درود کی آواز

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : دنیا میں جہاں کہیں بھی دردو پڑھا جاتا ہے کیا اس کی آواز خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں جیسا کہ ایک روات سے بھی ایسا ثابت ہوتا ہے۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [33-الأحزاب:56]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ و سلام بھیجتے رہو۔“
↰ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر صلاۃ و سلام پڑھنا چاہیے۔
↰ لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جہاں بھی دورد پڑھا جاتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے ہیں۔

◈ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے صلاۃ و سلام کے متعلق جو کتاب بنام ’’ جلاء الافہام“ لکھی ہے اس میں ایک روایت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ درج کی ہے :

وعن أبي الدرداء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثروا من الصلاة علي يوم الجمعة فإنه يوم مشهود تشهده الملائكة ليس من عبد يصلي علي إلا بلغتني صوته حيث كان قلنا وبعد وفاتك قال وبعد وفاتي إن الله تعالى حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء
’’ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جمعہ والے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔ یہ ایسا دن ہے کہ جس میں فرشتے حاضر ہو تے ہیں۔ کوئی آدمی مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر مجھ تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔“ ہم نے کہا : ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میری وفات کے بعد بھی۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔“

تبصرہ : یہ روایت درست نہیں۔
◈ امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ان اسناده لا يصح
’’ اس کی سند صحیح نہیں۔“ [القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع ص 159]

↰ اس کی سند کے صحیح نہ ہونے کی دو وجوہات ہیں :
① سعید بن ابی مریم اور خالد بن یزید کے درمیان انقطاع ہے۔ یعنی سعید بن ابی مریم نے یہ حدیث خالد سے نہیں سنی اس کی وجہ یہ ہے کہ خالد بن یزید 139 ھ میں فوت ہوئے۔ [تهذيب التهذيب 2/ 178] جکہ سعید بن ابی مریم کی ولادت 144 ھ میں ہوئی۔ [تهذيب التهذيب 2/ 296] گویا کہ سعید خالد کی وفات کے پانچ سال بعد پیدار ہوئے اور پھر یہ روایت صحیح کیسے ہو سکتی ہے ؟

② دوسری علت یہ ہے کہ سعید بن ابی ہلال اور ابوالدردارء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی انقطاع ہے۔ سعید بن ابی ہلال مصر میں 70ھ میں پیدا ہوئے۔ [تهذيب التهذيب : ص/52] لہذٰا 70ھ میں پیدا ہونے والے آدمی کی ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کیسے ہو سکتی ہے ؟ وہ تو ان کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیائے فانی سے جا چکے تھے۔

◈ امام صلاح الدین العلائی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ :
سعید بن ابی ہلال کی روایت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرسل ہے۔ [جامع التحصيل : 22224] اور جابر رضی اللہ عنہ مدینہ میں 70 ھ کے بعد فوت ہوئے۔ [تھذیب التھذیب ص/52 ] تو جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت مرسل ہے تو جابر رضی اللہ عنہ سے پہلے فوت ہو جانے والے صحابی ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟ لہذٰا یہ روایت ضعیف ہے۔

علاوہ ازیں :
◈ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے القول البدیع میں طبرانی کبیر کے حوالے سے یہ روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
اخرجه الطبراني في الكبير بلفظ اكثروا الصلاة يوم الجمعة فانه يوم مشهود تشهده الملائكة ليس من عبد يصلي علي الا بلغتي صلاته حيث كان
’’ یعنی جلاء الافھام میں اس روایت کے اندر بلغتني صوته اور القو ل البدیع میں بلغتني صلاته کے الفاظ ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب ہے مجھے اس کی آواز پہنچتی ہے اور دوسری کا مطلب ہے مجھے اس کا درود پہنچتا ہے۔ دوسری صورت میں مسئلہ ہی حل ہو جا تا ہے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درود پہنچا دیا جاتا ہے۔ بہرکیف جلا ء الافھام والی روایت کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو درود کی آواز پہنچانے کا ذکر ہے اسنادی لحاظ سے قابل احتجاج نہیں۔

 

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply