خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں!

تحریر : حافظ ندیم ظہیر

معاشرے کے اندر پھیلتے ہوئے ”روشن خیالی و اعتدال پسندی“ کے جرثومے اس قدر تیزی سے بھولے بھالے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں کہ میرا قلم ان کے تعاقب سے قاصر ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کو اپنی سوچ، فکراور نظریے کے مطابق بنانا ان کا مقصد عظیم ہے۔ حتی کہ شریعت اسلامیہ بھی ان نظریاتی کاوشوں سے محفوظ نہیں رہی۔

روشن خیالی کا راگ الاپنے والے دین محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بھی اپنے خود ساختہ نظریے کے قالب ہیں ڈھالنا اپنی تگ و دو کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں بہت سے سکالر اور دانش ور مستعار مل جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے مفکرین کا مطمح نظر شہیدوں میں نام لکھانا ہوتا ہے۔ یہ حضرات شہرت کے بھوکے اور مال و متاع کے حریص ہوتے ہیں۔

”چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کے مصداق یہ لوگ زمانے کی زبان بولتے ہیں اور اپنے اکابرین کے کرتوتوں کو الدين يسر کے تحت ”اعمال صالحہ“ بنا کر پیش کرنے کی سعی نامراد کرتے ہیں۔ موسیقی، آلات طرب، اختلاط مردوزن اور مصوری جیسے غیر شرعی امور کی حلت پر فتوے ان کی تحریر و تقریر کا خاصہ ہیں۔
قارئین کرام ! دین اسلام کو اس طرح سمجھنا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا بہت ضروری ہے۔

✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ”پھر اگر وہ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ) ایمان لائے ہو تو انہوں نے ہدایت پالی۔“ [ 2-البقرة:137 ]
اپنی عقل، فہم اور لغات کا سہارا لے کر دین کو اپنی مرضی سے سمجھنا گمراہی ہے۔ بعض من چلے تھری پیس میں ملبوس، کلین شیو [Clean Shave] مخلوط مجالس و محافل [Functions] میں بے حیائی و فحاشی کی عکاسی کرتے ہوئے ایسے بھی نظر آتے ہیں جو اپنی اس چوری پر سینہ زوری سے کام لیتے ہوئے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ”دین میں کوئی تنگی نہیں ہے۔“ [ 2-البقرة:256 ] یا پھر الدين يسر ”دین آسان ہے۔ “ [ بخاري : 39] سے باطل استدلال کرتے ہیں حالانکہ قرآن و حدیث متقاضی ہے کہ اس پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت کو بہتر بنایا جائے نہ کہ ان میں تحریفات اور غلط تاویلات کر کے اپنے غیر شرعی امور کو سنوارا جائے۔

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں !
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

 

یہ تحریر اب تک 76 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply