دو زندگیاں اور دو موتیں

تحریر:ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی

اللہ ﷻ کا ارشاد ہے :
﴿کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۸﴾﴾
“تم اللہ (کے ایک معبود ہونے) کا کیسے انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں زندہ کیا ۔ پھر تمہیں وہ موت دے گا اور  پھر (قیامت کے دن) وہ تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے ’’ (البقرۃ: ۲۸)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
﴿ثُمَّ اِنَّکُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾  ﴿ ثُمَّ اِنَّکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ تُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۶﴾﴾
“پھر یقیناً تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کرکے) اٹھائے جاؤ گے ” (المؤمنون : ۱۵۔ ۱۶)
قیامت کے دن کافر کہیں گے :
﴿قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿۱۱﴾ ﴾
(کافر کہیں گے کہ) اے ہمارے رب ! تو نے واقعی ہمیں دو مرتبہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ؟ (المؤمن: ۱۱)
ثابت ہوا کہ ہر انسان کی دو زندگیاں اور دوموتیں ہی عنایت کی گئی ہیں اور ڈاکٹر عثمانی (کراچی) نے بھی اس کا ذکر کیا ہے بلکہ ان لوگوں کا زبردست رد کیا ہے جو بقول ان کے دو زندگیوں کے بعد تیسری زندگی کے قائل ہیں اور ان پر کفرکے فتوے بھی داغے ہیں لیکن پھر انتہائی تعجب کی بات ہے کہ “موصوف” اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی خود تیسری زندگی کے قائل ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد اگر برزخی جسم کے ساتھ تیسری زندگی تسلیم کر لی جائے تو یہ بات بالکل درست ہے بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے ۔

ڈاکٹر عثمانی تیسری زندگی کے قائل تھے ؟

ڈاکٹرصاحب نے عذابِ قبر کے ماننے والوں کو دو زندگیوں اور دو موتوں کا انکار ی قرار دیا ہے لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ خود موصوف حقیقتاً دو زندگیوں اور دو موتوں کے انکاری اور تین زندگیوں اور تین موتوں کے قائل تھے ۔چنانچہ موصوف لکھتے ہیں:
“اللہ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے اس کی لاش کو جلا کر خاک کردیا جائے یا اس کی میت درندوں اور مچھلیوں کے پیٹ کی غذا بن جائے ۔ یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں روح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک جاری رکھا جائے گا ۔ اور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گزرے گا۔ اور یہ معاملہ صرف مومنوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کافر، مشرک، فاسق و فاجر و منافق ہر ایک کے ساتھ یہی ہوگا۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے ….قرآن کے بیان سے معلوم ہوا کہ فرعون کی لاش اس دنیا میں عبرت کے لئے محفوظ اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں بھی اسی دنیامیں لیکن ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ثابت ہوا کہ ان کو کوئی دوسرا قیامت تک باقی رہنے والا عذاب برداشت کرنے والا جسم دیا گیا ہے ۔ جسدِ عنصری وہ بہرحال نہیں ہے …..
بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں۔
۱:        روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور روح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دور گزرتا ہے۔
۲:        اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائیگا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزرینگے ۔
۳:       یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے ۔
۴:       دنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں ان کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کرکے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
۵:       نیکوکار مرنے والے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے ۔
۶:        شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں ۔مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم…….
ان ساری صحیح حدیثوں نے بتلا دیا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پا جاتا ہے اس کو حسبِ حیثیت ایک برزخی جسم ملتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال دیا جاتا ہے اور اس جسم اور روح کے مجموعہ پر سوال و جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حالات گزرتے ہیں اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے قرآن اور صحیح احادیث کا بیان تو یہ ہے ۔”
(عذاب برزخ ص ۲،۳،۶،۹)
موصوف کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جسے موصوف برزخی جسم قرار دیتے ہیں اور روح کو اس جسم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس مکمل انسان کو قیامت تک راحت یا عذاب کے مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔ عذاب کے نتیجے میں یہ جسم ریزہ ریزہ بھی ہوجاتا ہے اور پھر جب یہ جسم دوبارہ درست ہوجاتا ہے تو اس جسم میں دوبارہ روح کو ڈال دیاجاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بار بار اعادۂ روح ہوتا رہتا ہے اور ثواب و عذاب کا یہ سلسلہ قیامت تک رہتا ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جسم چاہے نیا ہو یا پرانا ، برزخی ہو یا عنصری ، اگر روح اس میں ڈال دی جائے تو یہ ایک زندہ انسان ہوجائے گا اور مرنے والے کو ایک کامل و مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی اور جب قیامت آئے گی تو پھر نیا جسم فوت ہوجائے گا اور پرانا جسم دوبارہ زندہ ہوجائے گا ۔ موصوف کی اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موصوف میت (مردہ) کے عذاب کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ کے عذاب کے قائل ہیں اور مرنے کے بعد ان کے بقول روح کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندگی دی جاتی ہے ۔
موصوف مزید لکھتا ہے :
“اس آیت سے تو معلوم ہوا کہ ہرمرنے والے کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا پھر قیامت سے پہلے مرنے والا اس قبر کے اندرکیسے زندہ ہوجاتا ہے اور اس طرح قبر میں زندہ ہوجانے کے بعد آخر اسے پھر موت کب آتی ہے اور ان تین زندگیوں کے ثبوت میں آخر دلیل کیا ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے ۔ قرآن کی طرح بخاری   کی حدیث بھی یہی بیان کرتی ہے کہ دنیاوی جسم کو مٹی کھالیتی ہے اورصرف قیامت کے دن عجب الذّنب پر یہ جسم عنصری پھر بنے گا اور میدانِ محشر میں فیصلہ کے لئے حاضر کیا جائے گا …
آخر جب قیامت سے پہلے روح واپس ہی نہیں لوٹتی اور مٹی جسم کو برباد کردیتی ہے تو اس دنیاوی قبر کے مردہ سے سوال جواب کیسا اور بغیر  روح کے مردہ کا احساسِ راحت۔۔۔ اور اس کی چیخ و پکار کیا معنی؟”
(عذابِ برزخ ص ۱۱)
موصوف عذابِ قبر کے قائلین سے سوال کررہے ہیں کہ قبر میں اگر عذاب مان لیا جائے تو بقول موصوف یہ تیسری زندگی ہوجائے گی اور ان تین زندگیوں کے ثبوت کی آخر دلیل کیا ہے ؟ لیکن خود موصوف جس حقیقی زندگی کے قائل ہیں اس کا ان کے پاس کیا ثبوت ہے ؟ اور اس کی کوئی بھی دلیل اس نے پیش نہیں کی ۔ پھر موصوف آگے لکھتے ہیں کہ روح کے بغیر عذاب و راحت کا احساس بے معنی ہے ۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عذابِ قبر میت کے بجائے زندہ کو ہونا چاہئے اور وہ خود زندہ کے عذاب ہی کے قائل ہیں۔ بالفاظ دیگر موصوف گویا یہ کہنا چاہتا ہے کہ میت کو عذاب نہیں ہوسکتا بلکہ یہ عذاب زندہ انسان کو ہونا چاہئے کیونکہ روح کے بغیر عذاب و راحت بے معنی ہے؟ بہت خوب۔!
اس وضاحت سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ موصوف تیسری زندگی کے قائل ہیں اور اعادۂ روح کے بھی۔ نئے جسم میں پہلی بار جب روح کو داخل کیا گیا تو وہ زندہ انسان بن گیا ۔ اب عذاب کے نتیجے میں جب یہ جسم ریزہ ریزہ ہوگیا تو اسے دوبارہ بنا دیا گیا اور پھر بار بار نئے جسم کی طرف اعادۂ روح ہوتا رہے گا اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا۔ روح کو نئے جسم میں ڈالے جانے والے عقیدہ سے ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ کو بھی تقویت ملتی ہے ۔ گویا موصوف ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ کے بھی قائل تھے۔
حدیث قدسی میں آتا ہے کہ “جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے ” (بخاری : ۶۵۰۲)
ڈاکٹر عثمانی ، محدثین کرام کے سخت دشمن تھے اور ان پر کفر کے فتوے لگانا ان کا روزمرہ کا معمول تھا چونکہ روح اصل ہے اور جب وہ کسی جسم میں داخل کی جائے گی تو اس جسم کو زندگی حاصل ہوجائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف تیسری زندگی ، اعادۂ روح اور ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ کے قائل ہو کر اس دنیا سے برزخ کی طرف رواں دواں ہوئے ہیں۔
ثابت ہوا کہ موصوف:
۱:        تیسری زندگی کے قائل تھے۔
۲:        بار بار اعادۂ روح کے قائل تھے۔
۳:       ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ کے بھی قائل تھے ۔
۴:       میت کے عذاب کے برخلاف وہ زندہ کے عذاب کے قائل تھے اور اس اصول کے مطابق وہ عذابِ قبر کے انکاری تھے۔ برزخی قبر میں عذاب کے قائل تھے جبکہ برزخی قبر کا عقیدہ شیعوں کا ہے ۔تفصیل آگے آرہی ہے ۔
۵:       موصوف تکفیری فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔تکفیری خارجی فرقہ کے متعلق تفصیل ہماری کتاب الدین الخالص جدید ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں۔
موصوف برزخی جسم کے ثبوت کے لئے جو احادیث ذکر کی ہیں ان میں سے کسی میں بھی جسم کے الفاظ ثابت نہیں ہیں اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح کو برزخی جسم میں ڈال دیا جاتا ہے بلکہ موصوف نے زبردستی ان احادیث سے برزخی جسم کو کشید کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ جہنم میں ارواح کے عذاب کے مناظر ہیں جو نبیﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پر دکھائے ہیں اور بس ۔ لیکن موصوف نے نبیﷺ پر برزخی جسم کے نام سے جو واضح اور کھلا جھوٹ باندھا ہے اس کی سزا جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینے کے مترادف ہے ۔ (دیکھئے بخاری: ۱۰۷ ، و مسلم : ۲)

تین زندگیاں یا بے شمار زندگیاں؟؟؟

موصوف کے بار بار اعارۂ روح کے عقیدہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موصوف تین زندگیوں ہی کے نہیں بلکہ بے شمار زندگیوں کے قائل تھے کیونکہ برزخی جسم کا ریزہ ریزہ ہوجانا پھر اس جسم کا دوبارہ بننا اور پھر اس میں روح کا اعادہ ! اس طرح تو ایک ہی دن میں بے شمار زندگیاں بن جاتی ہیں۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار
امام احمد بن حنبلؒ پر کفر کے فتوے لگانے والے سوچیں کہ ان کے پیرِمغاں پر اب کفر کے کتنے فتوے لگ سکتے ہیں؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پرستار ان پر کفر کے فتوے لگانے کا کب آغاز کرتے ہیں؟؟؟؟
موصوف معجزات کو دلیل بنانے والوں سے کہتے ہیں :”نبی کے معجزہ کو معمول بناکر اپنے عقیدہ کے ثبوت پیش کرنا بلا کی چابکدستی ہے ” (عذاب برزخ ص ۱۹) لیکن خود موصوف ان احادیث سے برزخی جسم کشید کرنے لگ گئے اور انہیں یہ خیال تک نہ آیا کہ معجزات سے بھلا کبھی دلیل اخذ کی جاسکتی ہے ؟ کسی چیز کانفس الامر میں موجود ہونا اور معجزہ اسے صرف ظاہر کرے مثلاً کسی میت پر عذاب ہورہا ہے اور آپﷺ وحی کے ذریعے بتا دیں کہ اسے عذاب ہورہا ہے ، یہ معجزہ نہیں ہے بلکہ وحی کی ایک شکل ہے چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا بھی ایک معجزہ ہے لیکن اس سے کوئی عام دلیل اخذ نہیں کی جاسکتی  اور نہ اسے دلیل بنایا جاسکتا ہے ۔ پھر حیرت اس بات پر ہے کہ جرائم جسم عنصری کرے اور عذاب نئے برزخی جسم کو دیا جائے !!! یہ کیا بوالعجبی ہے اور کیا جہالت ہے؟؟
ڈاکٹر موصوف نے قبر کے عذاب کے ماننے والوں پر کفر کے فتوے داغے ہیں، ان کا کہنا  ہے کہ “قبر کے عذاب کو اگر تسلیم کرلیا گیا تو یہ بات دنیاوی قبرمیں عذابِ قبر کا اثبات حیات فی القبر کے ہم معنی  اور قبرپرستی کے شرک کی اصل اور بنیاد ہے ” (عذابِ قبر ص ۲۶)
یہ بات تو درست ہے کہ قبروں کو  سجدہ گاہ بنانا ، وہاں چادر ،بکرا اور مٹھائی وغیرہ چڑھانا قبروں کی پوجا پاٹ کرنا، بزرگوں  سے دعائیں مانگنا اور انہیں مدد کے لئے پکارنا وغیرہ شرکیہ افعال ہیں ۔ لیکن قبر کے اندر کے معاملات پر لب کشائی کرنا، آخرت کے حالات کو دنیا پر قیاس کرنا اور قبر کے عذاب و راحت پر ایمان لانے کے بجائے الٹا اس پر فتویٰ بازی کرنا جہالت کی انتہا ہے اور احادیثِ صحیحہ متواترہ کا انکار ہے ۔ عذابِ قبر کے بیان پر اس قدر کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ جن کا کوئی شمار ہی نہیں اور ان احادیث کے ماننے والوں پر فتویٰ بازی کرنا یقیناً سخت گمراہی ہے او رایسا شخص یقیناً ضال و مضل ہے یعنی وہ خود بھی گمراہ ہے اوردوسروں کو بھی گمراہ کر رہا ہے ۔
حیرت اس بات پر ہے کہ خود موصوف مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے ایک ایسی مکمل زندگی کے قائل ہیں کہ اس طرح کی زندگی کا قائل اس امت مسلمہ میں کوئی نہیں ہے اور دنیاوی قبر میں عذاب کے قائل کو موصوف نے حیات فی القبر اور قبرپرستی کے شرک کا اصل مجرم قرار دے ڈالا ہے ۔ لیکن جو شخص مرنے کے بعد ایک کامل و تیسری زندگی کا قائل ہو اس پرکون کون سے فتوے چسپاں ہوسکتے ہیں؟ ان فتووں کا ان کے پرستار خود ہی تعین کردیں تو بہتر ہوگا۔ فیصلہ تیرا تیر ےہاتھوں ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور ڈاکٹر عثمانی کے عقیدہ میں مماثلت

ڈاکٹر موصوف نے نئے جسم میں روح کے داخل ہونے کا عقیدہ مرزا غلام احمد قادیانی سے لیا ہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
“سو ان تمام دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ روح کے افعالِ کاملہ صادر ہونے کے لئے اسلامی اصول کے رو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے ۔ گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہوجاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے ۔ وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے ۔ گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں ۔ ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار ذکر آیا ہے ۔ اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلمانی قرار دیئے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے تیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں ۔ انسانِ کامل اسی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کیفیتِ جسم کے علاوہ پاسکتا ہے اور عالمِ مکاشفات میں اس کی بہت مثالیں ہیں ۔ اگرچہ ایسے شخص کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے جو صرف ایک موٹی عقل کی حد تک ٹھہرا ہوا ہے لیکن جن کو عالمِ مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے تیار  ہوتا ہے ۔ تعجب اور استبعاد کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے ۔غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے ۔ یہی  عالم برزخ میں نیک و بد کی جزا کا موجب ہوجاتا ہے ۔ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں مجھے کشفی طور پر عین بیدار ی میں بارہا بعض مُردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے ۔ اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے ۔ غرض میں اس کوچہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیساکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے خواہ نورانی خواہ ظلمانی ۔ انسان کی یہ غلطی ہوگی ۔ اگر وہ ان نہایت باریک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرناچاہے ۔ بلکہ جاننا چاہئے کہ جیسا کہ آنکھ شیریں چیز کا مزہ نہیں بتلا سکتی ۔ اور نہ زبان کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے ۔ ایسا ہی وہ علومِ معاد جو پاک مکاشفات سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ صرف عقل کے ذریعہ سے ان کا عُقدہ حل نہیں ہوسکتا ۔ خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں مجہولات کے جاننے کے لئے علیحدہ علیحدہ وسائل رکھے ہیں۔ پس ہر ایک چیز کو اس کے وسیلہ کے ذریعہ سے ڈھونڈو تب اسے پالو گے ۔”
(اسلامی اصول کی فلاسفی از مرزا  غلام احمد قادیانی کذاب ص ۱۳۵،۱۳۶ ، روحانی خزائن ج ۱۰ ص ۴۰۴)

عذابِ قبر کی کیفیت

موت کے وقت ملک الموت روح کو قبض کرلیتا ہے ۔ (دیکھئے سورۃ السجدۃ: ۱۸) اور جسم اور روح کی جدائی واقع ہوجاتی ہے اور یہ جدائی قیامت تک رہتی ہے۔ قبر کے سوال و جواب کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کردی جاتی ہے اور میت قبر میں ہوتی ہے ۔ روح کو جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب جہنم کہتے ہیں اور میت (جسم) کو قبر میں جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب قبر کہتے ہیں اور نبی ﷺ نے ان دونوں عذابوں یعنی عذاب جہنم اور عذاب قبر کو الگ الگ بتا یا ہے اور امت کو نماز کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے ۔ (دیکھئے صحیح مسلم :۵۹۰)
اور آپ بھی ہمیشہ نماز کے آخر میں ان سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری : ۸۳۲)
عذابِ قبر قیامت تک جاری رہے گا لیکن ڈاکٹر عثمانی نے عذاب قبر کو سمجھنے میں زبردست ٹھوکر کھائی ہے اور عذاب جہنم والی احادیث کو ذکر کر کے اسے ہی عذاب قبر قرار د ےڈالا اور اصل عذاب قبر کا صاف انکار  کردیا اور جنت اور جہنم کو برزخی قبریں قرار دے دیا۔  فاعتبروا یا اولی الابصار (تفصیل کےلئے ہماری کتاب “عذابِ قبر کی حقیقت”کا مطالعہ فرمائیں)

ڈاکٹر موصوف کا سفیدجھوٹ

ڈاکٹر عثمانی “صاحب” لکھتے ہیں:
“دوسرے حضرات اس بات پر مصر ہیں کہ نہیں ، ہر مرنے والے کی روح اسی دنیاوی جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور یہی جسم قبر میں پھر زندہ ہوجاتا ہے اور برابر زندہ رہتا ہے اگر کہا جائے کہ مردہ کا جسم ریزہ ریزہ ہوجائے یا آگ اسے جلا کر خاکستر کردے تو جلا دیا جانے والا کافر تو عذاب سے بچ گیا ۔ اس کے دونوں  کانوں کے درمیان گرز کیسے مارا جائے گا اور عذاب کا دور اس پر کیسے گزرے گا تو اللہ کی قدرت اور اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ سبحان اللہ ۔ اس کی قدرت سے کس کو انکار ہے لیکن قدر ت کے ساتھ ساتھ اللہ کی ایک نہ بدلنے والی سنت بھی تو ہے ۔ اس کو نظرانداز کردیا بھی تو اچھا نہیں ۔
قرآن و بخاری و مسلم کی احادیثِ نبویﷺ کے فیصلہ کےبرخلاف اَب جو یہ کہا جانے لگا ہے کہ روح نکلنے کے بعد اسی دنیاوی قبر کے مردے میں واپس لوٹا دی جاتی ہے اور یہ مردہ زندہ ہوجاتا ہے ۔ دیکھنے اور سننے لگتا ہے اور اس قبر میں اس زندہ ہوجانے والے مُردے پر عذاب او ر راحت کا پورا دَور قیامت تک گزرے گا ۔ ” (عذابِ برزخ ص ۱۰)
موصوف نے یہ بالکل سفید جھوٹ کہا ہے اس لئے کہ قرآن و بخاری و مسلم میں میت کے عذاب کا ذکر آیا ہے ۔ میت  راحت  و آرام یا عذاب کو محسوس کرتی ہے ۔عذاب سے چیختی چلاتی بھی ہے (بخاری: ۱۳۷۴)
اور قبر میں سوال و جوا ب کے وقت اعادۂ روح بھی ہوتا ہے (ابوداود : ۴۷۵۳، مسند احمد: ۱۸۵۳۴، وھو حدیث صحیح ) کیونکہ یہ انتہائی اہم سوالات ہوتے ہیں کہ جن پر میت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے ، اس لئے اس اہم موقع پر روح کو بھی حاضر  کیاجا تا ہے لیکن روح کے اعادہ کے باوجود مرنے والا میت ہی ہوتا ہے ، اس لئے کہ دو زندگیاں یعنی دنیاوی زندگی اس کی ختم ہوچکی ہے او ر قیامت کے دن کی زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی اور انسان اس وقت حالتِ موت میں ہوتا ہے یعنی میت ہوتاہے ۔ روح کے اعادہ سے زندگی ثابت نہیں ہوتی جس طرح دنیا میں سوتے وقت روزانہ انسان پر موت طاری ہوجاتی ہے اس کی روح قبض کرلی جاتی ہے اور جاگنے پر پھر اعادۂ روح ہوجاتا ہے ۔(دیکھئے سورۃ الزمر آیت ۴۲ اور اس آیت کی تفسیر بخاری: ۶۳۲۰) اور انسان جاگ  جاتا ہے ، لیکن اس سے کئی زندگیاں ثابت نہیں ہوتیں ۔ دنیاوی زندگی میں روزانہ  اعادہ ٔ روح کے باوجود بھی کئی موتیں ثابت نہیں ہوتیں بلکہ اسے ایک ہی زندگی کہا جاتا ہے ۔ موت کے بعد میت کی طرف سوال و جوا ب کے لئے اعادۂ روح ہوتا ہے تو اس سے بھی زندگی ثابت نہیں ہوتی بلکہ میت بدستور میت ہی رہتی ہے ۔
قرآن و حدیث میں عذابِ قبر اور میت کے متعلق جو کچھ بیان ہوا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی “نہ بدلنے والی سنت” ہے لیکن موصوف کا خیال ہے کہ اس کے خود ساختہ اور من گھڑت نظریات اللہ ﷻ کی نہ بدلنے والی سنت ہیں۔ ویا للعجب !

موت کا مطلب

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انسان پر موت آتی ہے تو اس کی روح کو فرشتے قبض کرلیتے ہیں یعنی روح کو بدن سے نکال لیتے ہیں۔ گویا روح اوربدن میں جدائی کانا م موت ہے ۔ مولانا عبدالرحمٰن کیلانیؒ فرماتے ہیں:
“مَاتَ:موت (ضد حیات) بمعنی کسی جاندار سے روح یا وقت کا زائل ہوجانا۔ (م۔ل) جسم سے روح کا جداہونا۔” (مترادفات القرآن مع فروق ص ۷۷۶ مکتبۃ السلام لاہور )
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ موت کی وجہ سے جسم اور روح میں جدائی ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہتا ہے اور قیامت کے دن تمام انسان زندہ ہو کر زمین سے پودوں کی طرح اُگ پڑیں گے اور روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ قیامت سے پہلے روح کو جسم کی طرف نہیں لوٹایا جاتا سوائے دفن کے وقت، کہ اس وقت سوال و جواب کے لئے روح کو جسم کی طرف لوٹایا جاتا سوائے دفن کے وقت، کہ اس وقت سوال و جواب کے لئے روح کو قبر میں پڑے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے جیساکہ صحیح احادیث میں اس کا ذکر آتا ہے اور یہ ایک استثنائی صورت ہے۔ البتہ روح کے لوٹائے جانے کے باوجود بھی میت بدستور میت ہی رہتی ہے کیونکہ ہرانسان کو دوزندگیاں اور دوموتیں دی گئی ہیں۔ اب میت کی دنیاوی زندگی ختم ہوچکی ہے اور دوسری زندگی اسے قیامت کے دن حاصل ہوگی ۔ اب میت جس حالت میں ہے یہ حالت موت ہے جیساکہ اللہ ﷻ کا ارشاد ہے:
“پھر یقیناً تم اس کے بعد ضرور میت ہوجاؤگے یعنی مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کرکے ) اٹھائے جاؤگے ” (المؤمنون : ۱۵،۱۶)
واضح رہے کہ قبر میں روح کے لوٹنے سے زندگی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ دنیا میں جب نیند کی وجہ سے انسان پر عارضی موت طاری ہوجاتی ہے اور جاگنے کی صورت میں اس کی طرف روح لوٹائی جاتی ہے جیساکہ سورۃ الزمر اور سورۃ الانعام میں مذکور ہے ۔ اور  یہ اعادۂ روح روزانہ ہی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کسی نے  اسے کئی زندگیاں قرار نہیں دیا بلکہ اسے ایک ہی زندگی سمجھا جاتا ہے لہٰذا اس مسئلے کو سمجھنے کی  کوشش کرنی چاہئے تا کہ یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے ۔ فافھم

برزخی قبر کا تصور کہاں سے آیا ؟

قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر زمین میں ہوتی ہے جسے ارضی قبر کہتے ہیں اور کسی فرضی (برزخی) قبر کا قرآن و حدیث میں کہیں  دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ لیکن موصوف اس بات پر مصر ہیں کہ قبر برزخ میں ہوتی ہے اس سلسلہ میں جب ہم نے تحقیق کی تو اس کی ایک دلیل مل گئی اور معلوم ہو اکہ برزخ میں قبر کا تصور شیعوں کے ہاں پایا جاتا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
“محمد بن یحیی، عن أحمد بن محمد بن عیسی، عن أحمد بن محمد، عن عبدالرحمن بن حماد، عن عمرو بن یزید قال: قلت لأبي عبداللہ علیہ السلام: إني سمعتک و أنت تقول: کلُّ شیعتنا فی الجنّۃ علیٰ ماکان فیھم؟ قال: صدقتک کلّھم واللہ فی الجنۃ، قال: قلت: جعلت فداک إن الذّنوب کثیرۃ کبار؟ فقال: أمّا فی القیامۃ فکلکم فی الجنۃ بشفاعۃ النبي المطاع أو وصي النبي و لکني واللہ أتخوف علیکم فی البرزخ۔ قلت: وما البرزخ؟ قال: القبر منذحین موتہ إلی یوم القیامۃ.”
عمرو بن یزید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام شیعہ جنت میں ہیں۔ المختصر یہ کہ امام صاحب نے فرمایا کہ جنت میں تمام شیعہ رسول اللہ ﷺ یا وصیٔ رسول ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جائیں گے لیکن اللہ کی قسم میں تمہارے حال پر ڈرتا ہوں، برزخ میں۔  عرض کیا : برزخ کیا ہے ؟ فرمایا : “وہ قبر ہے جو موت کے وقت سے لے کر قیامت کے دن تک ہے ” (الفروع من الکافی ج۳ ص ۲۴۲ طبع تہران)
معلوم ہوا کہ برزخ میں قبر کا تصور ملت جعفریہ کے ہاں پایا جاتا ہے جسے ڈاکٹر موصوف نے وہاں سے اسمگل کرکے عام مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش کی ہے اور برزخی قبر کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دے دیا ۔غور کیجئے کہ شیعیت کے لئے کیسے کیسے ہاتھ کام کر رہے ہیں ؟ فاعتبروا یا أولی الأبصار
واضح رہے کہ دنیاوی قبر، دنیاوی جسم، برزخی قبر اور برزخی جسم کی اصطلاحات موصوف کی ایجاد کردہ ہیں اور ان سے جہاں قرآں و حادیث کا صاف انکار لازم آتا ہے وہاں یہ اصطلاحات بدعات کے زمرے میں بھی آتی ہیں اور انہیں ہم عثمانی بدعات کہہ سکتے ہیں اور یہ سب ((کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار)) کا مصداق ہے۔

برزخ کیا ہے؟

:برزخ مرنے والوں اور دنیاوالوں کے درمیان ایک آڑ ہے اور بس اور برزخ کسی جگہ یا مقام کا نام نہیں ہے ۔ اللہ ﷻ کا ارشاد ہے
﴿وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
“اور ان مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) ہے قیامت کے دن تک ” (المؤمنون : ۱۰۰)
یہ برزخ (آڑ) قیامت کے دن تک قائم رہے گی قیامت کے دن یہ آڑ یا پردہ اٹھ جائے گا اور انسان وہاں ہر چیز کا مشاہدہ کرے گا ۔ (قٓ :۲۲) کیونکہ غیب وہاں مشاہدہ میں بدل جائے گا۔
امت مسلمہ میں سلف صالحین سے لے کر موجودہ دور تک کوئی شخص بھی برزخی قبر کے نام سے واقف نہیں تھا۔ موصوف ہی نے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کی طرح پہلی مرتبہ اس نام کا انکشاف کیا ہے !!!! فافھم

تناسخ کیا ہے؟

وارث سرہندی لکھتے ہیں : “تناسخ: روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں آنا ۔ (ہندوؤں کے عقیدہ کے مطابق) بار بار جنم لینا، جون بدلنا، چولا بدلنا، آواگون۔”
(جامع علمی اردو لغت ص ۴۶۹) نیز ملاحظہ فرمائیں : رابعہ اردو لغت جدید (ص ۲۶۰)
سید قاسم محمود صاحب تناسخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : “آواگون! جو ن بدلنا بقول مولانا اشرف علی تھانو یایک بدن سے دوسرے بدن کی طرف نفس ناطقہ کا انتقال۔”
ہندوستا ن میں اعتقاد کےلو گ عام ہیں۔ بقول البیرونی”جس طرح شہادت بہ کلمۂ اخلاص مسلمانوں کے ایمان کا شعار ہے ، تثلیت علامت نصرانیت ہے اور سبت منانا علامت یہودیت ، اسی طرح تناسخ ہندو مذہب کی نمایاں علامت ہے ” موصوف مزید لکھتے ہیں:”عقیدہ تناسخ روح کے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے معنی میں متعدد شیعی فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے ” موصوف آخر میں لکھتے ہیں: “تناسخ کا عقیدہ ہندومت اور مسلمانوں کے علاوہ بدھ مت ، قدیم یونانیوں اور دنیا کے دیگر مذاہب و اقوام کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اس عقیدے کے مخالف ہیں اور واضح طور پر اس کی تردید کرتی ہیں” (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص ۵۳۴)
برزخی قبر کی طرح تناسخ کا عقیدہ بھی ہندوؤں کے علاوہ متصوفین یا مسلمانوں کے بعض فروقوں شیعہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے ڈاکٹر موصوف نے اس عقیدے کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا ۔
فاعتبرو ا یا أولی الأبصار

حافظ ابن حزم ظاہری ندلسیؒ کا فتویٰ عقیدۂ تناسخ کے حاملین پر

حافظ ابن حزمؒ نے اصحاب التناسخ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا تمام اہل اسلام کے نزدیک کفر ہے ۔ اور انہوں نے اس مسئلہ کو عقیدۂ توحید کے عنوان کے تحت ذکرکیا ہے چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
’’۴۳۔ مسألۃ: و أن الأنفس حیث رآھا رسول اللہ ﷺ لیلۃ أسریٰ بہ أرواح أھل السعادۃ عن یمین آدم علیہ السلام، و أرواح أھل الشقاء عن شمالہ عند سماء الدنیاء لا تفني ولا تنتقل إلیٰ أجسام أخر، لکنھا باقیۃ حیۃ حساسۃ عاقلۃ في نعیم أونکد إلیٰ یوم القیامۃ فترد إلیٰ أجسادھا للحساب و للجزاء بالجنۃ أو النار؟ حاشی أرواح الأنبیاء علیھم السلام و أرواح الشھداء فإنھا الآن ترزق و تنعم۔ ومن قال بإنتقال الأنفس إلی أجسام أخر بعد مفارقتھا ھٰذہ الأجساد فقد کفر. برھان ھٰذا ما حدثناہ عبداللہ بن یوسف: ثنا أحمد بن فتح: ثنا عبدالوھاب بن… کان من أھل النار فالنار؛ ثم یقال لہ: ھذا مقعدک الذي تبعث إلیہ یوم القیامۃ. ففي ھذا الحدیث إن الأرواح حساسۃ عالمۃ ممیزۃ بعد فراقھا الأجساد. وأما من زعم أن الأرواح تنقل إلی أجساد أخر فھو قول أصحاب التناسخ: وھو کفر عند جمیع أھل الإسلام. وباللہ تعالی التوفیق‘‘
ارواح نہ تو فنا ہوتی ہیں اور نہ ہی دوسرے جسموں (برزخی) کی طرف منتقل ہوتی ہیں وہ باقی رہتی ہیں ، زندہ رہتی ہیں آرام و آسائش اور اذیت و تکلیف کو برداشت کرنے میں حساس و عاقل  ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا پھر اچھے اعمال اور جنت و جہنم کے بدلے کے لئے ان کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے سوائے انبیائے کرام علیہم السلام اور شہدائے کرام کی ارواح کے ، کہ وہ اب بھی رزق اور نعمتوں سے سر شار ہیں اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ روحیں ان جسموں سے جدا ہونے کے بعد دوسرے جسموں میں منتقل کردی جاتی ہیں (یا بالفاظ دیگر ان ارواح کو برزخی اجسام دیئے جاتے ہیں) تو یقیناً یہ کفر ہے او راس پر یہ دلیل ہے۔” (المحلّٰی ۲۴/۱۔ ۲۶)
اس کے بعد انہوں نے سیدنا انسؓ کی معراج کے سلسلہ والی مشہور حدیث جو انہوں نے ابو ذر غفاریؓ سے روایت کی ہے ، بیان کی ہے ، او رآخر میں ایک اور حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں:
“یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ارواح اپنے جسموں سے مفارقت کے بعد  حساس ہوتی ہیں جانتی اور پہچانتی ہیں اور جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ روحیں دوسرے جسموں میں منتقل ہوجاتی ہیں تو یہ قول اصحاب التناسخ کا ہے اور تمام اہل اسلام کی نگاہ میں (ایسا عقیدہ رکھنا) کفر ہے ” (ایضاً)

قہرِ رحمانی برفرقۂ عثمانی

برزخی فرقہ کے باطل ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ ﷻ نے ان کے درمیان زبردست اختلافات پیدا کردئیے ہیں اور یہ کئی تکفیری گروہوں اور فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ہم عقیدہ ہونے کے باوجود بھی یہ ایک دوسرے پر مرتد ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نہ تو سلام کرتےہیں اور نہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں بلکہ خروج کرنے والے فرقہ نے شروع میں اپنا امیر بدرالزماں صدیقی کو بنایا تھا لیکن اس نے جب کہیں مخالفین کی مسجد میں ایک نماز ادا کرلی تو اسے امارت سے فارغ کردیا گیا اور یہ تعصب کی انتہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تکفیری فرقے سخت تعصب کا شکار ہیں اور ان فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف پمفلٹ بازی بھی کی ہے اور اس سے پہلے بھی اس فرقے نے کئی فرقیاں جنم دی ہیں جن کی کوکھ سے منکرینِ حدیث پیدا ہوچکے ہیں اور وہ اس گندے عقیدہ کی دعوت بھی لوگوں کو دے رہے ہیں۔ یہ یقیناً ان برزخیوں پر اللہﷻ کا ایک عذاب ہے ۔کاش یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیتے اور اس کی دلیل پر اللہ ﷻ کا ارشاد ہے :
“کہو وہ (اللہ) اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا تمہیں گروہوں میں (تقسیم کرکے) الجھا دے اور تمہیں ایک دوسرے کی طاقت (کا مزہ) چکھائے ۔ دیکھو کس طرح ہم اپنی آیات بار بار بیان کررہے ہیں شاید یہ سمجھ لیں ” (الانعام : ۶۵)
اب برزخی حضرات اس عذاب کے بعد کیا اوپر اور نیچے کے عذاب کے منتظر ہیں؟ یا وہ اس جہالت سے توبہ کرکے قرآن و حدیث کی طرف پلٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

مختصر المختصر

۱:        ڈاکٹر موصوف نے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۴۰ کا انکار کیا جس میں ہے :”کافر کی روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے” اور اس آیت کے معنی میں تحریف کی بھی زبردست کوشش کی ہے ۔ نیزاس آیت کا مذاق بھی اڑایا ہے ۔ دیکھئے (عذاب برزخ ص ۳۳)
۲:        موصوف نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں سخت گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اور آپ ﷺ کی سخت توہین بھی کی ہے ۔ یعنی آپ پر “بحرانی کیفیت” طاری ہونے کا الزام لگایا ہے ۔دیکھئے (عذابِ برزخ ص ۲۰)
۳:       موصوف نے رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرامؓ میں سے (۱) سیدنا عمروبن العاصؓ کو بدحواسی کی حالت میں کفر پر مرنے والا قرار دیا ہے اور (۲) بریدہ اسلمیؓ اور ان دونوں صحابہ پر دبے الفاظ میں کفر کے فتوے داغے ہیں ۔ (نعوذ باللہ من ذالک)۔ (عذابِ برزخ ص ۱۸۔۱۹)
۴:       موصوف نے اس امت کے جم غفیر یعنی تمام محدثین کرام اور پوری امتِ مسلمہ پر کفر کے کھلے اور واضح فتوے داغے ہیں۔ (عذابِ برزخ ص ۲۶) اور یہ فتوے پلٹ کر ان پر چسپاں ہوچکے ہوں گے۔ إن شاء اللہ تعالیٰ
۵:       موصوف نے اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے احادیث کو نقل کرنے میں قطع و برید سے بھی کام لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے نظریہ سے ٹکراتی ہے ، اس کے اہم الفاظ سرے سے نقل ہی نہیں کرتے۔ دیکھئے (عذابِ برزخ ص ۱۷۔۱۸)
الغرض آپ جس قدر بھی غور کریں گے تو آپ کو موصوف کی شخصیت دھوکا و فریب جھوٹ سے مزین کفر کی مشین گن اور عجمی سازش معلوم ہوگی ۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار

قارئین سے ایک درخواست

اس مضمون کو پڑھ کر اسے دوسرے بھائیوں تک پہنچانے کا انتظام فرمائیں کیونکہ فتنہ عام ہوتا جارہا ہے اور لوگ منکرین حدیث بنتے جارہے ہیں لہٰذا اس فتنہ کا سدباب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ اسے ہزاروں کی تعداد میں شائع کرکے متاثرین تک پہنچائیں جو لوگ شائع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ فوٹو اسٹیٹ کرکے اسے پھیلائیں اور کتاب “عذابِ قبر کی حقیقت” کو بھی شائع کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔
۲:        عذابِ قبر کے موضوع پر ہماری کتاب “عذابِ قبر کی حقیقت ” او ردیگر لٹریچر کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔ ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ تحریر اب تک 46 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 2 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply