درود کے فرض ہونے کے مواقع

تحریر: الشیخ غلام مصطفے ظہیر امن پوری حفظ اللہ
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر سن کر درود:

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ذکر سن کر درود پڑھنا فرض ہے، کیوں کہ ایسے شخص کے بارے میں وعید وارد ہوئی ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا ہے لیکن درود نہیں پڑھتا، جیسا کہ:
➊ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رغم أنف رجل دكرت عنده؛ فلم يصل علي.
”اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو، جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو، لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔“ [مسند الإمام أحمد : 254/2؛ سنن الترمذي: 3545؛ فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل :16، و سندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن غریب“ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (908) نے ”صحیح“ کہا ہے۔

❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے:
صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر، فلما وضع رجله على مرقاة قال : ”آمين“، ثم صعد، فقال : ”آمين“، ثم صعد، فقال : ”آمين“، فقال : أتاني جبريل، فقال : من أدرك شهر رمضان؛ فمات فلم يغفر له، فابعدهٔ الله، قلت : آمين، قال: ومن ادرك ابويه او حدهما؛ فمات فلم يغفر له، فابعدهٔ الله، قلت : آمين، قال: ومن ذكرت عنده فلم يصل عليك، فأبعده الله، قلت : آمين
”رسول اکرم صلى الله عليه وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب پہلی سیڑھی پر پاؤں مبارک رکھا تو آمین کہا، پھر (دوسری سیڑی پر) چڑھے تو دوبارہ آمین کہا، پھر (تیسری سیڑھی پر) چڑھے تو پھر آمین کہا۔ پھر ارشاد فرمایا: میرے پاس جبریل آئے تھے اور (جب میں پہلی سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس حالت میں مر جائے کہ (رمضان کی عبادت کی وجہ سے) اس کی مغفرت نہ ہو سکے تو اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔ میں نے آمین کہا۔ (جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جو شخص اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو پائے، پھر اس حالت میں مر جائے کہ (ان کی خدمت کی بنا پر) اس کی مغفرت نہ ہو سکے تو اسے بھی اللہ تعالی اپنی رحمت سے دور کر دے۔ میں نے آمین کہا۔ (جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جس شخص کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑ ھے، اسے بھی اللہ تعالی اپنی رحمت سے دور کر دے۔ اس پر بھی میں سے آمین کہا۔“ [المعجم الأوسط للطبراني :8131؛ مسند أبى يعلٰي : 5922، و سندهٔ حسن]

❀ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم رقي المنبر، فقال : ”آمين، آمين، آمين“، فقيل لهٔ : يا رسول الله، ما كنت تصنع هذا، فقال : قال لي جبريل: أرغم الله أنف عبد۔ أو بعد۔ دخل رمضان فلم يغفر له، فقلت آمين، ثم قال : رغم أنف عبد۔ أو بعد۔ ادرك والديه او احدهما لم يدخله الجنة، فقلت : آمين، ثم قال : رغم أنف عبد۔ أو بعد۔ ذكرت عنده فلم يصل عليك، فقلت : آمين
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو تین دفعہ آمین کہا۔ پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالی اس شخص کو ذلیل کرے جو رمضان میں موجود ہو لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔ میں نے آمین کہا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ذلیل ہو، جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو پائے لیکن ان کی خدمت اسے جنت میں داخل نہ کرے۔ میں نے آمین کہا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ذلیل ہو جائے جس کے پاس آپ کا ذکر ہو لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔ میں نے اس پر بھی آمین کہا۔‘‘
[صحيح ابن خزيمة:1888، و سندهٔ حسن]

➋ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”احضروا المنبر“، فحضرنا، فلما ارتقى درجة قال: ”آمين“، فلما ارتقى الدرجة الثانية قال: ”آمين“، فلما ارتقى الدرجة الثالثة قال: آمين، فلما نزل قلنا: يا رسول الله، لقد سمعنا منك اليوم شيئا ما كنا نسمعه، قال : إن جبريل عليه الصلاة والسلام عرض لي، فقال: بعدا لمن أدرك رمضان فلم يغفرله، قلت : آمين، فلما رقيت الثالثة قال : بعدا لمن ذكرت عنده فلم يصل عليك قلت آمين، فلما رقيت الثالثة قال : بعدا لمن أدرك أبواه الكبر عنده أو أحدهما فلم يدخلاه الجنة، قلت : آمين .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منبر لاؤ۔ ہم منبر لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی سیڑھی پر چڑھے اور آمین کہا۔ جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو آمین کہا۔ جب تیسری سیڑھی پر چڑھے تو پھر آمین کہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آج ہم نے آپ سے ایسی چیز سنی ہے، جو پہلے نہیں سنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہو، جو رمضان کو پائے لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔ میں نے آمین کہہ دیا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس آپ کا تذکرہ ہو، لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔ میں نے آمین کہا۔ جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اس کے جنت میں داخلے کا سبب نہ بن سکیں۔ میں نے پھر آمین کہہ دیا۔“ [ المستدرك على الصحيحين لالحاكم : 153/4، و سندهٔ حسن]
↰ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ”صحیح“ کہا ہے۔
ان کی احادیث کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سن کر درود پڑھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔

◈ علامہ ابوعبد اللہ، حسین بن حسن، حلیمی رحمہ اللہ (م :403ھ) فرماتے ہیں:
قد تظاهرت الأخبار بوجوب الصلاة عليه كلما جرى ذكره، فإن كان يثبت اجماع يلزم الحجة بمثله على ان ذلك غير فرض، وإلا فهو فرض.
”بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب بھی آپ صلى الله عليه وسلم کا تذکرہ ہو، آپ پر درود پڑھنا فرض ہے۔ اگر ایسا معتبر اجماع ثابت ہو جائے کہ یہ فرض نہیں تو (یہ مستحب ہو جائے گا)، ورنہ یہ فرض ہی ہے۔‘‘ [شعب الإيمان للبيهقي : 149/3]

➋ آخری تشھد میں درود فرض ہے :

آخری تشہد میں درود پڑھنا فرض و واجب ہے۔
➊ سیدنا ابومسعود انصاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أقبل رجل حتى جلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن عنده , فقال : يا رسول الله , أما السلام عليك فقد عرفناه , فكيف نصلي عليك إذا نحن صلينا في صلاتنا ؟ قال : فصمت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أحببنا أن الرجل لم يسأله , ثم قال : إذا صليتم علي فقولوا : اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آل محمد , كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , وبارك على محمد النبي الأمي وعلى آل محمد , كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد
”ایک شخص آیا اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ ہم بھی آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس ہی موجود تھے۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہم جان چکے ہیں لیکن جب نماز میں ہم آپ پر درود پڑھنا چاہیں تو کس طرح پڑھیں؟ اللہ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ ہم نے خواہش کی، کاش یہ شخص آپ سے سوال نہ کرتا۔ (پھر) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب تم مجھ پر درود پڑھو تو یوں کہو: اے اللہ ! نبی امی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی تھی، نیز تو نبی اُمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلاشبہ تو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔“
[مسند الإمام احمد: 119/4؛ سنن الدارقطني :354/1، 355، و سندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [711] اور امام ابن حبان [1959] رحمها اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔
↰ امام حاکم رحمہ اللہ (268/1) نے اسے ”امام مسلم کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن متصل. ”یہ سندحسن اور متصل ہے۔“
◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإن تشهد ولم يصل على النبى صلى الله عليه وسلم، أو صلى على النبى صلى الله عليه وسلم، ولم يتشهذ؛ فعليه الإعادة حتى يجمعها جميعا
”اگر کوئی شخص تشہد پڑھے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود تو پڑھے، لیکن تشہد نہ پڑھے، اس پر نماز دوبارہ پڑ ھنا واجب ہے، حتی کہ تشہد اور درود دونوں کو جمع کر لے۔“ [الأم :117/1، باب التشهد والصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم]

◈ امام محمد بن مواز، مالکی رحمہ اللہ (م:281ھ) کا بھی یہی موقف ہے۔
[أحكام والقرآن لابن العربي : 623/3، حسن المحاضرة فى تاريخ مصر والقاهرة للسيوطي : 310/1]

◈ علامہ ابن العربی، مالکی رحمہ اللہ (468۔543ھ) لکھتے ہیں:
والصحيح ما قاله محمد بن المواز للحديث الصحيح
”صحیح حدیث کی بنا پر جو بات محمد بن مواز نے کہی ہے، وہی ہے صحیح ہے۔“ [احكام القرآن : 623/3]

◈ امام ابو اسحاق، ابراہیم بن احمد، مروزی رحمہ اللہ (م:340ھ) فرماتے ہیں:
أنا أعتقد أن الصلاة على آل النبى صلى الله عليه وسلم واجبة فى التشهد الأخير من الصلاة.
”میرا اعتقاد یہ ہے کہ نماز کے آخری تشہد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر درود پڑھنا واجب ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 150/3 وسندۂ حسن]

◈ امام ابو بکر، محمد بن حسین آجری (م:360ھ) فرماتے ہیں:
واعلموا رحمنا الله وإياكم، لو أن مصليا صلى صلاة، فلم يصل على النبى صلى الله عليه وسلم فيها فى تشهده الأخير، وجب عليه إعادة الصلاة.
”اللہ ہم پر اور آپ پر رحم کرے، یہ جان لیجیے کہ اگر کوئی نمازی نماز پڑھے، لیکن اس کے آخری تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھے تو اس پر نماز کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔“ [الشريعة 1403/3]

◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وللقول بوجوبه ظواهر الحديث، والله أعلم.
”آخری تشہد میں درود کے فرض ہونے پر احادث کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ واللہ اعلم!‘‘ [تفسير ابن كثير : 460/6، بتحقيق سلامة]
↰ بعض اہل علم نے اس کے خلاف اجماع کا دعوی کر رکھا ہے کہ آخری تشہد میں درود کے فرض نہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔
ان کے رد میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فلا إجماع على خلافه فى هذه المسألة، لا قديما ولا حديثا.
”اس مسئلہ میں درود کے فرض ہونے کے خلاف کوئی اجماع نہیں ہوا، نہ پرانے دور میں نہ ہی نئے دور میں۔“ [تفسير ابن كثير : 460/6، بتحقيق سلامة]

➋ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سمع النبى صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو فى صلاته، فلم يصل على النبى صلى الله عليه وسلم، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : عجل هذا، ثم دعاه، فقال له او لغيره : اذا صلى احدكم، فليبدا بتحميد الله والثناء عليه، ثم ليصل على النبى صلى الله عليه وسلم، ثم ليدع بعد بما شاء
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز کے دوران دعا مانگتے ہوئے سنا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے شخص کو فرمایا: جب کوئی شخص دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔“ [مسند الامام احمد: 18/6، سنن ابي داود 1481، سنن ترمذي 3477، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“، امام ابن خزیمہ [710] اور امام ابن حبان [1960] نے ”صحیح“ کہا ہے۔ جبکہ امام حاکم [286، 230/1] نے ”امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
ملا علی قاری حنفی (م : 1014 ھ) نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [شرح الشفاء 108/2]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد ورد فى الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم بما يدل على الوجوب حديث فضالة بن عبيد۔۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے وجوب پر دلائل موجود ہیں، (ان میں سے ایک) سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے۔۔۔“
[ الدراية فى تخريج أحاديث الهداية : 157/1، ح : 89]

➌ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں:
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، کہنے لگے: کیا میں آپ کو عظیم الشان تحفہ نہ دوں، جسے میں نے رسول اللہ سے سن رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ضرور ! کہنے لگے: ہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سوال کیا:اللہ کے رسول! (اللہ تعالی نے ہمیں درود و سلام کا حکم دیا ہے) آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجا جائے، جب کہ اللہ تعالی نے ہمیں آپ پر سلام کے متعلق تو تعلیم دے دی ہے (درود کی تعلیم نہیں دی گئی)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یوں کہا کرو:
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيدا، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم، وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيدا.
”اے اللہ! تو محمد صلى الله عليه وسلم اورآپ کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ [ صحيح البخاری : 3370، صحيح مسلم : 406]

احناف کا نظریه
علامہ، ابن نجیم حنفی(م: 970ھ) لکھتے ہیں:
ومن العجيب ما وقع فى فتاوي قاضي خان فى آخر باب الوتر والتراويح، حيث قال : وإذا صلى على النبى صلى الله عليه وسلم فى القنوت، قالوا: لا يصلي فى القعدة الأخيرة، وكذا لو صلى على النبى صلى الله عليه وسلم فى القعدة الأولى ساهيا، لا يصلي فى القعدة الأخيرة.
”فتاویٰ قاضی خان میں وتر و تراویح کے بیان کے آخر میں بڑی عجیب بات لکھی ہے، انہوں نے یہ کہہ دیا ہے: جب کوئی شخص قنوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ لے تو ہمارے مفتی حضرات کہتے ہیں کہ پھر وہ آخری تشہد میں درود نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر وہ بھول کر پہلے تشہد میں درود پڑھ لے تو پھر بھی دوسرے تشہد میں درود نہیں پڑھ سکتا۔“ [البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 348/1]

نیز حنفی کی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے:
ولو سلم الإمام قبل أن يفرغ المقتدي من الدعاء الذى يكون بعد التشهد، أو قبل أن يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، فإنه يسلم مع الإمام.
”اگر امام تشہد کے بعد دعا سے مقتدی کے فارغ ہونے سے پہلے سلام پھیر دے یا مقتدی کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے سے پہلے سلام پھیر دے، تو مقتدی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر لے گا۔“ [الفتاوى الهندية، المعروف به فتاويٰ عالمگيري:90/1]

کیا پھلے قعدہ میں درود فرض ھے؟

نماز کی دو رکعتیں مکمل کرنے کے بعد بیٹھنا قعدہ کہلاتا ہے۔ چار رکعتوں والی نماز میں دو قعدے ہوتے ہیں۔ پہلا دو رکعتوں کے بعد اور دوسرا چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد۔

قعدہ پہلا ہو یا دوسرا اس میں تشہد (التحیات۔۔۔، جس میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت ہوتی ہے) پڑھا جاتا ہے۔ تشہد سے زائد مثلا درود پڑھنا اور دعا کرنا صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یا پہلے تشہد میں بھی اس کی اجازت ہے؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

ہماری تحقیق میں پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کر لیا جائے یا تشہد سے زائد بھی کچھ پڑھ لیا جائے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر پہلے تشہد میں درود پڑھا گیا، تو سجدہ سہو لازم آ جائے گا، ان کی بات بے دلیل ہے، کیونکہ دونوں طر یقے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
تشهد پر اقتصار و اکتفا :
➊ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد سکھایا۔ ان کے ایک شاگرد اسود بن یزید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
ثم إن كان فى وسط الصلاة؛ نهض حين يفرغ من تشهده، وإن كان فى آخرها، دعا بعد تشهده ما شاء الله أن يدعو، ثم يسلم.
”آپ اگر نماز کے درمیانے تشہد میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی (اگلی رکعت کے لیے) کھڑے ہو جاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے، تو تشہد کے بعد جو دعا مقدر میں ہوتی، کرتے، پھر سلام پھیرتے۔“ [مسند الإمام احمد :459/1، و سندهٔ حسن]
↰ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (708) نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام موصوف اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
باب الاقتصار فى الجلسة الأولى على التشهد، وترك الدعاء بعد التشهد الأول.
”اس بات کا بیان کہ پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کرنا اور دعا کو ترک کرنا جائز ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 708]

➋ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يزيد فى الركعتين على التشهد.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (عام طور پر) تشہد سے زیادہ نہیں پڑ ھتے تھے۔“ [ مسند أبى يعلى الموصلي: 4373، وسندة صحيح]

پھلے قعدہ میں تشھد کے علاوہ درود و اذکار:
پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد اذکار، مثلا درود، دعا وغیرہ مستحب ہیں، جیسا کہ:
➊ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال بیان فرماتی ہیں:
ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا فى الثامنة، فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم يسلم تسليما يسمعنا.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت (وتر) ادا فرماتے اور صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے تھے۔ پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بجا لاتے اور اس سے دعا کرتے۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت ادا فرماتے۔ پھر بیٹھ جاتے اور اللہ کا ذکر، اس کی حمد اور اس سے دعا کرتے۔ پھر اتنی بلند آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے تھے۔‘‘ [صحيح مسلم : 139/746]

❀ اسی حدیث کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
ثم يصلي تسع ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة، فيدعو ربه ويصلي على نبيه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يصلي التاسعة فيقعد، ثم يحمد ربه ويصلي على نبيه ويدعو، ثم يسلم تسليمة يسمعنا
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات ادا فرماتے اور ان میں سے صرف آٹھویں کے بعد بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے۔ پھر سلام پھیرے بغیر اٹھتے اور نویں رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھتے۔ پھر اپنے رب کی حمد و ثنا کرتے اور اس کے نبی پر درود پڑھ کر دعا کرتے۔ پھر بلند آواز سے سلام پھیرتے۔“ [سنن النسائي :1721، السنن الكبرٰي للبيهقي :500/2، واللفظ له، و سندهٔ صحيح]

➋ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا:
إذا قعدتم فى كل ركعتين، فقولوا : التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم ليتخير احدكم من الدعاء أعجبه إليه، فليدع به ربه عز وجل .
جب تم ہر دو رکعتوں کے بعد بیٹھو، تو یہ کہو : التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله پھر ہر شخص وہ دعا منتخب کرے، جو اسے زیادہ محبوب ہو اور اس کے ذریعے اپنے رب عزوجل سے مانگے۔“
[مسند الإمام أحمد : 437/1، مسند الطيالسي : 304، سنن النسائي : 1164، المعجم الكبير للطبراني : 47/10، ح : 9912، شرح معاني الأثار للطحاوي : 237/1، وسندة صحيح]
↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [720] اور امام ابن حبان [1951] رحمہ اللہ نے ”صحیح“ قرار و یا ہے۔

➌ نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إن عبد الله بن عمر كان يتشهد، فيقول: بسم الله، التحيات لله، الصلوات لله، الزاكيات الله، السلام على النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، شهدت أن لا إله إلا الله، شهدت أن محمدا رسول الله، يقول هذا فى الركعتين الأوليين، ويدعو إذا قضى تشهده، بما بدا له.
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد میں یہ دعا پڑھتے : بسم الله، التحيات لله، الصلوات لله، الزاكيات الله، السلام على النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، شهدت أن لا إله إلا الله، شهدت أن محمدا رسول الله پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھنے کے ساتھ جو دل میں آتی، وہ دعا بھی کرتے۔“ [المؤطا للامام مالك : 191/1، وسندهٔ صحيح]
↰ یعنی جلیل القدر صحابی، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد پڑھتے تھے۔
امام مالک اور امام شافعی رحمها اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ [الام : 117/1]

◈ حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وأما التشهد الأول، فلا تجب فيه الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم بلا خلاف، وهل تستحب ؟ فيه قولان؛ أصحهما : تستحب
”جہاں تک پہلے تشہد کی بات ہے تو اس میں بلا اختلاف درود فرض نہیں۔ اب مستحب ہے کہ نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں، صحیح ترین بات بھی یہی ہے کہ پہلے قعدہ میں درود مستحب ہے۔“ [الأذكار : 167، بتحقيق الأرنؤوط]

تنبیہات :

➊ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس فى الركعتين الأوليين، كأنه على الرضف .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لئے بیٹھتے)، تو (بہت جلد اٹھنے کی وجہ سے) ایسے لگتا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔“ [ مسند الإمام أحمد : 386/1، سنن أبى داؤد : 995، سنن النسائى : 1177، سنن الترمذي 366]

↰ اس کی سند ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، کیونکہ ابوعبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والراجح أنه لا يصح سماعه من أبيه.
”راجح بات یہی ہے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والد گرامی سے سماع ثابت نہیں۔“ [تقريب التهذيب : 8231]
◈ نیز فرماتے ہیں :
فانه عند الاكثر لم يسمع من ابيه .
”جمہور اہل علم کے نزدیک انہوں نے اپنے والد گرامی سے سماع نہیں کیا۔“ [موافقة الخبر الخبر : 364/1]
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ [296/1] کا اس روایت کو ”امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح“ قرار دینا صحیح نہیں۔
◈ اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو منقطع، لأن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه.
”یہ روایت منقطع ہے۔ کیونکہ ابوعبیدہ نے اپنے والد گرامی سے سماع نہیں کیا۔“ [التلخيص الحبير : 263/1، ح : 406]
دوسری بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تشہد میں درود پڑھنے کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا تشہد، دوسرے سے چھوٹا تھا۔ یعنی پہلا تشہد درود سمیت بھی دوسرے کے مقالے میں چھوٹا ہو سکتا ہے۔

◈ علامہ شوکانی رحمہ تعالیٰ (1173-1250ھ) لکھتے ہیں :
وليس فيه إلا مشروعية التخفيف، وهو يحصل بجعله أخف من مقابله .
”اس حدیث میں صرف پہلے تشہد کو چھوٹا کرنے کی مشروعیت ہے اور وہ تو اسے دوسرے تشہد کے مقابلے میں چھوٹا کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔“ [نيل الاوطار : 333/2]

➋ تمیم بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان أبو بكر إذا جلس فى الركعتين؛ كأنه على الرضف يعني حتي يقوم .
”امیر المؤمنین، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو یوں ہوتے جیسے گرم پتھر پر ہوں، حتیٰ کہ اٹھ جاتے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 295/1]
اس کی سند بھی ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، کیونکہ تمیم بن سلمہ کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [التلخيص الحبير : 263/1، تحت الحديث : 406] کا اس کی سند کو ”صحیح“ قرار دینا صحیح نہیں۔

➌ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
ما جعلت الراحة فى الركعتين إلا للتشهد.
”دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے کا موقع صرف تشہد پڑھنے کے لیے ہے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 295/1]

↰ اس کی سند بھی ”ضعیف“ ہے کیونکہ عیاض بن مسلم راوی ”مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 265/5] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

➍ امام حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے :
لا يزيد فى الركعتين الأوليين على التشهد.
”نمازی دو رکعتوں کے بعد تشہد سے زیادہ نہ پڑھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 296/1]

یہ قول امام حسن بصری رحمہ اللہ ثابت نہیں، کیونکہ حفص بن غیاث ”مدلس“ ہے اور اس نے امام موصوف سے سماع کی کوئی صراحت نہیں کی۔
نیز اس سند میں اشعث راوی کا تعین بھی درکار ہے۔

➎ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من زاد فى الركعتين الأوليين على التشهد، فعليه سجدنا سهو.
”جس شخص نے دو رکعتوں کے بعد تشہد کے علاوہ کچھ اور پڑھ لیا اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہو جائیں گے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 296/1، وسنده صحيح]

↰ امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ اجتہاد بےدلیل اور صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے خطا پر مبنی ہے۔
فقہ حنفی اور پہلا تشہد :
فقہ حنفی کے مطابق بھی پہلے تشہد کے ساتھ درود پڑھنے سے سجدہ سہو لازم آتا ہے۔ [كبيري : 460]

◈ علامہ ابن نجیم حنفی (م : 970ھ) لکھتے ہیں :
وفي المجتبى : وفي الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها لا يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم فى القعدة الأولى.
”المجتبیٰ میں ہے کہ (حنفی) نمازی ظہر کی چار رکعتوں میں، جمعے کی نماز میں اور جمعہ کے بعد کے نوافل میں پہلے قعدے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھ سکتا۔“ [البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 53/2]

◈ علامہ حصکفی حنفی (1025۔ 1088ھ) لکھتے ہیں :
ولا يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم فى القعدة الأولى فى الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها، ولو صلى ناسيا فعليه السهؤ.
”(حنفی) نمازی ظہر کی چار رکعتوں میں، جمہ کی نماز جمعہ میں اور جمعہ کے بعد کے نوافل میں پہلے قعدہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھ سکتا اگر بھول کر پڑھ بیٹھے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہو جائے گا۔“ [الدر المختار، ص : 95، باب الوتر والنوافل]

حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے :
ولو كرر التشهد فى القعدة الأولى؛ فعليه السهو، وكذا لو زاد على التشهد الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم، كذا فى التبيين، وعليه الفتوى، كذا فى المضمرات، واختلفوا فى قدر الزيادة، فقال بعضهم يجب عليه سجود السهو بقوله : اللهم صل على محمد، وقال بعضهم : لا يجب عليه حتي يقول: وعلى آل محمد، والأول أصح، ولو كرره فى القعدة الثانية؛ فلا سهو عليه، كذا فى التبيين
”اگر کوئی (حنفی) پہلے قعدہ میں تشہد کو تکرار سے پڑھ بیٹھے تو اس پر سجدہ سہو لازم آئے گا۔ اسی طرح اگر تشہد پر درود کا اضافہ کر دیا تو بھی سجدہ سہو واجب ہو جائے گا تیبین میں یہی لکھا ہے۔ مضمرات میں ہے کہ فتویٰ بھی اسی پر ہے۔ البتہ اضافے کی مقدار کے بارے میں احناف نے اختلاف کیا ہے، بعض نے کہا ہے کہ اللهم صلى عليٰ محمد ہی کہہ دیا تو سجدہ سہو واجب ہو جائے گا، لیکن بعض کہتے ہیں کہ جب تک وعلي آل محمد تک نہ کہے، سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا۔ مگر پہلی بات ہی صحیح ترین ہے (کہ اللهم صلى عليٰ محمد کہہ دینے سے ہی سجدہ سہو واجب ہو جائے گا۔) ہاں اگر دوسرے قعدہ میں درود کو تکرار کے ساتھ پڑھے تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا۔“ [الفتاوي الهنديه المعروف به فتاويٰ عالمگيري : 127/1]

◈ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں :
”حنفیہ کے نزدیک دوسری رکعت میں درود پڑھنے سے جو تاخیر قیام کا باعث ہوتا ہے، سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔ جب بقدر اللهم صلى عليٰ محمد کے پڑھے اور بعض کے نزدیک جب اللهم صلى عليٰ محمد وعلي آل محمد کے بقدر پڑھے۔ زیلعی نے اولیٰ کو اور رملی نے ثانی کو ترجیح دی ہے اور جس نے سہواً سجدہ ترک کیا، اس پر اس نماز کا اعادہ واجب ہے۔“ [مجموع الفتاويٰ، جلد اول ص : 303]

◈ عبدالشکور فاروقی، لکھنوی، دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”کوئی شخص قعدہ اولیٰ میں بعد التحیات کے اتنی ہی دیر تک چپ بیٹھا رہے یا درود شریف پڑھے یا کوئی دعا مانگے، ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہو گا۔“ [علم الفقه، حصه دوم، ص 283، نماز ميں سهو كا بيان]

◈ جناب رضاء الحق دیوبندی، مفتی دارالعلوم زکریا، جنوبی افریقہ کہتے ہیں :
”سنن موکدہ کے قعدہ اولیٰ میں بھول سے، درود شریف پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہو گا۔“ [فتاويٰ دارالعلوم زكريا، جلد دوم، ص : 461]
اس مسئلہ کی تفصیل احسن الفتاویٰ از مفتی رشید احمد دیوبندی صاحب [جلد : 4، ص 29] میں دیکھی جا سکتی ہے۔

◈ امجد علی بریلوی لکھتے ہیں :
فرض و وتر سنن رواتب کے قعدہ اولیٰ میں اگر تشہد کے بعد اتنا کہ لیا اللهم صلى عليٰ محمد یا اللهم صلى عليٰ سيدنا تو اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو کرے، عمداً ہو تو اعادہ واجب ہے، (درمختار) [بهار شريعت حصه سوم، ص 79 واجبات نماز]

یہ کتاب ”اعلیٰ حضرت“ بریلوی کی تصدیق شدہ ہے۔
یہ بات صحیح احادیث اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔

ایک جھوٹا خواب :

علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں :
وفي المناقب : أن الإمام رحمه الله رأى النبى صلى الله عليه وسلم فى المنام، فقال : كيف أوجبت السهو على من صلى على فقال: لانه صلى عليك سهوا، فاستحسنه
”المناقب میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود پڑھنے والے پر آپ نے سجدہ سہو کیسے واجب کر دیا ؟ تو امام نے جواب دیا : کیوں کہ اس نے آپ پر سہواً (بھول کر) درود پڑھا ہوتا ہے۔“ [رد المحتار على الدر المختار لابن عابدين الحنفي : 81/2]

قارئین کرام غور فرمائیں کے یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر جھوٹ باندھنے میں کتنے جرات مند ہیں ؟ کوئی ان سے پوچھے کہ امام ابو حنیفہ نے پہلے تشہد میں درود پڑھنے والے پر سجدہ سہو کہاں واجب کیا ہے ؟ نیز امام صاحب نے اپنا یہ خواب کسے بیان کیا تھا ؟

فائدہ :
◈ علامہ ابن نجیم حنفی (م : 970ھ) لکھتے ہیں :
ومن العجيب ما وقع فى فتاوي قاضي خان فى آخر باب الوتر والتراويح، حيث قال : وإذا صلى على النبى صلى الله عليه وسلم فى القنوت، قالوا : لا يصل. فى القعدة الأخيرة، وكذا لو صلى على النبى صلى الله عليه وسلم فى القعدة الأولى ساهيا، لا يصلي فى القعدة الأخيرة.
فتاویٰ قاضی خان میں وتر و تراویح کے بیان کے آخر میں بڑی عجیب بات لکھی ہے، انہوں نے یہ کہہ دیا ہے : جب کوئی شخص قنوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ لے تو ہمارے مفتی حضرات کہتے ہیں کہ پھر وہ آخری تشہد میں درود نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر وہ بھول کر پہلے تشہد میں درود پڑھ لے تو پھر بھی دوسرے شہد میں درود نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ [البحر الرائق شرح كنز الدقائق :348/1]

◈ نیز حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے:
ولو سلم الإمام قبل أن يفرغ المقتدي من الدعاء الذى يكون بعد التشهد، أو قبل أن يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، فإنه يسلم مع الإمام.
”اگر امام تشہد کے بعد دعا سے مقتدی کے فارغ ہونے سے پہلے سلام پھیر دے، یا مقتدی کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے سے پہلے سلام پھیر دے، تو مقتدی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے گا (اور اس کی نماز درست ہو گی)۔“ [الفتاوي الهندية، المعروف به ناوي عالمگيري:90/1]

◈ فقہ حنفی کی ایک اور معتبر و مستند کتاب میں لکھا ہے:
فى التتار خانية عن المحيط : وعلى هذا الخلاف لو سبح بالفارسية فى الصلاة أو دعا، أو أثنى على الله تعالىٰ، أو تعوذ، أو هلل أو تشهد أو صلى على النبى صلى الله عليه وسلم بالفارسية فى الصلاة أى يصح عنده.
”فتاوی تاتارخانیہ میں المحیط کے حوالے سے لکھا ہے : اس اختلاف کی بنا پر اگر کوئی (حنفی) نماز میں فارسی زبان میں تسبیح، دعا، ثنا، تعوذ، تہلیل، تشہد یا درود پڑھ لے تو ہے، ان کے نزدیک اس کی نماز درست ہو گی۔“ [رد المحتار على الدر المختار لابن عابدين الحنفي : 81/2]

الحاصل پہلے قعدہ میں تشہد پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے اور تشہد کے علاوہ مثلاً درود اور دُعائیں وغیرہ بھی پڑی جا سکتی ہیں۔

➌ طویل مجالس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود :

تمام طویل مجالس و محافل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا فرض ہے، جیسا کہ :
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما قعد قوم مقعدا لا يذكرون فيه الله عز وجل، ويصلون على النبى صلى الله عليه وسلم، إلا كان عليهم حسرة يؤم القيامة، وإن دخلوا الجنة، للثواب
”لوگ کسی جگہ بیٹھیں اور وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں، نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں تو یہ کوتاہی ان کے لئے روز قیامت باعث حسرت ہو گی۔ اگرچہ وہ (اپنے ایمان کے) ثواب کی بنا پر جنت میں داخل بھی ہو جائیں۔“ [مسند الإمام أحمد : 463/2، عمل اليوم والليلة للنسائي : 409، 410، و سندهٔ صحيح]
↰ امام ابن حبان رحمہ اللہ [592، 591] نے اس حدیث کو جب کہ حافظ منذری رحمہ اللہ [الترغيب والترهيب : 410/2] نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔

◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح
”اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے ہیں۔“ [مجمع الزوائد : 79/10]

➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ايما قوم جلسوا فاطالوا الجلوس، ثم تفرقوا قبل ان يذكروا الله، ويصلوا على نبيه صلى الله عليه وسلم؛ إلا كانت عليهم من الله ترة، إن شاء الله عذبهم، وإن شاء غفر لهم
”جو لوگ کافی دیر کہیں بیٹھیں اور پھر اللہ کا ذکر کیے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے بغیر منتشر ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حسرت رہے گی۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے گا اور چاہے تو انہیں معاف کر دے گا۔“ [الصلاة على النبى لابن أبى عاصم : 86، عمل اليوم والليلة لابن السني : 449، الدعاء للطبراني : 1924، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 496/1، شعب الإيمان للبيهقي : 1468، و سندهٔ حسن]

➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما جلس قوم مجلسا لم يذكروا الله فيه، ولم يصلوا على نبيهم، الا كان عليهم ترة
”لوگ کہیں مل کر بیٹھیں لیکن وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھیں تو ضرور یہ کوتاہی (روز قیامت) ان پر حسرت بنی رہے گی۔“ [مسند الامام احمد : 453/2، و سندهٔ حسن]

➍ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما جلس قوم مجلسا لا يصلون فيه على النبى صلى الله عليه وسلم؛ إلا كان عليهم حسرة، وإن دخلوا الجنة
”لوگ کہیں مل کر بیٹھیں لیکن وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھیں تو ضرور یہ کوتاہی (روز قیامت) ان پر حسرت بنی رہے گی، اگرچہ وہ جنت میں داخل بھی ہو جائیں۔“ [مسند أحمد بن منيع، نقلا عن اتحاف الخيرة المهرة للبوصيري : 6069، وسنده صحيح]

◈ ناصر السنۃ، محدث العصر، علامہ، البانی رحمہ اللہ (م : 1420ھ) کہتے ہیں :
لقد دل هذا الحديث الشريف وما فى معناه على وجوب ذكر الله سبحانه، وكذا الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم فى كل مجلس، ودلالة الحديث على ذلك من وجوه :
اولا : قوله ”فإن شاء عذبهم، وإن شاء غفر لهم“، فإن هذا لا يقال إلا فيما كان فعله واجبا وتركه معصية۔
ثانيا : قوله ”وإن دخلوا الجنة، للثواب“، فإنه ظاهر فى كون تارك الذكر والصلاة عليه صلى الله عليه وسلم، يستحق دخول النار، وإن كان مصيره إلى الجنة ثوابا على إيمانه . . .
فعلى كل مسلم أن يتنبه لذلك، ولا يغفل عن ذكر الله عز وجل، والصلاة على نبيه صلى الله عليه وسلم، فى كل مجلس يقعده، وإلا كان عليه ترة وحسرة يوم القيامة

”یہ حدیث شریف اور اس کے ہم معنی احادیث واضح طور پر بتاتی ہیں کہ ہر مجلس میں اللہ سبحانہ کا ذکر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود فرض ہے۔ یہ حدیث کئی طرح سے اس بات پر دلیل ہے :
اولاً : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو انہیں معاف کر دے۔ ایسا صرف اسی فعل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے، جسے کرنا فرض اور جسے چھوڑنا گناہ ہو۔
ثانیاً : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اگرچہ وہ ثواب کی بنا پر جنت میں داخل ہو بھی جائیں۔ یہ الفاظ اس بات میں واضح ہیں کہ ذکر الہٰی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا تارک جہنم میں داخلے کا مستحق ہے، اگرچہ اپنے ایمان کے ثواب کی بنا پر وہ جنت میں داخل بھی ہو جائے گا۔۔۔
چنانچہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس وعید سے خبردار رہے اور اپنی کسی بھی مجلس و محفل میں ذکر الہٰی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے غافل نہ رہے ورنہ یہ کوتاہی قیامت کے دن اس کے لئے نقصان اور حسرت کا باعث ہو گی۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشىء من فقهها وفوائدها : 161/1]

فائدہ :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے :
إن قوما اجتمعوا فى مسجد يهللون ويصلون على النبى عليه السلام، ويرفعون أصواتهم، فذهب إليهم ابن مسعود، وقال : ما عهدنا هذا على عهد رسول الله، وما أراكم إلا مبتدعين، فما زال يذكر ذلك حتى أخرجهم من المسجد
”کچھ لوگ ایک مسجد میں جمع ہو کر بآواز بلند لا الہ الا اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے لگے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسا عمل نہیں دیکھا۔ میں تو تمہیں بدعتی ہی سمجھتا ہوں۔ آپ مسلسل یہی بات دوہراتے رہے حتی کہ انہیں مسجد سے نکال دیا۔“ [المحيط البرهاني فى الفقه النعماني لابن مازة الحنفي : 314/5]
اگرچہ لوگوں کا مل کر بلند آواز سے ذکر کرنا اور درود پڑھنا بے اصل اور بدعت ہی ہے، جو بہت سی نصوص شرعیہ اور صحابہ کرام کے فتاوی کی بنا پر مردود ہے، لیکن یہ قول بےسند ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹا منسوب کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود بعض حنفی فقہا نے اپنی کتابوں میں اسے ذکر کرنے کے بعد قد صح کے الفاظ لکھے ہیں۔ دیكھيں : [المحيط البرهاني فى الفقه النعماني لابن مازة الحنفي : 314/5، رد المحتار : 398/6، غمز عيون البصائر فى شرح الأشباه والنظائر للحموي الحنفي : 60/4، بريقة محمودية للخادمي الحنفي : 54/4، درود شريف پڑهنے كا شرعي طريقه از محمد سرفراز خان صفدر ديوبندي : 30]

یاد رہے کہ سرفراز صفدر صاحب نے قد صح کا ترجمہ ”صحیح سند“ کیا ہے۔ کوئی بتائے گا کہ جس قول کی سند دنیا جہاں میں نہ ہو اور جسے بعض ”فقہا“ نے خود گھڑ لیا ہو، اس کی سند کیسے ”صحیح“ ہو جاتی ہے ؟

◈ حافظ سیوطی (839۔ 911 ھ) لکھتے ہیں :
قلت : هذا الأثر عن ابن مسعود یحتاج إلى بيان سنده، ومن أخرجه من الأئمة الخفاظ فى كتبهم
”میں کہتا ہوں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت اس بات کی محتاج ہے کہ اس کی سند بیان کی جائے اور یہ بتایا جائےکہ کن ائمہ حفاظ نے اسے اپنی کتب میں جگہ دی ہے ؟ ’’ [الحاوي للفتاوي : 472/1]

◈ ابن حجر ہیتمی (909۔974ھ) لکھتے ہیں :
فلم يصح عنه، بل لم يرد
”یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، بلکہ اس کا کتب محدثین میں کہیں وجود ہی نہیں۔“ [الفتاوي الفقهية الكبري : 177/1]

◈ علامہ عبدالرؤوف مناوی (952۔ 1031ھ) لکھتے ہیں :
فغير ثابت ”یہ روایت غیر ثاہت ہے۔“ [فيض القدير شرح الجامع الصغير : 457/1]

◈ علامہ آلوسی حنفی (1217۔ 1270ھ) لکھتے ہیں :
لا يصح عند الحفاظ من الأئمة المحدثين
”یہ روایت حفاظ ائمہ محدثین کے ہاں ثابت نہیں۔“ [روح المعاني : 479/8]

مجالس اہل حدیث کا اعزاز :
محدثین کرام اور ان کے پیروکاروں، یعنی اہل حدیثوں کی مجالس و محافل کا یہ اعزاز ہے کہ ان میں بکثرت درود پڑھا جاتا ہے۔
سابقہ سطور میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہر طویل مجلس میں ایک بار درود پڑھنا فرض ہے۔ اہل حدیث کی مجالس میں یہ فرض بھی پورا ہوتا ہے اور بطور استحباب بھی کئی دفعہ درود پڑھ لیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز و شرف کی بات ہے، جیسا کہ :
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أولى الناس بي يؤم القيامة أكثرهم على صلاة
”روز قیامت سب لوگوں سے بڑھ کر میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر زیادہ درود پڑھتے ہوں گے۔“ [سنن الترمذي : 484، وسندۂ حسن]
↰ حدیث کو امام ترمذی اور حافظ بغوی [شرح السنن : 686] رحمها اللہ نے ”حسن غریب“، جب کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ [911] نے ”صحیح“ کہا ہے۔
اس کا راوی موسیٰ بن یعقوب زمعی راوی جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م : 354ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
فى هذا الخبر دليل على أن أولى الناس برسول الله صلى الله عليه وسلم فى القيامة يكون أصحاب الحديث، إذ ليس من هذه الأمة قوم أكثر صلاة عليه صلى الله عليه وسلم منهم
”یہ حدیث بتاتی ہے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے اہل الحدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہوں گے، کیوں کہ اس امت میں کوئی گروہ اہل حدیث سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھتا۔“ [صحيح ابن حبان : 911]

◈ حافظ محمد بن عبدالرحمن بن زیاد، ابوجعفر، اصبہانی رحمہ اللہ (م : 332 ھ) فرماتے ہیں :
فيه دليل على تفضيل أصحاب الحديث، لا نعلم أحدا أكثر صلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم
”اس حدیث میں اہل الحدیث کی فضیلت کی دلیل موجود ہے۔ ہمارے علم میں ان سے بڑھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والا کوئی نہیں۔“ [طبقات المحدثين باصبهان والواردين عليها : 223/4]

◈ امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ (م : 430ھ) فرماتے ہیں :
وهذه منقبة شريفة يختص بها رواة الآثار ونقلتها؛ لأنه لا يعرف عليه لعصابة من العلماء من الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر مما يعرف لهذه العصابة نسخا وذكرا
”یہ اعزاز والی منقبت ہے جو احادیث کو روایت اور نقل کرنے والے لوگوں کے ساتھ خاص ہے، کیوں کہ علما کے کسی بھی طبقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا زیادہ درود معلوم نہیں، جتنا اس گروہ کا لکھ اور بول کر درود پڑھنا معلوم ہے۔“ [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي : 35، وسنده صحيح]

◈ امام سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ (97۔ 161ھ) فرماتے ہیں :
لو لم يكن لصاحب الحديث فائدة إلا الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإنه يصلي عليه ما دام فى الكتاب
اگر اہل حدیث کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے ہی کا فائدہ ہو (تو یہی شرف سب سے عظیم ہے)، کیوں کہ وہ جب تک پڑھنے لکھنے میں مصروف رہتا ہے، درود پڑھتا ہی رہتا ہے۔“ [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي، ص : 35، وسنده صحيح]

◈ علامہ عمر بن علی، ابوحفص، بزار رحمہ اللہ (م 749 ھ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وكان لا يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم قط؛ إلا ويصلي ويسلم عليه، ولا والله، ما رايت احدا اشد تعظيما لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا أحرص على أتباعه، ونضر ما جاء به منه
شیخ الاسلام رحمہ اللہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ضرور پڑھتے۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ تعظیم کرنے والا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر زیادہ حرص رکھنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی زیادہ نصرت کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔“ [الأعلام العلية فى مناقب ابن تيمية، ص : 28]

➍ نماز جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود :

نماز جنازہ میں بھی درود پڑھنا فرض ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں درود پڑھنے کا جو حکم دیا ہے نماز جنازہ اس سے خارج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نماز جنازہ کا نبوی طریقہ درود سے خالی نہیں۔
❀ سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
السنة فى الصلاة على الجنازة أن تكبر، ثم تقرا بأم القرآن، ثم تصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ثم تخلص الدعاء للميت، ولا تقرا إلا فى التكبيرة الأولى، ثم تسلم فى نفسه عن يمينه
’’ نماز جنازہ میں نبوی طریقہ یہ ہے کہ آپ تکبیر کہیں، پھر سورۂ فاتحہ کی قرأت کریں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں، پھر میت کے لئے خلوص کے ساتھ دعا کریں، پہلی تکبیر کے علاوہ قرأت نہ کریں۔ پھر اپنے دل میں اپنی دائیں طرف سلام پھیر دیں۔ [المنتقيٰ لابن الجارود : 540، و سندهٔ صحيح]

◈ امام زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أخبرني أبو أمامة بن سهل بن خنيف، وكان من كبراء الأنصار وعلمائهم، وابناء الذين شهدوا بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، أخبره رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الصلاة على الجنازة، أن يكبر الإمام، ثم يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ويخلص الصلاة فى التكبيرات الثلاث، ثم يسلم تسليما خفيا حين ينصرف، والسنة أن يفعل من ورائه مثل ما فعل إمامه، قال الزهري : حدثني بذلك أبو أمامة، وابن المسيب يسمع، فلم ينكر ذلك عليه، قال ابن شهاب : فذكرت الذى أخبرني أبو أمامة من السنة فى الصلاة على الميت لمحمد بن سويد، قال : وأنا سمعت الضحاك بن قيس يحدث، عن حبيب بن مسلمة فى صلاة صلاها على الميت مثل الذى حدثنا أبو أمامة
”مجھے ابوامامہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی۔ ابوامامہ رضی اللہ عنہ انصار کے بزرگ ترین لوگوں اور علمائے کرام میں سے تھے، نیز غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے والے صحابہ کرام کی اولاد میں سے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے ان کو یہ بیان کیا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے، پھر خاموشی سے سورۂ فاتحہ کی قرأت کرے، پھر (پہلی تکبیر کے بعد) تین تکبیروں میں نماز ختم کرے۔ امام کی اقتدا کرنے والے کے لئے بھی سنت یہی ہے کہ وہ اسی طرح کرے، جیسے اس کا امام کرتا ہے۔ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ جب ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث بیان فرمائی تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ سن رہے تھے، لیکن انہوں نے اس کا رد نہیں فرمایا۔ امام زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ نماز جنازہ کے نبوی طریقے والی حدیث محمد بن سوید کو سنائی تو انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ کا وہی طریقہ بیان کر رہے تھے، جو ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔“ [المستدرك على الصحيحين للحاكم : 360/1، السنن الكبرى للبيهقي : 40/4، و سندهٔ صحيح]
↰ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنه سأل عبادة بن الصامت عن الصلاة على الميت، فقال : انا و الله اخبرك، تبدا فتكبر، ثم تصلي على النبى صلى الله عليه وسلم وتقول: اللهم ان عبدك فلانا كان لا يشرك بك شيئا، انت اعلم به، ان كان محسنا، فزد فى احسانه، وان كان مسيئا، فتجاوز عنه، اللهم، لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده.
انہوں نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں ضرور آپ کو بتاؤں گا۔ آپ تکبیر کہہ کر ابتدا کریں، پھر (فاتحہ پڑھنے کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں اور کہیں : اے اللہ ! تیرا یہ بندہ تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا۔ تو اس کو سب سے زیادہ جاتا ہے۔ اگر یہ نیوکار تھا تو اس کی نیکی میں مزید اضافہ کر دے اور اگر یہ خطا کار تھا تو اس سے درگزر فرما۔ اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھنا اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر دینا۔ ‘‘ [السنن الكبري للبيهقي : 40/4، و سندهٔ صحيح]

◈ عبید بن سباق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
صلي بنا سهل بن حنيف على جنازة، فلما كبر التكبيرة الاولي، قرا بأم القرآن حتى أسمع من خلفه، قال : ثم تابع تكبيرة حتى إذا بقيت تكبيرة واحدة، تشهد تشهد الصلاة، ثم كبر وانصرف .
”ہمیں سیدنا سہل بن حنیف نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جب انہوں نے پہلی تکبیر کہی تو سورۂ فاتحہ (اتنی اونچی) پڑھی کہ مقتدیوں کو سنائی۔ پھر باقی تکبیریں کہتے گئے۔ جب ایک تکبیر رہ گئی تو نماز کے تشہد کی طرح تشہد (درود و سلام) پڑھا۔ پھر تکبیر کہا اور سلام پھیر دیا۔ [سنن الدارقطني : 73/2، السنن الكبري للبيهقي : 39/4، و سندهٔ حسن]

◈ ابوسعید مقبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أنه سأل أبا هريرة كيف تصلي على الجنازة ؟ فقال أبو هريرة : أنا لعمر الله أخبرك، أتبعها من أهلها، فإذا وضعت كبرت وحمدت الله، وصليت على نبيه، ثم أقول : اللهم إنه عبدك، وابن عبدك، وابن أمتك، كان يشهد أن لا إله إلا أنت, وأن محمدا عبدك ورسولك، وأنت أعلم به، اللهم إن كان محسنا فزد فى إحسانه، وإن كان مسيئا فتجاوز عن سيئاته، اللهم لا تحرمنا، أجره ولا تفتنا بعده
”انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نماز جنازہ کیسے ادا کرتے ہیں ؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں آپ کو بتاتا ہوں۔ میں میت کے گھر سے اس کے پیچھے چلتا ہوں، پھر جب اسے رکھ دیا جاتا ہے تو میں اللہ اکبر کہہ کر اللہ کی حمد (سورۂ فاتحہ) پڑھتا ہوں اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں۔ پھر یہ دعا کرتا ہوں : اے اللہ ! بلاشبہ یہ تیرا بندہ، تیرے بندے اور تیری بندی کا بیٹا ہے۔ یہ گواہی دیتا تھا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں۔ تو اسے بہتر جانتا ہے۔ اسے اللہ ! اگر یہ نیک تھا تو اس کی نیکی میں اضافہ فرما دے اور اگر یہ خطا کار تھا تو اس سے درگزر فرما۔ اسے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھنا اور اس کے بعد ہمیں فتنے کا شکار نہ بننے دینا۔“ [المؤطأ للامام مالك : 228/1، فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل :، 93 و سندهٔ صحيح]

◈ امام عامر شعبی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أول تكبيرة من الصلاة على الجنازة ثناء على الله عز وجل، والثانية صلاة على النبى، والثالنه دعاء للميت، والرابعة السلام.
”نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثنا (سورۂ فاتحہ) ہے، دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود، تیسری کے بعد میت کے لئے دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہے۔“ [فضل الصلاة على النبى للامام إسماعيل بن إسحاق القاضي : 91، وسنده صحيح]
بعض لوگ نماز جنازہ کے درود میں كما صليت وسلمت وباركت ورحمت کا اضافہ کرتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اس پر کوئی دلیل نہیں اور یہ بعد کی ایجاد ہے۔ نماز کے الفاظ اپنی طرف سے نہیں بنائے جا سکتے۔

 

اس تحریر کو اب تک 96 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply