی قضائی رمضان کے فوراً بعد دینا ضروری ہے؟

جواب: رمضان کے چھوڑے گئے روزوں کی قضائی پے در پے مستحب تو ہے ، ضرور ی نہیں ، کیونکہ:
➊ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾ [البقرة: ۱۸۵]
”دوسرے دونوں کی گنتی ہے۔ “
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں:
كان يكون عليّ الصوم من رمضان فما أستطيع أن أقضيه إلّا فى شعبان. ”مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضائی ہوتی ، میں انہیں شعبان سے پہلے نہ رکھ سکتی تھی۔“
[صحيح بخاري: ۱۹۵۰، صحيح مسلم: ۱۱۴۶]
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کی قضاء کو مطلق طور پر مؤخر کرنا جائز ہے ، خواہ عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے ۔“ [فتح الباري: ۱۹۱/۴]
➌ سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
لا يضرّك كيف قضيتها، إنّما هي عدّة من أيام أخر.
”تجھے کوئی نقصان نہیں، جیسے جی چاہے قضائی دے، صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا ضروری) ہے ۔“
[تغليق التعليق لابن حجر: ۱۸۶/۳، وسندة صحيح]
➍ امام عطاء بن أبی رباحؒ کہتے ہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ، دونوں نے فرمایا: فرقه إذا أحصيته. ”جب تو گنتی رکھے، تو وقفے میں کوئی حرج نہیں۔ “ [سنن دار قطني: ۱۹۳/۲، وسنده حسن]
➎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: يو اترهٗ إن شاءَ.
”چاہے ، تو پے در پے رکھ لے ۔ “ [مصنف ابن ابي شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]
➏ بکر بن عبداللہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنهٗ كان لا يرى بهٖ بأسا، ويقول؛ إنّما قال اللّٰه فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ.
”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقفے یا تأخیر میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف دوسرے دنوں کی گنتی کا ذکر فرمایا ہے ۔“ [ السنن الكبريٰ للبيهقي: ۲۵۸/۴ و سنده صحيح]
۷… أبو عامر الہوزنی کہتے ہیں:
سمعت أبا عبيدة بن الجراح رضي اللہ عنه سئل عن قضاء رمضان فقال؛ إن اللہ لم يرخص لكم فى فطره و هو يريد أن يشق عليكم فى قضائه، فأحص العدة واصنع ماشئت.
”میں نے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا، آپ سے رمضان کی قضاء کے بارے پوچھا گیا ، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے روزہ چھوڑنے کی رخصت اس لئے نہیں دی کہ قضاء میں تم پر مشقت ڈال دے ، آپ گنتی شمار کریں اور جو چاہیں کرلیں۔ “ [السنن الكبري للبيهقي: ۲۵۸/۴ ، سنن دارقطني: ۱۹۱/۲، وسنده حسن]
➑ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:
فرق قضاء رمضان، وأحص العدة.
”رمضان کی قضاء کو وقفے سے پورا کرلو، لیکن گنتی شمار کرو۔ “
[سنن دار قطني: ۱۹۲/۲، وسنده حسن]
➒ امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ وقفے سے قضاء رمضان میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے ۔
[ابن ابي شيبه: ۳۳/۳ و سنده صحيح]
➓ جعفر بن میمون کہتے ہیں:
قضاء رمضان عدة من أيام أخر.“
”قضاء رمضان میں صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا) ضروری ہے۔ “ [ابن ابي شيبه: ۳۳/۳، و سنده صحيح]
فوری قضائی کے قائلین کے دلائل:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قضائے رمضان کے بارے میں فرماتے ہیں:
يتابع بينه.” اس میں پے در پے روزہ رکھا جائے گا ۔ “ [مصنف ابن أبى شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]
عروہؒ فرماتے ہیں:
يواتر قضاءرمضان.
” رمضان کے روزوں کی قضاء لگاتار دے گا ۔ “
[مصنف ابن ابي شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]
سعید بن مسیب فرماتے ہیں:
يقضيه كهيأته.
” جس طرح چھوڑے تھے، اسی طرح قضائی دے گا۔ “
[مصنف ابن ابي شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]
محمد بن سیرین کہتے ہیں:
أحب إلي أن يصومه كما أفطره.
” مجھے محبوب یہی ہے کہ جس طرح روزے چھوڑے تھے ، اسی طرح قضائی دے ۔ “
[ابن أبى شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]

حکم بن عتیبہ کہتے ہیں:
” لگاتار قضائی دینا مجھے پسند ہے ۔ “
[ابن ابي شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]
قاسم بن محمد کہتے ہیں:
صمه متتابعا، إلا أن يقطع بك كما قطع بك فيه.
” لگاتار روزے رکھ ، الا یہ کہ (قضائی میں بھی) وہی عارضہ پیش آجائے ، جو پہلے پیش آیا تھا۔ “
[ابن ابي شيبه: ۳۴/۳، وسنده صحيح]
ان سب اقوال کو استحباب پر محمول کیا جائے گا ، جیساکہ :
امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
يقضيه متتابعاً أحبّ إليّ و إن فرق أجزأهٗ.
” رمضان کی قضائی لگاتار ہو، تو مجھے محبوب ہے ، اگر وقفہ آجائے ، تو کفایت کرجائے گی ۔ “
[ مصنف ابن أبى شيبه: ۳۵/۳ ، وسنده صحيح]
روزوں کی قضائی پے در پے مستحب ہے ، ضروری نہیں ، جو لوگ لگاتار قضائی کو ضروری قرا ر دیتے ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے ، نہ سلف صالحین میں سے ان کا کوئی حامی ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔

This Post Has 9 Comments

  1. Babar

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    آپ سے رابطہ کیسے ممکن ہے۔ یونی کوڈ مضامین شائع کرنے کے متعلق ہمارے پاس کچھ تجاویز ہیں۔

  2. عثمان احمد

    وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ، براہ مہربانی رابطہ فارم کے زریعے ہم تک اپنی تجاویز پہنچائیں۔ شکریہ

  3. zaeem

    salam alaikum bhai
    dar asal aik hadeeth main ne aik article main parhi jis ko aksar barlwi hazaraat tawassal k hawaalay se paish karte hain, agar is hadeeth ki takhreej aur tahqeeq mil jai tu please mujhe email par jawab de di jae ga, In sha Allaah.

    “aan hazrat salAllaah alayhe wa sallam jab foat hogai tu unhein sahaabi (shaahid uthmaan bin haneef) k pas aik shakhs aya usay kisi cheeze ki haajat thi tu unhon ne usay aap salAllaahu alayhe wa sallam k waseelay se dua karne ki darkhuwast ki.

    (al-mu’jam al-kabeer lit-tabraani)

    jazakAllaahu khayran

    1. عثمان احمد

      محترم زعیم بھائی، اس روایت کا متن اور تخریج پیش خدمت ہے:

      حضرت علیؓ بن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہؓ بنت اسد کے وصال پر حضورؐ سیدعالمؐ نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ، حضرت ابوایوب انصاریؓ اور ایک سیاہ فام غلام کو قبر کھودنے کا حکم دیا۔ جب لحد تک پہنچے تو حضور انورؐ نے بنفس نفیس لحد کھودی اور اپنے ہاتھوں سے مٹی نکالی، جب فارغ ہوئے تو اس قبر میں لیٹ گئے پھر یہ دعا مانگی … ”اللہ تعالیٰ زندگی اور موت دیتا ہے، وہ زندہ ہے، اس کے لئے موت نہیں، میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے ، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے طفیل اس کی قبر کو وسیع فرما، بے شک تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے

      مذکورہ روایت المعجم الکبیر (۸۷۱) اور المعجم الاوسط (۱۹۱) وغیرہ میں موجود ہے، لیکن یہ روایت کئی وجوہات کی بنا پر قابل استدلال نہیں۔مثلاً

      1. اس کی سند میں روح بن صلاح راوی متکلم فیہ ہے جسے دارقطنی اور ابن عدی وغیرہ جیسے کبار محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، اگرچہ حاکم اور ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے لیکن حاکم اور ابن حبان کا جرح و تعدیل میں متساہل ہونا معروف ہے۔ دیکھئے فتح المغیث (۳؍۳۵۹) لسان المیزان (۱؍۱۴) اس لئے یہ راوی ضعیف ہے۔

      2. علاہ ازیں تعدیل کے مقابلے میں جرحِ مفسر موجود ہے،اور اُصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جرح مفسر کو تعدیل پر ترجیح دی جائے گی۔

      3. اس کے علاوہ سفیان ثوری مدلس راوی کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں۔

      4. نیز روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ اس لئے محدثین کے ہاں ایسی روایت قابل استدلال نہیں ہوتی۔ خود امام طبرانی ؒنے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ”اس روایت کو عاصم احول سے صرف سفیان ثوری نے روایت کیا ہے اور روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں متفرد ہے۔” (المعجم الاوسط: ۱؍۱۵۳)

      5. سفیان ثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے جبکہ صلاح بن روح ۲۳۳ھ میں فوت ہوے اور ان دونوں راویوں کے درمیان تقریباً چوہتر (۷۴) سال کا وقفہ ،ہے علاوہ ازیں صلاح بن روح کے تعلّم حدیث کی پندرہ یا بیس سال کی عمر بھی ان میں داخل کریں تو یہ وقفہ ایک صدی کے قریب پہنچ جاتا ہے، اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ روح بن صلاح کا سفیان ثوری سے سماع ثابت نہیں۔ اس کی مزید تقویت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن حبان اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”روح بن صلاح مصری اپنے ہم وطن لوگوں سے ہی روایت کرتا ہے۔”(کتاب الثقات :۸؍۲۴۴) جبکہ سفیان ثوری کوفی ہیں۔ لہٰذا روح بن صلاح کا کوفہ جانا ثابت نہیں، اسی لئے امام مزی نے اسے سفیان ثوری کے شاگردوں میں شامل نہیں کیا۔ لہٰذا یہ روایت مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔

      یہ روایت دیگر اسناد سے بھی مروی ہے لیکن ان میں سے کوئی سند بھی صحیح ثابت نہیں مثلاً مجمع الزوائد (۹؍۲۵۷) کی سند میں سعدان بن ولید سابری مجہول راوی ہے۔ تاریخ مدینہ (۱؍۱۲۴) کی سند میں قاسم بن محمد ہاشمی ضعیف (متروک) راوی ہے۔ اس کے علاوہ اسناد مرسل، منقطع اور معضل ہیں۔ لہٰذا ایسی کسی روایت کو بطور پیش کرنا کسی محقق عالم کو زیب نہیں دیتا۔

      7. سواد بن قارب فرماتے ہیں کہ ”طیب و مکرم حضرات کے فرزند! آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام رسولوں سے زیادہ قریب وسیلہ ہیں۔ آپ اس دن میرے شفیع ہوں گے جس دن کوئی شفاعت کرنے والا سواد بن قارب کو کچھ بھی بے نیاز نہیں کرسکے گا۔” (ایضاً ص:۴۵)

  4. Zaeem

    muhtarm bhai,

    jazakAllaahu khayran aap k jawaab ka…

    aur roman main likhne ki wajah se jo pharne main dikkat ho rahe hai us par main ma’zart khuwa hon..

    magar is riwayt mai ‘huzoor anwar’ aur ‘sayyid-e-aalim’ se kon muraad hai, kya is se muraad nabi akram salAllaahu alayhe wasallam hain ya sayyadana Ali radhiAllaahu anhu hain? agar is unsar ko bhi aap bata dein tu samajhne main aasaani hogi.

    Allaah aap ko jaza-e-khayr ataa farmae, aameen.

  5. Zaeem

    q k us article main ye do ahadeeth mentioned thein jis main shaahid ooper waali thi sahee ya hasan darja ki hai:

    حضرت عثمان بن حنیفؓ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور بینائی لوٹانے کیلئے درخواست کی تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا کہ دو رکعت نماز نفل ادا کرو اور اس طرح دعا کرو کہ ’’باری تعالیٰ! اپنے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے وسیلہ سے مجھے بینا کردے‘‘(تو اسکی بینائی لوٹ آئی)۔(رواہ ترمذی)

    آنحضرت ﷺ جب فوت ہو گئے تو انہیں صحابیؓ کے پاس ایک شخص آیا اسے کسی چیز کی حاجت تھی تو انھوں اسے آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنے کی درخواست کی۔(المعجم الکبیر للطبرانی)

    1. عثمان احمد

      درج بال روایت میں انحضور سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔۔۔۔۔

      اور نابیا شخص والی روایت میں ترمذی کا حوالہ درست نہیں۔۔۔ اس کا مکمل عربی متن یہ ہے:

      حدثنا طاهر بن عيسى بن قيرس المقري المصري التميمي ، حدثنا أصبغ بن الفرج ، حدثنا عبد الله بن وهب ، عن شبيب بن سعيد المكي ، عن روح بن القاسم ، عن أبي جعفر الخطمي المدني ، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف ، عن عمه عثمان بن حنيف ” أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في حاجة له , فكان عثمان لا يلتفت إليه , ولا ينظر في حاجته , فلقي عثمان بن حنيف , فشكا ذلك إليه , فقال له عثمان بن حنيف : ائت الميضأة فتوضأ , ثم ائت المسجد فصل فيه ركعتين , ثم قل : اللهم , إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه وآله وسلم نبي الرحمة يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك عز وجل فيقضي لي حاجتي , وتذكر حاجتك , ورح إلي حتى أروح معك , فانطلق الرجل , فصنع ما قال له عثمان , ثم أتى باب عثمان , فجاء البواب حتى أخذ بيده , فأدخله على عثمان بن عفان , فأجلسه معه على الطنفسة , وقال : حاجتك ؟ فذكر حاجته , فقضاها له , ثم قال له : ما ذكرت حاجتك حتى كانت هذه الساعة , وقال : ما كانت لك من حاجة , فأتنا , ثم إن الرجل خرج من عنده , فلقي عثمان بن حنيف , فقال : له جزاك الله خيرا , ما كان ينظر في حاجتي , ولا يلتفت إلي حتى كلمته في , فقال عثمان بن حنيف : والله , ما كلمته ولكن شهدت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأتاه ضرير , فشكا عليه ذهاب بصره , فقال : له النبي صلى الله عليه وآله وسلم : ” أفتصبر ؟ ” , فقال : يا رسول الله , إنه ليس لي قائد , وقد شق علي , فقال له النبي صلى الله عليه وآله وسلم : ” ائت الميضأة , فتوضأ , ثم صل ركعتين , ثم ادع بهذه الدعوات ” قال عثمان بن حنيف : فوالله , ما تفرقنا وطال بنا الحديث حتى دخل علينا الرجل كأنه لم يكن به ضرر قط ” لم يروه عن روح بن القاسم إلا شبيب بن سعيد أبو سعيد المكي وهو ثقة وهو الذي يحدث عن أحمد بن شبيب , عن أبيه , عن يونس بن يزيد الأبلي , وقد روى هذا الحديث شعبة عن أبي جعفر الخطمي واسمه عمير بن يزيد , وهو ثقة تفرد به عثمان بن عمر بن فارس عن شعبة ، والحديث صحيح وروى هذا الحديث عون بن عمارة , عن روح بن القاسم , عن محمد بن المنكدر , عن جابر رضي الله عنه وهم فيه عون بن عمارة والصواب : حديث شبيب بن سعيد *

      یہ روایت بطریق ابن وہب از شبیب بن سعید کتاب الدعاء للطبرانی 1/320 , المعجم الکبیر للطبرانی 9/31 , العدۃ للکرب والشدۃ للمقدسی, معرفۃ الصحابہ لأبی نعیم ح 4505 , 4946 میں مذکور ہے ۔
      اور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ شبیب بن سعید کی مرویات جنہیں عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا ہے منکر یعنی ضعیف ہیں ۔
      اسی طرح یہی روایت بطریق العباس بن الفرج از اسماعیل بن شبیب از شبیب از روح بن القاسم از ابو جعفر المدینی , دلائل النبوۃ للبیہقی ح 2417 , 2425 , الترغیب فی الدعاء لعبد الغنی المقدسی ح 61 , میں مذکور ہے ۔
      اس سند کے مرکزی راوی عباس بن الفرج کے بارہ میں ابو داود السجستانی کہتے ہیں کہ لیس بشیء اور ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے , أحمد بن شیعب النسائی فرماتے ہیں متروک الحدیث ہے , اسی طرح امام بخاری اور امام مسلم نے بھی اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے ۔
      لہذا یہ روایت پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔

      جہاں تک آپ کی پیش کردہ طبرانی والی روایت کا تعلق ہے تو اس متن کی کوئی روایت طبرانی میں میرے علم میں نہیں، آپ بریلویوں سے کہیں کہ اس روایت کی سند پیش کریں، یا تو یہ بغیر سند والی ایک من گھڑت روایت ہے یا پھر اس کا حوالہ درست نہیں۔

  6. Zaeem

    jazakAllaahu khayran bhai,

    ma sha Allaah ye daikh kar buhut dili khushi huwi k fitno aur maal aur tarha tarha k deegar fitno k is dor main bhi aise pur khuloos log moujood hain jo apne deen ki istarha khidmat par lagei howe hain.

    Allaah hamary shaykh haafidh zubair ali zay aur shaykh albaani rahimahumaAllaah ko jazay khayr de k dono ne apne apne tor par deen ki khidmat ki aur hadeeth aur isnaad k fan par buhut umda qaam kya , ameen.

    barakAllaahu feek bhai, aam tor par log samajte hain k tirmidhi waali ye riwayt sahee ya hasan darja ki hai, laikin aap ki is tahqeeq se buhut rehnumai mili.

  7. عثمان احمد

    جزاک اللہ خیرا و بارک فیک

Leave a Reply