خلیفہ بلا فصل کون؟ حدیثِ سفینہ کی وضاحت

تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

[arabic-font]

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ۔ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ  

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

”اللہ تعالی نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیساکہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی، جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے لئے ضرور ان کے اس دین کو طاقت دے گا، جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور وہ ضرور ان کے خوف کے بعد امن لائے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔۔۔

امام عبدالرحمن بن عبدالحمید المہریؒ (م۲۹۱ھ)فرماتے ہیں:

[arabic-font]

أری ولا یۃ أبی بکر و عمر رضی اللہ عنھما فی کتاب اللہ و عزّو جلّ،یقول اللہ:( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ۔۔۔۔)

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

میں سید نا ابوبکر اور سید نا عمر کی خلافت کو قرآن کریم میں دیکھ رہا ہوں ، اللہ تعالی فرماتے ہیں:

[arabic-font]

 وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ۔۔۔۔ 

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

(اللہ تعالی نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلافت عطاکرے گا)۔

(تفسیر ابن ابی حاتم:١٠/١٩١،وسندہ صحیح)

امام آجریؒ(م ٣٦٠ھ) لکھتے ہیں:

اللہ تعالی ہم پر رحم کرے! جان لو کہ سید نا ابوبکر ، سید نا عمر، سید نا عثمان‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت کا بیان اللہ تعالٰی کی کتاب‘ سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلّم ‘ اقوال صحابہ اور اقوال تابعین میں موجود ہے‘ کوئی مسلمان جسے اللہ تعالٰی نے عقل دی ہے‘ اس میں شک نہیں کر سکتا۔ قرانی دلیل تو یہ فرمان باری تعالٰی ہے:

[arabic-font]

وَعَدَاللَّہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُو مِنْکُم وَ عَمِلُوْ الصٰلِخٰتِ لَیَستَخلِفَنَّھُمْ فِیْ الاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَف الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضِی لَھُمْ وَلیُبَدِّلَنَّھُمْ بَعْدَ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَّعْبُدُوْنَنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْاً۔۔۔) 

[/arabic-font]

(النور :۲٤/۵۵)

’’اللہ تعالی نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیساکہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی، جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے لیے ضرور ان کے اس دین کو طاقت دے گا، جس کو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور وہ ضرور ان کے خوف کے بعد امن لائے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔۔۔‘

اللہ تعالیٰ کی قسم ہے ! اللہ تعالٰی نے ان سے لیا ہوا اپنا وعدہ پورافرمایا اور رسولِ کریمﷺ کے بعد ان کو خلافت اور علاقوں میں حکومت دی‘ انہوں نے فتوحات کیں،اموال کو غنیمت میں حاصل کیا، کافروں کے بچوں اور بیویوں کو قید کیا، ان کی خلافت میں بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے تھے”جو لوگ اسلام سے مرتد ہو گئے تھے ان سے لڑائی کی، حتٰی کہ ان کو جلا وطن کر دیا ، ان میں سے بعض نے رجوع کر لیا۔ اسی طرح سید نا ابو بکر صدیقؓ نے کیا‘ ان کی مرتدین کے خلاف تلوار تا قیامت برحق ہے،اسی طرح خلیفہ رابع سید نا علی ا بن ا بی طالبؓ تھے‘ ان کی خارجیوں کے خلاف  لڑائی تا قیامت برحق ہے۔اللہ تعالٰی نے خلافت کی وجہ سے اپنے دین کوعزت دی، دشمنوں کو ذلیل کیااور مشرکین کے ناپسند کرنے کے باوجوداللہ کا امرغالب ہوا۔ خلفا ئے راشدین نے مسلمانوں کیلئے معزز طریقے چھوڑے، وہ اہل سنت والجماعت پر مشتمل تمام امتِ محمدیہ علٰی صاحبھا السلاۃ والسلام پر برکت تھے۔

( الشریعہ للاجری : (٥٦٤-٥٦٥)

امام بیہقی ؒ (م ٤٥٨ھ) کہتے ہیں:

[arabic-font]

و قّّد دلَ کتاب اللّہ عزّ وَ جلّ علی امامۃ ابی بکرو من بعدہ من الخلفاء’ قال اللّہ عزّ و جلّ: (النور : (٢٤/۵۵) وَعَدَاللَّہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُو مِنْکُم وَعَمِلُوْ الصٰلِخٰتِ لَیَستَخلِفَنَّھُمْ فِیْ الاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضِی لَھُم۔۔۔

[/arabic-font]

اللہ تعالی نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیساکہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی، جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے لیے ضرور ان کے اس دین کو طاقت دے گا، جس کو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔‘‘

( العتقاد للبیھقی: ٤۸٣ )

حدیثِ سفینہ

ِِ[arabic-font]

قا ل اما م ابو داؤد(الطّیاسّی ): حدثنا الحشرج بن نماتۃ قال : حدثنا سعید بن جھمان‘ قال: خطبنا رسول اللّہ صلّٰی اللّہ علیہِ وسلّم فقال: الخلافۃ فی امتّی ثلاثون سنۃ ‘ثم یکون ملک ثمّ قال: سفینۃ: امسک خلافۃ ابی بکر و خلافۃ عمر ثنتا عشرۃ سنۃ ‘ ثمّ خلافۃ علّی تکملۃ الثّلاثین‘ قلت: فمعاویۃ؟ قال: کان اوّل الملوک ۔‘‘ 

[/arabic-font]

سفینہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اورفرمایا‘ میری امت میں خلافت تیس سال ہو گی‘ پھر بادشاہت ہو گی‘ سفینہ نے کہا تو شمار کر لے‘ سید نا ابو بکررضی اللہ عنہ اور سید نا عمرؓ کی خلافت بارہ سال اور چھ ماہ تھی‘ سیدنا عثمانؓ کی خلافت بارہ سال تھی‘ پھر سیدنا علیؓ نے خلافت کے تیس سال پورے کر دئیے‘ (سعید بن جہمان کہتے ہیں) میں نے کہا پھر سیدنا معاویہؓ (کا کیا معاملہ تھا)‘فرمایا‘وہ پہلے بادشاہ تھے ۔‘‘

( مسند الطیالسی:ص۱۵۱ح : ۱۲۰۳‘مسند الامام احمد : ۵/۲۲۱‘سنن الترمذی : ۲۲۲۶‘وسندۃ حسن)

الحشرج بن نباتہ کی متابعت سنن ابی داؤد (٢۲٢٦) وغیرہ میں عبد الوارث بن سعید البصری (ثقہ ٫ثبت) نے اور مسند احمد ( ٥/٢٢٠-٢٢١)وغیرہ میں حماد بن سلمہ(ثقہ ثبت) اور سنن ابی دائود (  ٤٦٤٧  ) میں الاعوام بن حوشب الواسطی نے کر رکھی ہے۔رہا مسئلہ سعید بن جہمان کا تو جمھور نےاس کی توثیق کی ہے۔

 ١:  امام احمد بن حنبل ( السنہ للخلال : ص ٤١٩ ) ٫ ٢: امام یحی بن معین ( تاریخ یحی بن معین٣٦٩٥ )  ٣٫:  امام ابن عدی (الکامل :  ٣/٤٠٢قالَ : أرجو انّھ لا بأس بہ) ٤٫: امام یعقوب بن سفیان ُ ( المعرفہ والتاریخ: ٢/٧٨ ) ٫ ٥:  امام ترمذی (السنن  ٢٢٢٦ بتحسین حدیثہ ) ٫ ٦ :امام ابن ابی عاصم ُ (السنہ  ١٢٢٢ بتصیح حدیثہ  ) ٧٫: امام ابن الجارود ُ ( المتقی : ٩٧٦ بتصیح حدیثہ) ٫ ٨: امام ابن حبان (الثقات :٤/٢٦٨  )٩: امام حاکمُ (المستدرک:٣/٧١ بتصیح سندہ)اور ١٠: حافظ ہیشمی   (مجمع الزوائد ٩/٣٦٦) رحممہم اللہ وغیرہ ہم نے ‘ ‘ثقہ کہا ہے’کسی ثقہ امام نے ان کو ”ضعیف نہیں کہا”- مدعی پر دلیل لازم ہے!

رہا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  (التاریخ الصغیر ١/١٩٦ ) اور حافظ ساجی ( تھذیب التھذیب:٤/١٤) کا لا یتابع علی حدیثہ۔کہنا تو یہ مضر نہیں٫کیونکہ جب یہ واضح ثقہ ہیں تو ان کی متابعت نہ ہونے میں کوئی حرج نہیں،اسی لئے حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس راوی کو اپنی کتاب میں من تکلم فیہ فھو موثق أو صالح الحدیث (١٢٧)میں ذکر کیا ہے،لہذا حافظ ذہبی کا قوم یصعّفون  (میزان الاعتدال:٢/١٣١ ) کہنا بے معنی ہے۔اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ کا شیخ یکتب حدیثہ و لا یحتج بہ کہنا بھی جمھور کے خلاف ہونے کی وجہ سے نا قابلِ التفات ہے۔

امام احمد بن حنبل(السنہ للخلال: ص ٤١٩ ) ،امام ابن حبان ( ٦٦٥٧) ،امام ابنِ ابی عاصم (السنۃ:١٢٢٢ ) اور شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ (مجموعہ الفتاوی:٣٥/١٨ )رحمہم اللہ نے اس حدیث کو جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ (المستدارک: ٣/٧١ )اور بو صیری (اتحاف الخیرۃ:٨/٢٧٦ ) نے اس سند کو  ‘‘صحیح ’’  کہا ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ (سنن ترمذی: ٢٤٢٦ ) اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ(موافقۃ الخبر الخبر: ١/١٤١ ) نے اس حدیث کو ”حسن قرار دیا ہے۔

ساتھ ہی حافط ابن حجر فرماتے ہیں: ‘‘سعید بن جہمان صغیر تابعی اور صد وق راوی تھے۔’’

  کسی ثقہ محد ث نے اس حد یث پر کلام نہیں کی’بلکہ محد ثین کرام نے اس حد یث کی ‘‘تصحیح ’’کر کے اسے قبول کیا ہے’لہذا ابن خلد ون مورخ (تاریخ ابن خلدون: ٢/٤٥٨ ) اور ابن العربی مالکی (العواصم من القواصم ص ٢٠١ ) کا اسے بغیر دلیل کے تسلیم نہ کرنا بے وقعت ہے۔

حدیث سفینہ سے محد ثین کا استدلا ل

١: امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں میمونی بیان کرتے ہیں:   ”میں نے امام احمد سے سُنا٫ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کا خلافت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ فرمایا ابو بکر، عمر، عثمان،علی رضی اللہ عنھم  (ہی خلیفہ تھے ) کہا گیا گویا ،کہ آپ حدیث سفینہ کی طرف جاتے ہیں؟ فرمایا، میں حدیث سفینہ کی طرف بھی جاتا  ہوں اور ایک اور چیز کی طرف بھی ،وُہ یہ کہ میں نے سید نا علی رضی اللہ عنھ کو دیکھا ہے کہ وہ سید نا ابوبکر،عمر،عثمان رضی اللہ عنھم  کے د ور میں امیر المومنین کے نام سے موسوم نہیں ہوئے،نہ ہی آپ  نے جماعت، جمعہ اور حدود قائم کی ہیں، لیکن سید نا عثمان رضی اللہ عنھ کی شہاد ت کے بعد آپ  نے یہ کام کیا ہے ،معلوم ہوا ہے کہ اس وقت آپ کیلئے یہ کام واجب ہو گیا تھا، جو پہلے واجب نہ تھا۔”

(الاعتقاد للبھیقی : ٤٦٩ وسندہ صحیح )

نیز امام موصوف فرماتے ہیں  ‘‘خلافت کے بارے میں ہم حدیث سفینہ کی طرف جاتے ہیں ’’ (مسائل الامام احمد لعبداللہ: ١٨٣٣ )

٢: امام ابو الحسن العشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

یہ حدیث ائمہ اربعہ کی خلافت پر دلالت کرتی ہے  ابانۃ عن اصول الدیانہ للاشعری: ٢٥١ )

٣: امام ابنِِ حبان رحمہ اللہ(صحیح ابن حبان : ٦٦٥٧ )٤: امام ابنِ جریر طبری رحمہ اللہ(صریح السنہ:ح٧ )٥:امام الآجری (الشریعہ:٥٦٤ )اور امام بہیقی (الاعتقاد: ٤٦٧ ) رحمہم اللہ بھی اس حدیث سے خلفائے اربعہ کا ہی اثبات کرتے ہیں

اس تحریر کو اب تک 25 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply