دفاع حدیث: اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے 

           تحریر: حافظ ابویحییٰ نوپوری

دلیل نمبر ۱:

[arabic-font]

عن جابر بن سمرۃ: أن رجلاً سال رسول اللہ ﷺ : أأتوضأ من لحوم الغنم؟ قال : ان شئت فتوضا، وان شئت فلا توضا: قال أتوضا من لحوم الابل؟ قال: نعم ، فتوضا من لحوم الابل، قال: أصلی فی مرابض الغنم؟ قال: نعم ، قال أصلی فی مبارک الابل؟ قال: لا.

[/arabic-font]

                سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا ، کیا میں بکری کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا : “اگر چاہو تو وضو کر لو اور اگر نہ چاہو تو نہ کرو “، اس نے عرض کیا ، کیا میں اونٹ کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا : “ہاں ، اونٹ کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کرو”، عرض کی ، کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ نے فرمایا : “ہاں” ، عرض کی ، کیا میں اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لوں ؟ فرمایا ، “نہیں” ( صحیح مسلم ح۳۶۰)

دلیل نمبر ۲:

[arabic-font]

            عن البراءبن عازب قال : سئل رسول اللہ ﷺ عن الوضوء من لحوم الابل، فقال : توضؤوا منھا، وسئل عن الوضوء من لحوم الغنم، فقال: لا توضؤوا منھا.

[/arabic-font]

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اونٹ کے گوشت ( کو کھانے) سے وضو کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ نے فرمایا : ” اس سے وضو کرو”، پھر آپ سے بکریوں کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا : ” اس سے وضو نہ کرو “۔ ( سنن ترمذی ۸۱، سنن ابی داود ۱۸۴، سنن ابن ماجہ ۴۸۴، وسند صحیح ) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان، امام ابن اجارود ، امام احمد بن حنبل ، اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے صحیح کہا ہے ۔ مسند ابی دائود الطیالسی اور سنن کبری بیہقی میں اعمش نے سماع کی تصریح کی ہے ۔

                دلیل نمبر ۳:

[arabic-font]

                عن جابر بن سمرۃ قال: کنا نتوضأ من لحوم الابل ولا نتوضأ من لحوم الغنم.

[/arabic-font]

                سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ( صحابہ کرام ) اونٹ کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کرتے تھے ، لیکن بکریوں کے گوشت سے وضو نہیں کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۴۶/۱ ، ح۵۱۷، وسند صحیح ) سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں مذکورہ مرفوع حدیث بھی بیان کی ہے اور مسلم قاعدہ ہے کہ راوی حدیث اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے ، راوی حدیث صحابہ کا عمل بیان کر رہے ہیں ، گویا کہ اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔

ائمہ محدثین اور فقہائے کرام کی آراء

۱٭         امام ترمذی رحمہ اللہ (۲۰۰-۲۷۹) یوں باب قائم کرتے ہیں :

[arabic-font]

باب ماجاء فی الوضوء من لحوم الابل.

[/arabic-font]

 “اونٹ کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کے بارے میں روایات کا بیان۔”

 نیز لکھتے ہیں:

[arabic-font]

وھو قول أحمد و اسحاق، وقد روی عن بعض أھل العلم من التابعین و غیرھم: انھم لم یروا الوضوء من لحوم الابل، وھو قول سفیان الثوری و أھل الکوفۃ.

[/arabic-font]

” امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ کا یہی مذہب ہے  ( کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) البتہ بعض اہل علم تابعین وغیرہم سے مروی ہے کہ وہ اونٹ کے گوشت (کو کھانے) سے وضو (کا واجب ہونا) خیال نہیں کرتے تھے، یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا مذہب ہے ۔” ( جامع ترمذی تحت حدیث ۸۱)

۲٭        امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ( جامع ترمذی تحت حدیث ۸۱)

۳٭        امام ابوداود رحمہ اللہ (۲۰۲-۲۷۵) کی تبویب یوں ہے: باب الوضوء من لحوم الابل.

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کا بیان ( سنن ابی داود ۱۸۴)

۴٭        امام ابن ماجہ  رحمہ اللہ(۲۰۹-۲۷۳)رقمطراز ہیں :باب ماجاء فی الوضوء من لحوم الابل.

 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کی روایات کا بیان ( سنن ابن ماجہ ۴۹۴)

۵٭        امام الائمہ ابن خزیمہ (۲۲۳-۳۱۱) یوں تبویب فرماتے ہیں :

[arabic-font]

                باب الأمر بالوضوء من أکل لحوم الابل.

[/arabic-font]

 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کے حکم کا بیان ( صحیح ابن خزیمہ ۲۱/۱ ، ح۳۱)

۶٭         امام ابن حبان (م۳۰۴)  لکھتے ہیں :

[arabic-font]

                ذکر الأمر بالوضوء من أکل لحم الجزور ضد قول من نفیٰ عنہ ذالک.

[/arabic-font]

 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کے حکم کا بیان ، بخلاف اس شخص کے جو اس کی نفی کرتا ہے۔ ( صحیح ابن حبان ۴۳۱/۳ ، ح۱۱۵۴)

۷٭        حافظ ابن حزم (م۴۵۶) لکھتے ہیں :

[arabic-font]

                واکل لحوم الابل نیئۃ و مطبوخۃ أو مشویۃ وھو یدری أنہ لحم جمل أو ناقۃ فانہ ینقض الوضوء.

[/arabic-font]

اونٹ کا گوشت کھانا ، خواہ کچا ہو یا پکا یا بھونا ہوا ہو ، وضو توڑ دیتا ہے، بشرطیکہ کھانے والا جانتا ہو کہ یہ اونٹ یا اونٹنی کا گوشت ہے ۔ ( المحلی لابن حزم ۲۴۱/۱ )

۸٭        امام بیہقی (م۴۵۸) کی تبویب حسب ذیل ہے : باب التوضی من لحوم الابل.

 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کا بیان (  السنن  الکبری للبیہقی  ۱۵۹/۱ )

نیز مخالفین کے بودے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

[arabic-font]

وبمثل ھٰذا لا یترک ماثبت عن رسول اللہ ﷺ.

[/arabic-font]

“اس جیسے ( غیر معتبر دلائل) کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ سے ثابت شدہ حدیث کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔” ( السنن الکبری للبیہقی ۱۵۸/۱ ، ۱۵۹)

۹٭         امام ابن المنذر (م۳۱۸) فرماتے ہیں :

[arabic-font]

والوضوء من لحوم الابل یجب، لثبوت ھٰذین الحدیثین وجودۃ اسنادھما.

[/arabic-font]

ان دونوں حدیثوں کے ثبوت اور ان کی سند کی عمدگی کی بناء پر اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو واجب ہو جاتا ہے ۔ ( الاوسط لابن المنذر ۱۳۸/۱ )

۱۰٭       حافظ نووی لکھتے ہیں :

[arabic-font]

                وھٰذا المذھب أقوی دلیلاً.

[/arabic-font]

“یہ مذہب ( کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) دلیل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے ۔” ( شرح مسلم از نووی ۱۸۵/۱ )

[arabic-font]

                تلک عشرۃ کاملۃ.

[/arabic-font]

                          “یہ پوری  دس گواہیاں ہیں۔”

مذہبِ احناف اور اس کے دلائل

قارئین  کرام !آپ رسول اکرم ﷺ کے واضح فرامین، صحابہ کے عمل اور محدثین کی تبویب و آراء اور فتاویٰ جات سے اندازہ لگا چکے ہیں کہ یہ مسئلہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، اس کے برعکس ہمارے تقلیدی بھائی اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے قائل نہیں ، ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ، حسبِ روایت ِ سابقہ اس مسئلہ میں بھی وہ صحیح و صریح احادیث پر تاویلات کے وار کر کے اپنے مذہبِ شکستہ کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

فائدہ:

جناب  محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں:

                “امام نووی شرح مسلم (۱۵۸/۱) میں لکھتے ہیں: جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ لحوم ابل کے استعمال کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا اور لکھتے ہیں کہ خلفاء اربعہ کا یہی مسلک تھا۔ ”             (خزائن السنن : ۱۶۷/۱)

صفدر صاحب کو “جمہوریت” کے اتنے شیدائی ہیں کہ  اس سلسلے میں ذرا سا تامل بھی گوارا نہیں کرتے، ادھر کسی نے جمہور کا تذکرہ کیا، ادھر جھٹ سے صفدر صاحب نے لیا ، حالانکہ اولاً اکثر اوقات فقہ حنفی کے مسائل جمہور کے منافی ہوتے ہیں، دفاع حدیث کے سلسلے میں ہم جو تحقیق پیش کرتے رہتے ہیں،  اسی پر غور کرنے سے حقیقتِ حال منکشف ہوجاتی ہے،کئی مقامات پر جمہور تو درکنار، اجماع کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔

ثانیاً جمہور کے خلاف سنت بات نہیں مانی جاسکتی ، اسی لئے اہلحدیث کے ہاں مسائل میں جمہور کی موافقت ضروری نہیں ، دین محمد ﷺ کے فرامین کا نام ہے ، نہ کہ جمہور کی آراء کا، اگر ایک آدمی بھی محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق عمل کرتا ہے ، تو اسی کی بات کو معتبر ہوگی ، خود جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

[arabic-font]

                فما علیٰ أبی حنیفۃ من ملام اذا کان متمسکا بالحدیث الصحیح أو الحسن ان خالفہ الناس فافھم!

[/arabic-font]

“ابو حنیفہ پر اس وقت کوئی ملامت نہیں بنتی جب وہ صحیح یا حسن حدیث پر عمل کریں، اگرچہ دوسرے لوگ (محدثین) ان کی مخالفت ہی کریں ، اس بات کو سمجھ لینا چاہیے۔”       (اعلاء السنن: ۱۷۴/۱)

ثالثاً غور کرنے سے پتا چلے گا کہ اس مسئلہ میں بھی جمہور موافقِ حدیث ہیں ، حافظ نووی کی یہ بات صحیح نہیں کہ جمہو رکے ہاں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، نیز یہ کہ خلفاء اربعہ کا یہی مذہب تھا۔

                احناف کو چاہیے کہ خلفائے اربعہ تو کجا، کسی ایک خلیفہ راشد سے بھی باسند صحیح یہ بات ثابت نہیں کردیں۔

[arabic-font]

                ھانوا برھانکم ان کنتم صادقین!.

[/arabic-font]

حافظ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

[arabic-font]

                واما من نقل عن الخلفاء الراشدین أو جمھور الصحابۃ انھم لم یکونوا یتوضّئوون من لحوم الابل ، فقد غلط علیھم.

[/arabic-font]

“تو جس آدمی نے خلفائے راشدین یا جمہور صحابہ کرام سے اونٹ کے گوشت سے وضو نہ کرنا نقل کیا ہے ، اس نے ان کی طرف غلط بات منسوب کی ہے ۔”                (القواعد النورانیۃ:۹)

کاش کہ صفدر صاحب کچھ غور فرماتے ۔

امام مالک اور امام شافعی سے بھی باسند صحیح یہ مذہب ثابت نہیں ، اگر بعض الناس میں جرأت ہے تو آزمائیں ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اس مذہب کو امام ابو حنیفہ سے بھی باسند صحیح ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔

اس کے برعکس ہم نے ایک درجن سے زائد ائمہ اور محدثین سے باسند صحیح یہ ثابت کیا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، کوئی ان کی سند پر اعتراض تو کرے!۔

                دلیل احناف:

                جناب محمد سرفراز احمد خاں صفدر دیوبند ی حیاتی لکھتے ہیں:

                “امام نووی نے شرح مسلم (۱۵۸/۱) میں یہ دلیل دی ہے کہ ترک الوضوء مما مست النار کی حدیث اس کی بھی ناسخ ہے ، لیکن ساتھ ہی لکھتے ہیں کہ لحوم ابل والی روایت مخصوص ہے اور یہ عام ہے تو اس صورت میں نسخ مشکل  ہے۔”                         (خزائن السنن : ۱۶۷/۱)

تبصرہ:

                یاد رہے کہ حافظ نووی نے یہ دلیل نہیں دی  بلکہ لحوم ابل سے وضو واجب قرار نہ دینے والوں سے نقل کی ہے ، کیونکہ وہ خود تو لکھتے ہیں کہ یہ دلیل بنتی ہی نہیں، کیونکہ وضو کرنے والی روایت خاص ہے اور عام الفاظ سے خاص کا نسخ مشکل ہے ۔

پھر صفدر صاحب نے بھی لکھا ہے:

                “لیکن جمہور کی طرف سے پیش کی گئی یہ دلیل صحیح معلوم نہیں ہوتی۔۔۔۔” (خزائن السنن صفدر : ۱۶۷/۱)

                یہ بعض الناس کی دلائل کی کل کائنات تھی ، جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ، اب جبکہ وہ دلیل سے عاری ہوگئے تو انہیں اثبات وضو والی احادیث میں تاویلات ِ فاسدہ کرکے ان کا جواب دینے کی سوجھ گئی ، آیئے ان کی تاویلات اور ان کے شافی و کافی جوابا ت ملاحظہ ہوں:

تاویل نمبر ۱:

                “مولانا عثمانی فتح الملہم (۴۹۰/۱) میں ان روایات کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ان حدیثوں میں وضو وجوب کے لئے نہیں، کیونکہ مجمع الزوائد (۲۰۵/۱) میں حضرت سمرۃ سوائی کی روایت آتی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ہم نے کہا کہ انا أھل بادیۃ و ماشیۃ فھل نتوضأ من لحوم الابل والبانھا قال : نعم أو کما قال.  علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: اسنادہ حسن ان شاء اللہ تعالیٰ.

                مولانا عثمانی فرماتے ہیں کہ البانِ اہل سے وضو لازم نہ ہونا سب کا اتفاقی مسئلہ ہے  تو اسی طرح لحوم ابل کا بھی یہی حکم ہو ااور مبارکپوری تحفۃ الاحوذی (۸۴/۱) میں اور مولانا سہارنپوری بذل المجہود (۱۱۲/۱) میں لکھتے ہیں کہ البان ابل کے استعمال سے وضو کے نہ ہونے پر اجماع امت ہے ، حافظ ابن حجر فتح الباری (۱۵۰/۱) میں طبرانی کا حوالہ سے لکھتے ہیں کہ آپ علیہ الصلوۃ  و السلام نے فرمایا : مضمضوا من اللبن۔۔۔ تو جیسے ان روایتوں میں شربِ لبن کے بعد مضمضہ لازم اور ضروری نہیں صرف مستحب ہے ، اسی طرح لحوم ابل کے بعد ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے ۔۔۔” (خزائن السنن از صفدر : ۱۶۹/۱۔ ۱۶۸)

تبصرہ:

                امام ابن حبان فرماتے ہیں: ذکر البیان بأن الأمر بالوضوء مما مست النار منسوخ خلالحم الابل و حدھا. “اس بات کا بیان  کہ آگ سے پکی ہوئی چیزوں کے استعمال سے وضو کا حکم منسوخ ہے ، سوائے اونٹ کے گوشت کے ۔” (صحیح ابن حبان : ۴۳۱/۳)

نیز لکھتے ہیں:

[arabic-font]

                ذکر خبر قدیوھم غیر المتبحر فی صناعۃ العلم أنہ ناسخ لأمرہ بالوضوء من لحوم الابل.

[/arabic-font]

                “اس حدیث (ترک الوضوء مما مست النار) کابیان جو کہ علمی میدان میں ناقص آدمی کو یہ وہم دلاتی ہے کہ آپ کا اونٹ کے گوشت کھانے سے وضو کا حکم اس سے منسوخ ہوگیا ہے۔”              (صحیح ابن حبان: ۴۱۴/۱)

تبصرہ:.

                صفدر صاحب نے اپنے مولانا عثمانی کے حوالہ سے اور عثمانی صاحب نے خود استدلال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے  کہ لحوم الابل کے استعمال سے وضو مستحب ہے ،واجب نہیں حالانکہ:

۱٭         جس روایت کو بنیاد بنا کر صفدر صاحب اور عثمانی صاحب نے استدلال کیا ہے ، وہ سخت “ضعیف” بلکہ “موضوع” (من گھڑت) درجے کی ہے ، اس کا راوی سلیمان بن داود الشاذ کو نی جمہور کے نزدیک “کذاب و متروک” ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس راوی کی”تضعیف” پر صفدر صاحب احسن الکلام (۲۰۴/۱) میں پورا زور صرف کرچکے ہیں ، لیکن یہاں ان کا حافظہ جواب دے گیا او راس کی روایت سے استدلال کرلیا ، ایسے کذاب و متروک اور خبیث راویوں کی روایت سے استدلال مقلدین ہی کا خاصہ ہے ۔

۲٭        دودھ پینے کے بعد کلی کے استحباب پر خارجی قرائن (راوی صحابی اور خود رسول اکرم ﷺ کا کلی نہ کرنا) کی وجہ سے اسے استحباب پر محمول کیا گیا ہے ، جبکہ لحوم ابل (اونٹ کا گوشت کھانے سے ) سے وضو کے عدم وجوب کا کوئی قابل اعتبار قرینہ موجود نہیں۔

۳٭        محدثین کرام نے دودھ پینے کے بعد کلی کے استحباب کی صراحت کی ہے ، جیسا کہ عثمانی صاحب نے خود لکھا ہے جبکہ اس کے برعکس اونٹ کا گوشت کھانے پر محدثین نے وضو کو واجب قرار دیا ہے ۔

                دیکھیں امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، حافظ ابن حزم رحمہم اللہ وغیرھم کے اقوال و فتاوی جات ، جو ہم ذکر کر آئے ہیں۔

                انصاف شرط ہے کہ ایسے معاملے پر جسے بالاتفاق محدثین نے مستحب قرار دیا ہو ، کسی ایسے معاملے کو کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے جسے محدثین نے واجب قرار دیا ہو ؟

تنبیہ:

                صفدر صاحب کا یہ کہنا کہ مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں اونٹ کا دودھ پینے کے بعد کلی کے مستحب ہونے  پر اجماع لکھا ہے ، مطالعہ کے فقدان اور عدمِ احتیاط کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ مبارکپوری رحمہ اللہ تو ایسا کہنے والے (سہارنپوری صاحب) کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

[arabic-font]

قولہ : ھٰذا محمول عند جمیع الأمۃ علیٰ شربھا بأن یستحب لہ الخ مبنی علیٰ غفلتہ عن مذاھب الأمۃ، قال ابن قدامۃ: وفی شرب لبن الابل روایتان، أحداھما ینقض الوضوء،

[/arabic-font]

                “سہارنپوری کا یہ کہنا کہ اونٹ کے دودھ سے کلی کا حکم ساری امت کے ہاں استحباب پر محمول ہے ، یہ ان کے مذاہبِ امت سے غفلت کا نتیجہ ہے ، کیونکہ ابن قدامہ کہتے ہیں : اونٹ کا دودھ پینے میں بھی دو مذہب ہیں، ان کے مطابق یہ وضو  کو توڑ دیتا ہے ۔” (تحفۃ الا حوذی : ۸۴/۱)

تاویل نمبر ۲:

جناب صفدر صاحب لکھتے ہیں:

                “اور خطابی معالم السنن (۱۳۶/۱) میں لکھتے ہیں کہ لحوم ابل کے استعمال کے بعد وضوء مستحب ہے یا وضو لغوی مراد ہے ، یعنی غسل الیدین و الفم۔”    (خزائن السنن : ۱۶۹/۱)

درس ترمذی (۳۰۰/۱) میں جناب تقی عثمانی اور اعلاء السنن (۱۷۷/۱) میں جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی یہ بات کہی ہے ۔

                نیز امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں:          قد یجوز أن یکون الوضوء الذی ارادہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھو غسل الید. ہوسکتاہے  کہ جو وضو نبی اکرم ﷺ نے مراد لیا ہے ، وہ لغوی وضو یعنی ہاتھوں کو دھونا ہو۔” (شرح معانی الآثار:۵۷/۱)

تبصرہ:

۱٭         اس مسئلہ میں وضو کے لغوی ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔

                علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

           ان الوضوء اذا جاء فی لسان الشارع وجب حملہ علی الموضوع الشرعی دون اللغوی لأن الظاھر منہ أنہ انما یتکلم بموضوعاتہ.

[/arabic-font]

                “جب رسول اکر مﷺ کی زبان سے لفظِ وضو نکلے تو اسے لغوی معنیٰ کے بجائے شرعی معنیٰ پر محمول کرنا ضروری ہوتا ہے ، کیونکہ آپ سے معروف یہی ہے ، کہ آپ شرعی لفظ بولتے ہیں۔”

نیز لکھتے ہیں:

[arabic-font]

              ثم لابد من دلیل نصرف بہ اللفظ عن ظاھرہ ویجب أن یکون الدلیل لہ من القوۃ بقدر قوۃ الظاھر المتروکۃ واقوی منھا ولیس لھم دلیل.

[/arabic-font]

                “پھر ضروری ہے کہ کوئی ایسی دلیل ہو جس کے ذریعے ہم لفظ کو اس کے ظاہری معنیٰ (شرعی معنی) سے ہٹا سکیں اور اس دلیل میں چھوڑے گئے ظاہر کے برابر بلکہ اس سے زیادہ قوت ہونا ضروری ہے ، جبکہ ان احناف کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ۔”               (المعنی لابن قدماہ بحوالہ تحفۃ الاحوذی: ۸۴/۱)

حافظ ابن حزم  لکھتے ہیں:

[arabic-font]

               فانہ لا یطلق الوضوء فی الشرعیۃ الا لوضوء الصلاۃ فقط.

[/arabic-font]

                “شریعت میں لفظ وضو صرف نماز کے وضو کے لئے بولا گیا ہے ۔”

نیز لکھتے ہیں:

[arabic-font]

       ولو أن المعترض بھٰذا ینکر علی نفسہ القول بالوضوء من القھقۃ فی الصلاۃ ولا یری فیھا الوضوء فی غیر الصلاۃ، لکان أولیٰ بہ.

[/arabic-font]

                “ایسا اعتراض کرنے والا اگر خود قہقہے کی وجہ سے نماز میں ٹوٹنے اور خارج نماز میں وضو نہ ٹوٹنے کو غلط  قرار دیتا تو بہتر تھا۔”      (المحلی لابن حزم: ۲۴۲/۱- ۲۴۳)

امام ابن حبان حدیث براء پر یوں باب قائم فرماتے ہیں:

[arabic-font]

                ذکر الخبر الدال علی أن الامر بالوضوء من أکل لحوم الابل، انما ھو الوضوء المفروض للصلاۃ دون غسل الیدین.

[/arabic-font]

                “اس بات پر دلالت کرنے والی حدیث کا بیان کہ اونٹ کے گوشت سے جس وضو کا حکم دیا گیا ہے ، وہ نماز کے لئے فرض کیا گیا وضو ہے ، نہ کہ دونوں ہاتھوں کو دھونا۔”                (صحیح ابن حبان: ۴۱۰/۱)

۲٭        اس موقع پر یہ لفظ وضو دراصل سائل کے سوال کے جواب میں وارد ہو ا ہے ، کوئی وجہ ہی نہیں کہ یہاں یہ لفظ لغوی معنی میں ہو۔

علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

           انہ خرج جواباً لسؤال السائل عن حکم الوضوء من لحومھا و الصلوۃ فی مبارکھا، فلایفھم من ذالک سوی الوضوء المراد للصلوۃ.

[/arabic-font]

                “یہ لفظ اونٹو ں کے گوشت سے وضو اور ان کے باڑوں میں نماز کے متعلق ایک سائل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وارد ہوا ہے ، لہٰذا اس سے نماز والے وضو کے علاوہ کچھ مراد نہیں لیا جاسکتا ” (المغنی لا بن قدامہ بحوالہ تحفۃ الأحوذی : ۸۴/۱)

کیا سائل نے رسول اکرم ﷺ سے لغوی وضو کے بارے میں سوال کیا تھا، نیز اگر صرف ہاتھ دھونا ہی مراد ہوتا ، تو اس میں پوچھنے والی کو ن سی بات تھی ؟

۳٭        اگر یہاں وضو سے ہاتھ دھونا مراد لیں ، تو پھر سوال ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے بکری اور اونٹ میں فرق کیوں کیا ؟ نیز وضو اور نماز کا اکٹھا سوال اور اکٹھا جواب بھی اس تاویل کا رد نہیں کرتا ؟

                علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

          انہ لو أراد غسل الید لما فرق بینہ و بین الغنم فان غسل الید منھا مستحب و لھٰذا قال من بات وفی یدہ ریح غمر فاصابہ شیٔ فلا یلومن الا نفسہ وما ذکروہ من زیادۃ الزھومۃ فأمر یسیر لا یقتضی التفریق.

[/arabic-font]

“اگر آپ کی  مراد ہاتھ دھونا ہوتی ، تو پھر آپ اونٹ اور بکری کے گوشت میں فرق نہ کرتے، کیونکہ ہاتھ دھونا تو بکری کا گوشت استعمال کرنے کے بعد بھی مستحب ہے، اسی لئے آپ نے فرمایا کہ جس شخص کے ہاتھ میں رات کے وقت گوشت کی بو موجود ہو اور اسے کوئی موذی چیز نقصان پہنچا دے ، تو وہ صرف اپنے آپ ہی کو ملامت کرے ، رہا احناف کا یہ کہنا کہ اونٹ کے گوشت میں تعفن زیادہ ہوتا ہے ، تو یہ ایسا معاملہ نہیں جو فرق کا سبب بن جائے ۔ ” (المغنی لا بن قدامہ بحوالہ تحفۃ الأحوذی : ۸۴/۱)

امام ابن حبان فرماتے ہیں:

[arabic-font]

        فی سؤال السائل عن الوضوء من لحوم الابل و عن الصلوۃ فی أعطانھا، وتفریق النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین الجوابین، أری البیان أنہ أراد الوضوء المفروض للصلوۃ، دون غسل الیدین، ولو کان ذالک غسل الیدین من الغمر لا سئوی فیہ لحوم الابل و الغنم جمیعا.

[/arabic-font]

“سائل کا اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے اور ان کے باڑوں میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال اور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے دونوں سوالوں کا الگ الگ جواب، واضح دلیل ہے کہ آپ کی مراد نما زوالا وضو ہے نہ کہ صرف دونوں ہاتھوں لینا، اگر یہاں مراد ہاتھوں کو گوشت  کی بدبو کے سبب دھونا ہوتا، تو اس میں اونٹ اور بکری  کا گوشت برابر ہوتا۔ ”                (صحیح ابن حبان : ۴۱۱/۱)

کچھ آثار جو اس بارے آئے ہیں ، اس کا تجزیہ حسبِ ذیل ہے:

یحییٰ بن قیس کہتے ہیں :

[arabic-font]

رأیت ابن عمر أکل لحوم جزور و شرب لبن ابل و صلی ولم یتوضا.

[/arabic-font]

“میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، آپ نے اونٹ کا گوشت کھایا اور دودھ پیا، پھر نماز پڑھی ، لیکن وضو نہیں کیا۔” (مصنف ابن ابی شیبہ : ۴۶/۱)

تبصرہ:

                اس کی سند “ضعیف” ہے ، یحییٰ بن قیس الطائفی کی ابن حبان کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی ، لہٰذا یہ “مجہول الحال” ہے ۔

                سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے اونٹ کا گوشت کھایا ، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھی، لیکن وضو نہیں کیا ۔            (مصنف ابن ابی شیبہ : ۴۶/۱)

تبصرہ:

                اس اثر کی سند سخت ترین “ضعیف” ہے کیونکہ :

۱٭         اس میں جابر جعفی “ضعیف، رافضی” ہے ۔ (التقریب : ۸۷۸)

۲٭        سفیان “مدلس” ہے۔

۳٭        ابو سبر النخعی “مقبول” (مجہول الحال) ہے۔    (التقریب : ۸۱۱۴)

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے اونٹ کا گوشت کھا کر نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا ۔                (مصنف ابن ابی شیبہ : ۴۶/۱)

تبصرہ:

                یہ اثر بھی سخت “ضعیف” ہے ،کیونکہ اس میں:

۱٭         جابر الجعفی “ضعیف ،رافضی” ہے۔               (التقریب : ۸۷۸)

۲٭        شریک القاضی “مدلس” ہیں اور “عن ” سے روایت کررہے ہیں۔

فائدہ:

                نفاعہ بن مسلم کہتے ہیں کہ سوید بن غفلہ تابعی نے اونٹ کا گوشت کھایا ، پھر نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : ۴۶/۱ ، وسندہ صحیح)

تبصرہ:

                یہ نہ قرآن ہے نہ حدیث نہ قول صحابی، بلکہ ایک مسلمان کا اجتہاد ہے ، جو حدیث رسول ﷺ سے متصادم ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہے۔

امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اونٹ ، گائے اور بکری کا گوشت کھانے پر وضو نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : ۴۶/۱)

تبصرہ:

                یہ نہ قرآن ہے نہ حدیث نہ قول صحابی نہ قول ابی حنیفہ، جو صحیح احادیث ، عمل صحابہ اور جمہور ائمہ محدثین کی تصریحات کے متصادم ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہے۔

قارئین کرام !آپ نے دیکھ لیا کہ احادیث رسول میں واضح طور پر اونٹ کا گوشت استعمال کرنے سے وضو کا حکم دیا گیا ہے ، صحابہ کرام اس کی تصریح کررہے ہیں، محدثین کرام ببانگ دہل اس کا اعلان کررہے ہیں اور مخالفین کا بھر پور رد فرمارہے ہیں، اس کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں ، لیکن اس کے باوجود مقلدین اس کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہیں اور احادیث رسول میں طرح طرح کی تاویلاتِ باطلہ کرنے پر اتر آئے ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہ تھی ، تو تقلید کا پٹا اتار کر نبی اکرم ﷺ کا اتباع کرلیتے ، لیکن ماننے کی بجائے انہوں نے اپنے مقلد ہونے کا پورا پورا ثبوت دے دیا ہے۔

                قارئین ! انصاف کریں کہ یہ حدیث کی موافقت ہے یا مخالفت ؟؟؟

یہ تحریر اب تک 24 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has 2 Comments

  1. Atif

    ماشاءاللہ ، تبارک الله

    1. عثمان احمد

      جزاک اللہ خیرا،

Leave a Reply