رحمۃ للعالمین

تحریر: فضل اکبر کاشمیری
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷

اور ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے ۔(الانبیآء: ۱۰۷)

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مشرکوں کے لئے (لعنت کی) بدعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :((أني لم أبعث لعّاناً و إنّما بعثت رحمۃً))مجھے لعنت کرنے والا نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ (مسلم: ۶۶۱۳) 

 چونکہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں لہذا غصے اور غضب میں آپ کا کسی مسلمان کو لعنت یا سَبّ و شتم کرنا بھی قیامت کے دن موجبِ رحمت قرار پائے گا۔(دیکھئے ابوداود : ۴۶۵۹ و اسنادہ حسن ، مسند احمد ۴۳۷/۵ ح ۲۳۷۰۶)
کامل مومنوں کے لئے رحمت ہیں کیونکہ آپ کی اتباع دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب ہے ۔ محاربین سے جہاد کرنا ان کے لئے رحمت ہے تا کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ اہلِ ذمہ سے جزیہ لینا ان کے لئے رحمت اور امن کا سبب ہے ۔ منافقوں کے دل میں کفر ہوتا ہے لیکن ظاہری طور پر ان مومنوں کی طرح حقوق دیئے جاتے ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے ۔
سورۃ التوبۃ آیت نمبر ۴۱ میں مومنوں کے لئے رحمت کی تخصیص کی گئی ہے لہذا اس سے خاص رحمت مراد ہے ۔ یہ آپ ﷺ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ کی امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کردی گئی یعنی اس پر کلی عذاب نہیں آئے گا۔ جبکہ گزشتہ نافرمان امتیں حرفِ غلط کی طرح مٹادی گئیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸
          یقیناً تمہارے پاس ایک ایسے رسول تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں ، جنہیں تمہاری تکلیف کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں۔ مومنوں پر بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔(التوبۃ: ۱۲۸)
رسول  اللہﷺ نے فرمایا:
          “میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے آس پاس روشنی ہوگئی تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ میں گرتے ہیں اس (آگ) میں گرنے لگے اور (آگ جلانے والا) ان کو اس میں سے نکالنے لگا لیکن  وہ اس پر غالب رہے اور آگ میں گرتے ہی رہے۔ اسی طرح میں تمہیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر(آگ سے دور کرنے کے لئے) کھینچتا ہوں اور تم ہو کہ اسی میں زبردستی گرتے جاتے ہو۔ ” (بخاری: ۶۴۸۳، مسلم: ۲۲۸۴)
آپﷺ جانوروں کے لئے بھی باعثِ رحمت تھے۔
ایک بار اللہ کے نبی ﷺ ایک انصاری کے باغ میں رفع حاجت کے لئے گئے اس میں ایک اونٹ تھا جو رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر بلبلایا اور آبدیدہ ہوگیا۔ آپ اس کے پاس گئے اور اس کی کنپٹی پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا : یہ کس کا اونٹ ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے آکر کہا : “میرا یا رسول اللہ ” آپ ﷺ نے فرمایا : اس جانور کے بارے میں جس کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے اللہ سے نہیں ڈرتے؟ اس نے مجھ کو شکایت کی کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس پر جبر کرتے ہو ۔(مسند احمد ۲۰۴/۱ ح ۱۷۴۵ وسندہ صحیح واصلہ فی صحیح مسلم: ۳۴۲)
یہ تحریر اب تک 13 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply