رسول کریم ﷺ سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت

تحریر : غلام مصطفے ظہیر امن پوری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دو رکعتوں سے اٹھ کر، رفع الیدین کرتے تھے، اس کا ترک ثابت نہیں، دلائل ملاحظہ ہوں :

دلیل نمبر ①

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے، سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
[صحیح بخاری : 102/1، ح : 735، 738، 738، صحیح مسلم : 168، ح : 390]

راوی حدیث کا عمل :
◈ سلیمان الشیبانی کہتے ہیں :
رأيت سالم بن عبد الله اذا افتتح الصّلاة رفع يديه، فلمّا ركع رفع يديه، فلمّا رفع رأسه رفع يديه، فسألته، فقال : رأيت أبى يفعله، فقال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله .
”میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر تابعی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔“
[حديث السراج : 34/2- 35، ح : 115، وسندۂ صحيح]

? سبحان اللہ ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا وفات رفع الیدین کرتے رہے، راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا، خود بھی رفع الیدین کیا، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کر رہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کر رہے ہیں، اگر رفع الیدین منسوخ ہو گیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوی حدیث صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہو گیا ؟

⟐ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں :
”جو سنت کی محبت سے بلاشر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے، اس کو برا نہیں جا نتا“۔ [تذكرة الرشيد : 175/2]

”اے اللہ ! اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں !

دلیل نمبر ②

❀ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن رہے، جب واپس جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا : صلّوا كما رأيتموني أصلّي ”نماز ایسے پڑھو، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح بخاري : 88/1 ح : 631]

راوی حدیث کا عمل :
◈ ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے :
أنه راى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا أراد أن يركع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا .
”انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“ [صحيح بخاري : 102/1، ح : 737، صحيح مسلم : 168/1، ح : 391]

? صحابی رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔

دلیل نمبر ③

أنه راى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر، ‏‏‏‏‏‏وصف همام حيال اذنيه، ‏‏‏‏‏‏ثم التحف بثوبه، ‏‏‏‏‏‏ثم وضع يده اليمنى على اليسرى، ‏‏‏‏‏‏فلما اراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏اخرج يديه من الثوب، ‏‏‏‏‏‏ثم رفعهما، ‏‏‏‏‏‏ثم كبر فركع، ‏‏‏‏‏‏فلما قال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏فلما سجد، ‏‏‏‏‏‏سجد بين كفيه .
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا، پھر کپڑا لپیٹ لیا، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا :، جب (رکوع کے بعد) سمع الله لمن حمده کہا، تو رفع الیدین کیا، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔ [صحيح مسلم : 173/1، ح : 401]
? واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ [عمدة القاري از عيني حنفي : 274/5]
? ایک وقت کے بعد موسم سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ [سنن ابي داود : 727، وسنده حسن]

دلیل نمبر ④

عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ انه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏ويصنع مثل ذلك إذا قضى قراءته واراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏ويصنعه إذا رفع من الركوع، ‏‏‏‏‏‏ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من السجدتين رفع يديه كذلك وكبر .
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت مکمل کر کے رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے تھے، دو رکعتوں سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے اور اللہ اکبر کہتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد : 744، مسند الامام احمد 93/1، وسنده حسن]
? اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ [584] نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔

◈ راوی حدیث سلیمان بن داؤد الہاشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
هذا عندنا مثل حديث الزّ هري عن سالم عن أبيه
ہمارے نزدیک یہ اس طرح کی حدیث ہے جسے امام زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔“ [سنن الترمذي، تحت حديث : 3423، وسنده صحيح]
? اس کے راوی عبدالرحمٰن بن ابی الزناد جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں، جیسا کہ :
◈ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو ثقة عند الجمهور، وتكلّم فيه بعضهم بما لا يقدح فيه .
”وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، ان پر بعض نے ایسی کلام کی ہے جو موجب جرح نہیں۔“ [نتائج الافكار لا بن حجر : 304]
? ”مدینہ میں اس کی حدیث ”صحیح“ اور عراق میں ”مضطرب“ تھی، اس پر جرح اسی صورت پر محمول ہے، یہ روایت مد نی ہے۔“ والحمد لله !

دلیل نمبر ⑤

❀ ابوالزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أن جابر بن عبد الله‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا ركع، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع فعل مثل ذلك، ويقول:‏‏‏‏ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك .
”سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔“ [سنن ابن ماجة : 868، وسنده صحيح]
? ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس تابعی نے ”مسند السراج [92] “ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔

? اب غور فرمائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک تابعی سیدنا جابر صحابی رسول کو رفع الیدین کرتے دیکھ رہے ہیں اور صحابی رسول ا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بتا رہے ہیں، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا تھا تو صحابہ کرام آپ کی وفات کے بعد اس پر کاربند کیوں رہے ؟

دلیل نمبر ⑥

❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .
”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا : اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111، وسنده صحيح]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 219/1]
? اس حدیث سے ”بعض الناس“ کا یہ کہنا کہ ”9 مقامات پر رفع الیدین کا اثبا ت اور 18 مقامات پر نفی دکھاؤ“ ”باطل و مردود ٹھہرتا ہے، کیونکہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کر رہے ہیں، رفع الیدین والی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قرار دے رہے ہیں، ہمیں بھی رفع الیدین کرنے کا حکم دے رہے ہیں، صحابہ کرام نے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا، وہا ں کیا، جہاں نہیں دیکھا، وہاں نہیں کیا۔

دلیل نمبر ⑦

سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نماز پڑ ھ کر دکھائی، نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا : صدقت، هكذا يصلّي النّبيّ صلى الله عليه وسلم ”آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“ [مسند الامام احمد : 424/5، سنن التر مذي : 304، وسنده صحيح]
◈ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
◈ امام ابن خزیمہ [587] امام ابن الجارود [192] ، امام ابن حبان [1865] ، نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ خطابی [معالم السنن : 194/1] نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الا حكام : 353]
◈ حافظ ابن قّیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حديث أبى حميد هذا حديث صحيح متلقّي بالقبول، لا علّة له، وقد أعله قوم بما برأه الله أئمة الحديث منه، ونحن نذكر ما علّلوا به، ثمّ نبيّن فساد تعليلهم وبطلانه بعون الله . . . .
یہ حدیث صحیح ہے، اسے امت نے صحت و عمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے، اس میں کوئی علت نہیں، ہاں ! اسے ایک قوم (احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کر دیا ہے، ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسد و باطل ہونا بیان کریں گے۔“ [تهذيب السنن لا بن القيم : 416/2]
◈ امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابوعبداللہ النیسابوری رحمہ اللہ ( 258ھ) فرماتے ہیں :
”جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 298/1، وسنده صحيح]

دلیل نمبر ⑧

❀ امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام حماد بن زید رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی اقتدا ءمیں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے پوچھا : تو آپ نے فرمایا، میں امام عطاء بن ابی ربا ح کی اقتدار میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے (صحابی رسول) سیدنا عبد اللہ زبیر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں، میں رفع الیدین کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرما یا، میں نے (اپنے نانا) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفہ اول) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ء میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے۔“ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 73/2، وسنده صحيح]

◈ خود امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواته ثقات . ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“

◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ [المهذب فى اختصار السنن الكبير : 49/2] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راویوں کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔

قارئین کرام !
اس سنہری کڑی پر غور کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام، اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس سنت کو اپنانے کی توفیق سے نوازے۔۔۔۔۔ آمين ياربّ العالمين !

تنبیہ :
◄ الامام الثقۃ ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول البغدادی رحمہ اللہ (م318) بیان کرتے ہیں :
”میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھے رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“ [سنن دار قطني : 292/1، ح : 1112، وسنده صحيح]

? جن لوگوں کے مذہب کی بنیاد بزرگوں کے خوابوں پر ہے، کیا وہ اس ثقہ امام کے خواب کی صورت میں ملنے والے نبوی عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ؟

الحاصل :

? رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔

 

یہ تحریر اب تک 524 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 4 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has 2 Comments

  1. hafizabrar529@gmail.com

    بارک اللہ

  2. حمزہ شبیر

    . ماشاءاللہ زبردست قالم لکھا آپ نے مجھے دوبارہ پڑھنے سے فائدہ ہوگیا

Leave a Reply