رفع یدین پر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اورحدیث صلوۃ التسبیح پر ایک نظر

تحریر: فضل اکبر کاشمیری

مسعود احمد بی ایس سی تکفیری ، بانی جماعت المسلمین رجسٹرڈ کراچی کی طرح ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا تعلق بھی ایسے لوگوں سے تھا جو خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مفکرات وسیات میں سے عذاب قبر کا انکار اور سلف صالحین کی گستاخیاں فہرست ہیں۔ امام اہل سنت و الجماعت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کافر کہتے تھے۔ اسی سلسلہ میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے موصوف سے ”مناظرہ“ کیا لیکن مسعود صاحب جب کوئی جواب نہ دے سکے تو راہ فرار ہی میں عافیت سمجھی‘‘ فرقہ مسعودیہ: ۲ ہی کے کچھ اوہام و فریب واضح کرنے کے لئے محترم فضل اکبر کاشمیری نے قلم اٹھایا ہے جو پیش خدمت ہے۔ [ابو ثاقب محمد صفدر حضروی]
حُبّ ابن مسعود رضی اللہ عنہ یا تقلید ڈاکٹر مسعود؟
بحیثیت مومن و مسلم حق پرستی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر قرآن و سنت کا مطالعہ کرے پہلے سے کوئی نظریہ قائم نہ کرے، پھر قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں جو حق واضح ہو جائے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ لیکن گمراہ فرقوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ پہلے خود ساختہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں، اپنا ایک خود ساختہ نظریہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ پھر کتاب و سنت سے اس کے حق میں دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ پھر جو دلائل ان کے وضع کردہ اصولوں پر ٹھیک نہ بیٹھیں اُن کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ اور اپنے باطل نظریہ کی تائید میں ضعیف روایات کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
ان گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ ”کیفیت عذاب قبر“ کے مصنف ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا ہے۔ انہوں نے بھی یہی کام کیا، صحیح احادیث کو ضعیف اور ضعیف کو صحیح باور کرانے کی کوشش کی۔ صحیح احادیث میں دور ازکارتا ویلات کیں۔ اپنے نظریہ کی حمایت میں ضعیف روایات پیش کیں۔ قرآنی آیات میں من مانی تاویلات کر کے احادیث کا مذاق اڑایا۔ ان کے ایک ذیلی فرقہ (المسلمین) نے نزول عیسیٰ، دجال ، امام مہدی، جادو کی تاثیر، نظر کا لگ جانا، ایصال ثواب اور عذاب قبر وغیرہ کا انکار کیا۔ اور ان میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔ دوسری طرف ہمارا منہج بالکل واضح ہے یعنی: صحیح و حسن روایات سے استدلال اور ضعیف و مردود روایات سے کلی اجتناب۔
عقائد اسلام میں سے ایک اہم عقیدہ عذاب القبر کا عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ صحیح اور متواتر احادیث سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔ اس فرقہ مسعودیہ نے عذاب القبر کی صحیح و صریح اور متواتر احادیث میں ناجائز اور بھونڈی تاویلات کر کے ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ اسی طرح قرآنی آیات، صحیح اور متواتر احادیث اور اجماع المسلمین سے نزول مسیح علیہ السلام کا اثبات ہوتا ہے۔ ان احادیث کو بھی فاسد و تاویلات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ اسی طرح جادو سے متعلق صحیحین کی احادیث کے ساتھ بھی ان کا یہی رویہ ہے۔
طاعات (دینی امور) پر وظیفہ لینے کو بھی یہ حضرات حرام سمجھتے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایسے علماء کی اقتداء میں نماز ادا کرنا جائز نہیں جو وظیفہ لیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جو صحیح احادیث بخاری و مسلم اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں اور ان سے اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے، ان میں محدچین کے اصول سے ہٹ کر باطل تاویلات کرتے ہیں اور عدم جواز کے لئے ضعیف روایات سے استدلال کرتے ہیں۔

حدیث کی بابت استہزاء کی مثال
حدیث مسلم میں آتا ہے کہ ”جو شخص سورۃ الکھف کی ابتدائی دس (۱۰) آیات یاد کرے گا وہ دجال کے فتنے سے بچا لیا جائے گا۔“
[صحيح مسلم: ۲۵۷؍۸۰۹]
”للہ قرآن اٹھا کر سورۃ کہف کی ابتدائی ۱۰ آیات پڑھ کر دیکھیں، ان میں کون سی چیز دجال سے بچنے میں معاون ہے۔ “
[سحر كيا هے؟ ص۲۸]
جس طرح یہ لوگ عقائد میں افراط و تفریط کا شکار ہیں اسی طرح اعمال میں بھی ان کا یہی طرز عمل ہے۔ یعنی صحیح احادیث کو ضعیف اور ضعیف احادیث کو صحیح کہنا۔ اس کی صرف دو (۲) مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔
ان کے رسالے ”حبل اللہ“ میں سعید احمد صاحب نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی سیرت پر ایک مضمون لکھا ہے جس میں اہل الحدیث پر کافی طنز و تشنیع کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر موصوف لکھتے ہیں:
”قابل غور بات یہ ہے کہ محدثین اور ماہرین رجال تو جرح و تعدیل کو تابعین تک ہی محدود رکھتے ہیں جبکہ یہ فرقہ پرست ، تقلید اعمیٰ اور ذہن پرستی کا شکار تمام اخلاقی حدود پھلانگ کر ایک جلیل القدر صحابی کی تنقیض اور عظیم المرتبت فقیہ کی کردار کشی سے بھی باز نہیں رہتے۔ مسلکی عصیبت نے ان کو بالکل اندھا کر دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہر چند کہ یہ الزام تراشیاں مسلکی بغض و عصیبت ہی کا غیر سنجیدہ مظاہر ہیں اور اس لائق نہیں کہ اس پر علمی بحث کی جائے پھر بھی مغالطہ آرائی اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لئے شیطانی مہم کا سدباب ہونا چاہیئے۔“
[حبل الله ص ص۱۶ ، ۱۷]
آگے چل کر موصوف رقم طراز ہیں:
”عدم رفع الیدین کی دلیل میں بھی متعدد روایات ہیں جن میں جامع ترمذی کی مندرجہ ذیل روایت بہت واضح اور صریح ہے۔“ [ص۱۹]
اسی طرح اس فرقہ کا ایک پاکٹ سائز کتابچہ ہے ”الصلوۃ“ اس میں بھی یہ ضعیف روایت نقل کی گئی ہے۔ جبکہ اس کے پیش لفظ میں اس پاکٹ سائز کتابچہ کے متعلق یہ بھاری بھر کم الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
”چنانچہ ایمان خالص کی دعوت کو قبول کر کے اس مشن کا ساتھ دینے والوں کو ایسی کتاب الصلوۃ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے۔ “ [ص۲]
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مختصر تحقیق
عن علقمة قال قال عبدالله بن مسعود: ألا أصلي بكم صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلي فلم يرفع يديه إلا فى أول مرة
[جامع الترمذي؍۵۹ح۲۵۷]
”جناب علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (سیدنا) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نما زپڑھ کر نہ بتاؤں؟ پس انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ کے علاوہ ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔ “
الجواب:
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے لیکن جمہور محدثین کرام نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ضعیف اور غیر ثابت قرار دیا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
قد ثبت حديث من يرفع و ذكر حديث الزهري عن سالم عن أبيه ولم يثبت حديث ابن مسعود إن النبى لم يرفع يديه إلا فى أول مرة [۱؍۵۹ح۲۵۶]
”یقیناً رفع یدین کی حدیث ثابت ہے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ذکر کیا اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث غیر ثابت ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔ “
بعض لوگوں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی اس جرح کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہٹانے کی کوشش کی ہے لیکن درج ذیل محدثین نے اس جرح کو اسی روایت سے متعلق قرار دیا ہے۔ مثلاً حافظ [ابن حجر عقلاني التلخيص الحبير۱؍۲۲۲، ابن الجوزيالتحقيق ۱؍۲۷۸، امام نوويالمجموع۳؍۴۰۳، ابن قدامه المگني۱؍۲۹۵] وغیرہم۔
اس کے علاوہ امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ، امام دار قطنی رحمہ اللہ، حافظ ابن حبان رحمہ اللہ، امام ابو داؤد رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ، امام یحیی بن آدم رحمہ اللہ، ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ، امام حاکم رحمہ اللہ، امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ، امام بیہقی رحمہ اللہ وغیرہم سب نے اس حدیث پر شدید جرح کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: [التمهيد لابن عبدالبر، التلخيص الحبير، المجموع شرح المهذب اور تهذيب السنن اور نور العينين ص ۱۱۵۔ ۱۱۹] وغیرہ۔
اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ اس کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے معنعن بیان کیا ہے اگرچہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ثقہ ثبت اور عظیم محدث ہیں لیکن آپ مدلس بھی تھے اور ضعفاء تک سے تدلیس کیا کرتے تھے۔
[ميزان الاعتدال ۲؍۱۲۹اسير اعلام النبلاء ۷؍۲۷۴]
اور مدلس اپنی بیان کردہ روایت میں جب تک سماع کی تصریح نہ کرے تو اس کی وہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔
[مقدمه ابن الصلاح ص ۱۹۹الكفايه ص ۳۲۶]
اور اس روایت کی کسی بھی سند میں سماع کی کہیں بھی تصریح موجود نہیں ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی محفوظ روایت
سفیان ثوری کی اس روایت پر محدثین نے سخت جرح کی ہے جبکہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی محفوظ اور اصل روایت وہ ہے جو امام عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ کی سند سے مروی ہے۔
دیکھئے: [جزء رفع اليدين محقق ص ۵۸ح ۳۳]
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ بخاری نے کہا: ”محقق علماء کے نزدیک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سے یہی روایت محفوظ ہے۔ “
اس روایت کو ابن خزیمہ (۱۹۶)دار قطنی (۱؍۳۳۹) اور ابن الجارود (۱۹۶) نے صحیح قرار دیا ہے۔
صحیح مسلم (۵۳۴) میں اس کا ایک شاہد بھی ہے۔
موصوف نے ترک رفع الیدین والی ضعیف روایت پیش کر کے اہل حدیث پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے۔ اہل الحدیث کا جرم یہ ہے کہ وہ اس ضعیف روایت کو ضعیف کہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر بارہ (۱۲) صفحات کا مضمون لکھ کر غلط تاثر دینے والا (سعید احمد) اور اس کا برزخی ٹولہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت پر عمل کرتا ہے یا نہیں؟ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس روایت پرعلمی بحث کی ہے۔
دیکھئے: [نور العينين ص ۱۱۹تا ۱۳۳]
حافظ صاحب نے متعدد دلائل سے حدیث الثوری بسندہ عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ضعیف و مردود ہونا ثابت کیا ہے اور لکھا ہے کہ:
”یہ حدیث علت قادحہ کے ساتھ معلول ہے اور سنداً اور متناً دونوں طرح سے ضعیف ہے۔ “ [ص ۱۱۹]
اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ، امام ابن جزم رحمہ اللہ، علامہ البانی رحمہ اللہ، علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح یا تحسین کی ہے لیکن بیس سے زیادہ ائمہ حدیث نے اس روایت کی تضعیف کی ہے اور ان کی تحقیقی ہی راحج ہے۔

دوسری مثال
”حبل اللہ“ کے ایک اور شمارے میں ”صلوۃ التسبیح“ کو عجوبہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”۔ ۔ ۔ یہ روایت ایک عجوبہ ہی معلوم ہوتی ہے کہ ہر روز سے لے کر عمر میں صرف ایک مرتبہ کر لینے تک کی چھوٹ اور عمر میں صرف ایک مرتبہ صلوۃ التسبیح ادا کر لینے سے اگلے پچھلے عمر بھر کے سارے ہی گناہ معاف ہو جائیں خواہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ عمداً ہوں یا سھواً وغیرہ!“
صلوۃ التسبیح کی حدیث کی تحقیق
یہ حدیث (ابو داؤد ، ابواب التطوع، باب صلوۃ التسبیح حدیث: ۱۲۹۷) ابن ماجہ، (اقامۃ الصلوۃ، باب ماجاء فی صلوۃ التسبیح حدیث: ۱۳۸۶) میں موجود ہے۔
امام ابن خزیمہ (حدیث ۱۲۱۶) اور حاکم (۱؍۳۱۸) نے اسے صحیح کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کثرت طرق کی بنیاد پر حسن درجہ کی ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اس حدیث کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ حق ہے کیونکہ اس کے بہت سے طرق ہیں۔
علامہ مبارک پوری اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے صحیح حسن کہا ہے ۔
جبکہ خطیب بغدادی، امام نووی اور ابن الصلاح نے اسے صحیح کہا ہے۔
اسے ابو بکر الآخری نے (الترغیب و الترھیب۱؍۴۶۸) ابو الحسن المقدسی اور ابو داؤد وغیر ہم نے صحیح کہا ہے۔ تفصیل کے لئے حافظ زبیر علی زئی صاحب کی کتاب ”نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داؤد“ دیکھیں۔
اس حدیث کے ایک راوی (موسیٰ بن عبدالعزیز) کو صاحب مضمضن نے مجہول بتلایا ہے۔ لیکن موسیٰ بن عبدالعزیز سے ایک جماعت نے حدیث بیان کی ہے۔ ابن معین، نسائی، ابو داؤد ، ابن شاہین وغیرہ ہم جمہور نے اس کی توثیق کی ہے۔
صرف ابن المدینی اور السلیمانی کی جرح ملتی ہے جو کہ جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
لہذا موسیٰ بن عبدالعزیز‘‘ حسن الحدیث’’ ہے۔ صلوۃ التسبیح کے بارے میں دو اور احادیث بھی قابل حجت ہیں۔
➊ حدیث (جابر بن عبداللہ) الا نصاری رضی اللہ عنہ
➋ حدیث عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ۔
ملاحظہ فرمائیے: [ماهنامه شهادت ستمبر ۱۹۹۹ء ص ۳۷ ، ۳۸]
تفصیلی بحث کے لئے الترشیح لبیان صلوۃ البیان صلوۃ التسبیح مع التخریج و کتب الرجال دیکھئے۔
(انتہائی اختصار کے ساتھ ”فرقہ مسعودیہ: ۱“ کے چند فریب واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو یہ حضرات اپنے خود ساختہ نظریے کے دفاع میں پیش کرتے ہیں۔ )

اس تحریر کو اب تک 90 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply