اُم المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں تو آپ ﷺ نے پہلے مجھ سے پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا:”میں تم سے ایک بات کہتا ہوں لیکن تم جواب دینے میں جلدی نہ کرنا جب تک اپنے والدین سے مشورہ نہ کرلو” آپ کو علم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے پھر آپ ﷺ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لَّاَزْوَاجِکَ﴾إلخ تو میں نے کہا: میں اپنے والدین سے کیا رائے لوں گی۔ میں تو اللہ، اس کا رسول ﷺ اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔ پھر نبی کریم ﷺ کی باقی ازواج نے بھی ایسا ہی کیا جو میں نے کیا (صحیح البخاری :۴۷۸۶) سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے ہمیں اختیار دیا تھا (کہ آپ ﷺ کے ساتھ رہیں یا طلاق لے لیں) پس ہم نے اللہ اور اس کے رسو ل (ﷺ) کا انتخاب کیا لہذا دئیے گئے اختیار کو طلاق نہیں سمجھا گیا (صحیح البخاری :۵۲۶۲)
٭ بیویوں کو اختیار دینا کہ “چاہے تو نکاح میں رہ چاہے تو (بذریعہ طلاق احسن طریقے سے) جدا ہوجا” جائز ہے۔
٭ اُمہات المؤمنینؓ کی عظمت و شان کا بیان کہ انہوں نے دنیا اور اس کی زینت کے مقابلہ میں اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور آخرت کا انتخاب فرمایا۔
٭ سنت کے عین مطابق عمل صالح اجر عظیم کا مستحق بناتا ہے ۔
٭ جس قدر زیاد ہ علم اور منزلت و مرتبت عطا کی گئی ہوگی اُسی قدر پکڑ زیادہ سخت ہوگی کیونکہ ایسے حضرات صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ پورا معاشرہ (ان کی نیکی یا گناہ سے) متاثر ہوتا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب