رسول اللہ ﷺ کو اختیار……

تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ٭ لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا
آپ ان (بیویوں) میں سے جس کی چاہیں( باری) موقوف کردیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور علیحدہ کرنے کے بعد جسے چاہیں اپنے پاس بلائیں تو آپ پر کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمزدہ نہ ہوں اور وہ سب کی سب اس پر راضی رہیں جو آپ انہیں دیں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اللہ جانتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا نہایت بردبار ہے۔ اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ آپ ان (موجود ہ بیویوں )کے مقابلے میں کوئی اور بیویاں بدل لیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے البتہ لونڈیوں( کنیزوں ) کی آپ کو اجازت ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب نگران ہے۔ [33-الأحزاب:51]
فقہ القرآن :
◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر بڑی غیرت آتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کرنے آتی تھیں اور میں کہتی : کیا عورت بھی اپنے آپ کو ہبہ کرسکتی ہے ؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ
تو میں نے کہا: میں دیکھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی خواہش کے مطابق بلا تاخیر حکم فرما دیتا ہے۔ [صحيح بخاري : 4788]
◈ مذکورہ آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ آپ اپنی بیویوں میں سے جس کی چاہیں باری مقرر فرمائیں یا موقوف کردیں۔ لیکن صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار ملنے کے باوجود اپنی بیویوں کے درمیان باری اور تقسیم میں مساوات برقرار رکھی تھی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس آیت تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ . . . إلخ کے نازل ہونے کے بعد بھی اگر آپ کسی بیوی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے (تو جس کی باری ہوتی ) اس سے اجازت لیا کرتے تھے۔ (راویہ معاذہ کہتی ہیں) میں نے ان (عائشہ رضی اللہ عنہ ) سے کہا: تو آپ( ایسی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ) کیا کہتی تھیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے یہ اختیار دیا جائے تو میں (آپ کی محبت کی وجہ سے ) کسی اور کو آپ پر ترجیح نہیں دے سکتی۔ [صحيح بخاري : 4789]
◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری زیادہ اور تکلیف شدید ہ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں بیماری کے ایام گزارنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دے دی…۔ الخ [صحيح بخاري : 2588]
◈ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیئے جانے سے ازواجِ مطہرات کی دلجوئی، باہمی جذبۂ رقابت و مسابقت کا خاتمہ اور قلوب و اذہان میں وسعت پیدا کرنا بھی مقصود تھا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو جس صورت میں مل جائے اس پر کبیدۂ خاطر ہونے کی بجائے اسی پر قناعت کریں اور یہ جان لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے ایسا نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا اختیار دیا ہے۔
وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ یعنی بیویوں میں سے بعض کی طرف آپ کے دلی میلان کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے۔ چونکہ دل پر انسان کا اختیار نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان (نان و نفقہ) عدل و انصاف سے تقسیم کرتے اور فرماتے : یا اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ [سنن ابي داود : 2134 و سنده صحيح]
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ کی تفسیر میں دو قول ہیں :
➊ اللہ تعالیٰ جن عورتوں کی تفصیل آیت 50 کے تحت بتلائی ہے ان کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح حلال نہیں ہے۔
➋ نزول آیت کے وقت جو بیویاں موجود تھیں ان کے علاوہ کسی اور عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ اول الذکر قول کی تائید بعض روایات سے ہوتی ہے مثلاً دیکھئے [ سنن الترمذي2316، 2315]
بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب ازواج مطہرات نے عیش و عشرت اور آسائش دنیا کے بجائے آخرت کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ کو ان کا ایثار بہت پسند آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ اب کسی اور کو شرف زوجیت نہ بخشا جائے، لہٰذا اس کے بعد آپ نے کسی آزاد عورت سے نکاح نہیں کیا، البتہ کنیزوں کے متعلق رخصت بدستور باقی رکھی گئی۔ [ تفسير ابن كثير 200/5]
توجہ : امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ کی تفسیر و تاویل میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔ [تفسير طبري 21/22]
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس سلسلے میں دونوں طرح کے کثیر اقوال ہیں لہٰذا روایات و آثار کی بنیاد پر اگر کسی قول کو ترجیح دی جائے تووہ اول الذکر قول ہی معلوم ہوتاہے۔ والله اعلم
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ سے مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید نکاح کرنے سے روک دیا گیا یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کی ممانعت ہے۔ [تفسير ابن كثير 202/5]

 

یہ تحریر اب تک 12 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply