دوغیر ثابت قصے

مصنف : الشیخ ابوعبدالرحمٰن الفوزی
مترجم : محمد صدیق رضا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک شادی (کی تقریب ) کا قصہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے کبھی اس چیز کا ارادہ نہیں کیا جس کا اہل جاہلیت ارادہ کرتے تھے۔ زندگی میں دو بار کے علاوہ، دونوں ہی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔ ایک دن میں نے اپنے ایک قریشی جوان ساتھی سے کہا:، جو بالائی مکہ میں میرے ساتھ اپنی بکریا ں چراتا تھا : تم میری بکریوں کا خیال رکھو، میں آج رات مکہ میں جاگ کر گزاروں گا جیسا کہ نوجوان جاگتے رہتے ہیں، تو میرے ساتھی نے کہا: جی ہاں، ٹھیک ہے۔ پھر میں نکلا، جب میں مکہ کے گھروں میں سے ایک قریبی گھر کے پاس پہنچا پس میں نے گانے بجانے کی آواز سنی تو میں نے کہا: یہ کیا ہے ؟ انہوں نے بتلایاکہ فلاں قریشی آدمی کی فلاں عورت سے شادی ہوئی ہے۔ میں اس گانے اور آواز کی طرف مائل ہوا تو مجھ پر نیند غالب آگئی اور مجھے کسی چیز نے نہیں جگایا سوائے سورج کی تپش کے، پھر میں لوٹ گیا تو میں نے اس قسم کی آوازیں سنیں اور مجھ سے وہی کہا: گیا جو پہلے کہا: گیا تھا۔ میں اس آواز کی طرف مشغول ہوا ہی تھا کہ مجھ پر نیند غالب آئی میری آنکھ لگ گئی اور مجھے نہیں جگایا مگر سورج کی تپش نے پھر میں اپنے ساتھی کی طرف لوٹ گیا، اس نے کہا: کہ آپ نے کیا کیا ؟ میں نے بتلایا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم اس کے بعد دوبار ہ کبھی میں اس کا اراد ہ نہیں کیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔

یہ منکر روایت ہے۔
تخریج : حاکم [ج4ص 245] دیلمی [مسند الفردوس ج 4 ص 90] بزار [مسند البزارج 2 ص 241] ابن راہویہ [المسند بحوالہ المطالب العالیہ ق 12/ط] الفاکہی [تاریخ مکہ ج3 ص 21] ابن جریر [التاریخ ج 1 ص 520] ابن حبان [صحیح ابن حبان ج 8 ص 56 ح 6239 دوسرا نسخہ : 6272] ابونعیم : [دلائل النبوة ص 186] بیہقی [دلائل النبوۃ ج 2ص 133] بخاری [التاریخ الکبیر ج 1ص 130] اور ابن اسحٰق نے [السيرة ص 58] میں محمد بن عبدالله بن قيس بن مخرمة عن الحسن بن محمد بن على عن أبيه عن جده على بن أبى طالب کی سند سے یہ قصہ بیان کیا۔

جرح : اس کی سند ضعیف ہے اس میں محمد بن عبداللہ بن قیس بن مخرمہ مجہول ہے۔

حوالہ : دیکھئے ابن ابی حاتم کی الجرح وا لتعدیل [ج7 ص 303] تقریب التہذیب [6044 وقال : مقبول] اور تہذیب الکمال [ج25 ص 533]
حاکم نے کہا: کہ ”یہ حدیث صحیح ہے “ اور ایسا نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے کہا: اگرچہ ذہبی نے ان کی موافقت بھی کی ہے جیسا کہ اس کی سند پر کلام میں گزرا ہے۔
اور ابن کثیر نے البدایۃ النہایۃ [ج2 ص 287] میں اس حدیث کو لانے کے بعد فرمایا : یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔ [دیکھئے ص 18]

ایک شاہد : اس کا ایک شاہد ہے : طبرانی نے المعجم الصغیر [ج2 ص 138] میں محمد بن إسحٰق بن إبرهيم الفارس : حدثنا أبى : حدثنا سعد بن الصلت : حدثنا مسعر ابن كدام عن العباس بن خديج عن زياد بن عبدالله العامري عن عمار بن ياسر کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔
علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد [ج8 ص 226] میں فرمایا : اسے طبرانی نے روایت کیا ہے تینوں کتابوں [المعجم الکبیر، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر] میں اور اس کی سند میں کچھ ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں پہچانتا الخ لہٰذا اس کی سند ساقط ہے اور البانی نے فقہ السیرۃ [ص 95] میں اپنی تعلیق میں فرمایا رحمہ الله اس کی سند میں ایک جماعۃ ہے جسے میں نہیں جانتا۔

عرضِ مترجم : صحیح مسلم شریف میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ اسی دوران جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور آپ کو سیدھا الٹا دیا پھر (سینہ چاک کر کے ) آپ کے بابرکت قلب کو نکالا اور اس کو چیرا پھر اس میں خون کی ایک پھٹکی نکالی اور فرمایا کہ یہ شیطان کا حصہ تھا۔ پھر سونے کے ایک طشت پر آبِ زمزم سے آپ کے مبارک دل کو دھویا پھر اسے جوڑا اور اپنے مقام پر رکھ دیا۔ بچے یہ واقعہ دیکھ کر دوڑتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (رضاعی) والدہ کے پاس پہنچے اور کہا: کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دیا گیا۔ (یہ سن کر ) وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی رنگت بدلی ہوئی تھی، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینہ میں سلائی کے نشان دیکھا کرتا تھا۔ [صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب الاسراء، ج 1ص 92 ح 163 ]
↰ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی خاص خفاظت میں تھے، لہو و لغو امور کی طرف ایک لمحہ بھی آپ کا دھیان نہیں گیا، آپ ہمیشہ معصوم رہے جیسا کہ بکثرت دلائل سے ثابت ہو تا ہے۔

تنبیہ : محمد بن عبداللہ بن قیس والی یہ سند حسن ہے۔ محمد بن عبداللہ بن قیس بن مخرمہ کو ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے ثقہ قرار دیا ہے اور ایک جماعت نے اس سے روایت لی ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث ہے۔ فوزی صاحب کا اس روایت کو ضعیف قرار دینا غلط ہے بلکہ حق یہی ہے کہ یہ روایت حسن ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک قصہ

ابوجعفر سے روایت ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ وہ چھوٹی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ بڑی ہوگئی ہے، پس آپ بار بار اس سلسلے میں گفتگو فرماتے تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کہ ہم انہیں آپ کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان [علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی] کی پنڈلی پر سے کپڑا اٹھایا، تو اس نے کہا: کپڑا چھوڑ دیجئے اگر آپ امیر المؤمنین نہ ہوتے تو میں آپ کی آنکھیں پھوڑ ڈالتی۔

تخریج : یہ روایت سعید بن منصور [سنن سعيد بن منصور ج 1ص 147 ح 521 ] اور عبدالرزاق [ مصنف عبدالرزاق ج 6 ص 163 ح 10352] نے سفيان عن عمرو بن دينار عن أبى جعفر قال کی سند سے بیان کی ہے۔

جرح : اس کی سند انقطاع (منقطع ہونے ) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس لئے کہ ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔ حوالے کے لئے دیکھئے ابن ابی حاتم کی المراسیل [149]

اور عبدالرزاق نے المصنف [ج6 ص163 ح 10353] میں ابن جريج قال : سمعت الأعمش يقول : کی سند سے یہ قصہ بیان کیا ہے۔ اس کی سند بھی سابقہ سند کی طرح ضعیف ہے اس لئے کہ سلیما ن بن مہران الاسدی کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔

عرضِ مترجم :
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر غیور صحابی قطعاً ایسا نہیں کر سکتے اور معلوم نہیں کہ ابوجعفر نے کس سے یہ بات سنی تھی ؟
باقی یہ بات درست ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ مانگا اور علی رضی اللہ عنہ نے اسے قبول بھی فرمایا اور اپنی لختِ جگر کا نکا ح امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ سے کر دیا جیسا کہ بالاتفاق مروی ہے۔

 

یہ تحریر اب تک 6 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply