خلافت راشدہ کے تیس سال والی حدیث پر شعیوں اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ

تحریر: حافظ زبیر علی زئی 

اس مضمون میں ہم مشہور حدیث”خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ” الخ کی تحقیق و تخریج پیش کر رہے ہیں تاکہ عام لوگوں پر بھی حق
واضح ہو جائے۔

 امام ابو داؤد السجستانی نے کتاب السنن(ج ۲ص۲۹۰ کتاب السنہ باب فی الخلفاء ح ۴۶۴۶)امام ابو عیسی الترمذی نے کتاب السنن (ج ۲ص۴۶، ابواب الفتن باب ماجاء فی الخلافۃ ح ۲۲۲۶)  امام ابو عبدالرحمٰن النسائی نے کتاب السنن الکبریٰ (ج۵ص۴۷ح۸۱۵۵کتاب المناقب باب ۵، ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم اجمعین) اور امام ابو حاتم بن حبان البستی نے الصحیح (الاحسان ۶۹۰۴،۶۶۲۳، موارد الظمآن : ۱۵۳۵،۱۵۳۴) میں اور دوسرے محدثین نے بہت سی سندوں کے ساتھ سعید بن جمہان سے اس نے سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ:

قال رسول اللہ ﷺ: ‘‘خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشاء أو ملکہ من یشاء،
قال سعید: قال لی سفینۃ: أمسک علیک، أبا بکر سنتین و عمر عشراً و عثمان اثنی عشر و علیاً کذا، قال سعید قلت لسفینۃ: إن ھؤ لاء یزعمون أن علیاً لم یکن بخلیفۃ قال: کذبت أستاہ بنی الزرقاء یعنی بنی مروان’’
نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا(اپنی ) حکومت دے گا۔سعید نے کہا: سفینہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابو بکر کے دو سال اور عمر کے دس سال اور عثمان کے بارہ سال اور علی کے اتنے(یعنی چھ سال) سعید نے کہا: میں نے سفینہ سے کہا: یہ لوگ بزعم خویش کہتے ہیں کہ: علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں تھے۔ تو انہو ں نے کہا: ان بنوزرقاء، بنو مروان کی پیٹھوں نے جھوٹ کہا ہے (یعنی یہ بات منہ سے نکلنے کے لائق نہیں ہے)۔  یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔ باقی مرویات میں تطویل و اختصار کا معمولی اختلاف ہے لیکن مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔

 اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن ہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا:
‘‘حدیث سفینۃ فی الخلافۃ صحیح وإلیہ أذھب فی الخلفاء’’
سفینہ کی خلافت کے بارے میں حدیث صحیح ہے اور میں خلفاء کے سلسلہ میں اس حدیث کا قائل ہوں۔
(جامع بیان العلم و فضلہ لا بن عبدالبرج ۲ص۲۲۵نیز دیکھیئے کتاب السنۃ لعبد اللہ بن احمد بن حنبل ۲؍۵۹۰ح ۱۴۰۰)
امام ابن ابی عاصم نے کہا: “حدیث ثابت من جھۃ النقل، سعید بن جمھان روی عنہ حماد بن سلمۃ و العوام بن حوشب
 و حشرجیہ حدیث بلحاظ نقل ثابت ہے از سعید بن جمہان (از سفینہ) اس سے حماد بن سلمہ، عوام بن حوشب اور حشرج بن نباتہ نے  یہ حدیث بیان کی ہے۔(کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ج ۲ص ۵۴۹، ۵۵۰ح۱۱۸۱، ۱۱۸۵)۔ حافظ ابن تیمیہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا  (السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ج ا ص ۷۴۴)۔امام حاکم نے بھی اسے صحیح کہا (المستدرک: ۳؍۷۱)۔ اس کے راوی سعید بن جمہان کو امام یحیی بن معین، امام نسائی، امام ابن حبان اور امام احمد نے ثقہ قراردیا۔امام ابو داؤد سے بھی اس کی توثیق مروی ہے۔ ابن عدی نے کہا: میرے خیال میں اس کے ساتھ کوئی حرج نہیں ہے(دیکھئے تھذیب التھذیب:۱؍۱۴)۔
حافظ ذھمی نے کہا:‘‘ صدوق وسط’’(الکاشف ج ا ص ۲۸۲)
حافظ ابن حجر نے کہا:‘‘ صدوق لہ أفراد’’ (تقریب التہذیب: ۲۲۷۹)

ان ائمہ کے مقابلے میں امام ابو حاتم الرازی نے کہا:”یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ”
’’ یعنی اس کی حدیث لکھی جاتی ہے مگر اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔”

یہ جرح متعدد وجوہ سے مردود ہے:

۱:یہ جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔

۲: نصب الرایہ للز یلعی(ج۲ص۴۳۹) پر ہے کہ:

‘‘وقول أبی حاتم: لایحتج بہ غیر قادح أیضاً فانہ لم یذکر السبب وقد تکررت ھذہ اللفظۃ منہ فی رجال کثیر ین من أصحاب الصحیح الثقات الأثبات من غیر بیان السبب کخالد الحذاء وغیرہ واللہ أعلم‘‘
امام ابو حاتم کا قول: لایحتج بہ، (یہاں) غیر قادح ہے کہ کیونکہ انہوں نے اس جرح کا کوئی سبب بیان نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اس کلمے کا استعمال صحیحین کے بہت سے ثقہ و ثبت راویوں کے بارے میں کیا ہے۔ مثلاً خالد الحذاء وغیرہ ، واللہ اعلم اور حافظ دھمی نے پر کہا:

‘‘إذا وثق أبو حاتم رجلاً فتمسک بقولہ فانہ لا یوثق إلا رجلاً صحیح الحدیث وإ ذ الین رجلاً أو قال فیہ: لا یحتج بہ، فتوقف حتی تری ما قال غیرہ فیہ فإن  وثقہ أحد فلا تبن علی تجریح أبی حاتم فإنہ متعنت فی الرجال قد قال فی طائفۃ من رجال الصحاح: لیس بحجۃ، لیس بقوی أو نحو ذلک‘‘
جب  امام ابو حاتم کسی شخص کو ثقہ قرار دیں تو اس بات کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو کیونکہ وہ صرف اس شخص کو ثقہ کہتے ہیں جو کہ صحیح الحدیث ہوتا ہے۔ اور اگر وہ کسی کی تضعیف کریں یا اس کے بارے میں ‘‘ لایحتج بہ’’ کہیں تو توقف کرو تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اوروں نے کیا کہا ہے؟ اور اگر کسی نے ثقہ کہا ہے تو پھر ابو حاتم کی جرح نہ مانو کیونکہ وہ اسماء الرجال میں متشدد ہیں۔ انہوں نے صحیحین کے ایک گروہ کے بارے میں لیس بحجۃ لیس بقوی وغیرہ کہا ہے۔ سیر اعلام النبلاء (ج ۳ص۲۶۰)

لہذا یہ جرح مردود ہے۔

۳: امام ابو حاتم پر بعض علماء نے متشدد ہونے کا الزام بھی لگا رکھا ہے۔ لہذا احمد بن حنبل جیسے معتدل محققین کے مقابلے میں ان کا قول  مردود ہے۔
امام الساجی کا قول‘‘لایتابع علی حدیثہ’’ بھی مبہم وغیر مفسر ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور یہ کوئی جرح بھی نہیں ہے۔ جب کسی شخص کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی عدم متابعت چنداں مضر نہیں ہے۔ چونکہ سعید بن جمہان کا ثقہ ہونا بد لائل قطعیہ ثابت ہو چکا ہے لہذا اس حدیث میں اس کا تفردذرہ بھی مضر نہیں ہے۔

منکرینِ حدیث کی کارستانیاں:

منکرین حدیث رسول ﷺ کا اصل مقصد یہ ہے کہ احادیث صحیحہ کو مکرو فریب کے ساتھ جعلی ثابت کر دیا جائے تاکہ عامۃ المسلمین کے اذھان میں دواوین اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور عدم اعتماد بیٹھ جائے پھر یہ مکار مداری ان سادہ لوح عوام کو صراط مستقیم سے اپنی آراء کی لاٹھی کے ساتھ دور ہانکتے جائیں۔ پھر نہ حدیث بچے اور نہ قرآن!

انہی منکرین حدیث میں سے ایک شخص ‘‘تمنا عمادی پھلواری’’ اپنی خود ساختہ کتاب“انتظار مہدی و مسیح” میں اس حدیث پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے ہوئے لکھتا ہے:

” اس سلسلہ روایت میں حشرج بن نباتہ الکوفی کا نام آپ نے دیکھا۔ یہ تقریباً تمام ائمہ رجال کے نزدیک ضعیف الحدیث اور لایحتج بہ منکر الحدیث ہے اور ان کی حدیثوں کی متابعتیں عموماً نہیں ملتیں”(ص ۵۷)

 عرض ہے کہ حشرج بن نباتہ کے بارے میں امام احمد نے کہا: ثقہ، ابن معین نے کہا: صالح، ثقۃ لیس بہ بأس ابو زرعہ نے کہا: لابأس بہ مستقیم الحدیث، ابن عدی نے کہا: لا بأس بہ، ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہا۔

ان کے مقابلے میں ابو حاتم نے کہا: صالح یکتب حدیثہولا یحتج بہ ، الساجی نے کہا: ضعیف ، ابن حبان نے  کہا: کان قلیل الحدیث منکر الروایۃ لایجوز الإ حتجاج بخبرہ إذا انفرد، نسائی نے ایک دفعہ لیس بالقوی کہہ کر جرح کی اور دوسری دفعہ لیس بہ بأس کہہ کر اس کی توثیق کی(ملخصاً من تہذیب التہذیب)حاکم اور ذھمی نے اس کی ایک حدیث کی تصحیح کی۔ (مستدرک ج ۳ ص۶۰۶) اسے علی(غالباً ابن المدینی) نے بھی ثقہ کہا(میزان الاعتدال ج ا ص ۵۵۱)حافظ حجر نے کہا: صدوق یھم(تقریب!)

خلاصہ یہ کہ یہ راوی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے۔ لہذا تمنا عمادی اپنے اس دعویٰ میں کاذب ہے کہ ” یہ تقریباً تمام ائمہ رجال کے نزدیک  ضعیف الحدیث۔۔۔ہیں”

تمنا عمادی کی کتاب میں اتنے زیادہ جھوٹ ہیں کہ ان کے جمع کرنے سے ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ مثلاً اسی کتاب کے ص ۵۴ پر یہ شخص لکھتا ہے:

“یمن میں معمر بن راشد جو ازدیوں کے غلام آزاد کردہ تھے متوفی ۱۵۴ھ جمع حدیث میں سرگرم رہے یہ آبان بن عباس مشہور کذاب سے روایت کرتے تھے، مگر آبان کی جگہ ثابت البنانی کا نام ظاہر کرتے تھے(تھذیب التھذیب ج ا ص ۱۰۱)مگر پھر محدثین ان کو پھر ثقہ ہی سمجھتے اور لکھتے ہیں”

اب نکالئے تھذیب التھذیب کا محولہ بالا صفحہ ، تو اس میں لکھا ہوا ہے کہ :

‘‘وحکی الخلیلی فی الإرشاد بسند صحیح أن أحمد قال لیحیی بن معین وھو یکتب عن عبدالرزاق عن معمر عن أبان نسخۃ تکتب ھذہ وأنت تعلم أن أبان کذاب؟ فقال یرحمک اللہ یا أ باعبداللہ! أکتبھا وأحفظھا حتی إذا جاء کذاب یرویھا عن معمر عن ثابت عن أنس أقول لہ: کذبت إنما ھو أ بان‘‘
اور خلیلی نے الارشاد میں صحیح سند کے ساتھ احمد سے نقل کیا کہ انہوں نے ابن معین سے اس وقت کہا جب وہ عبدالرزاق عن معمر عن ابان کا نسخہ لکھ رہے تھے۔ آپ یہ لکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ابان کذاب ہے؟ تو ابن معین نے کہا: اے ابو عبداللہ اللہ آپ پر رحم کرے میں اسے یاد کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں تاکہ اگر (تمنا عمادی جیسا) کوئی کذاب آئے اور اسے معمر عن ثابت عن انس سے روایت کرے تو میں اسے کہہ دوں کہ تونے جھوٹ کہا۔ معمر کی یہ روایات تو ابان کی سند کے ساتھ ہیں نہ کہ ثابت کی سند سے۔(تہذیب ج ۱ص ۱۰۱)

اب قارئین بتائیں کہ اس میں معمر کا کیا گناہ ہے انہوں نے جو سنا آگے بیان کردیا۔ اس نے ابان کی جگہ ابان کا نام ظاہر کیا اور ثابت کی جگہ ثابت کا نام، لہذا محدثین انہیں ثقہ نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں، مگر تمنا عمادی جیسے کذابین کی زبانیں اور قلم آزاد ہیں۔ وہ چاہیں تو دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر دیں مگر یاد رکھیں ایک دن روز جزا ضرور آنے والا ہے۔ اور پھر چھوٹے بڑے تمام اعمال کا حساب دینا پڑے گا!

یہ تو حشر ج بن نباتہ کے بارے میں صحیح موقف کی تحقیق تھی یہاں یہ بھی یاد رہے کہ وہ اس حدیث میں منفرد نہیں ہیں بلکہ درج ذیل اشخاص نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔

۱: عبدالوارث (ابو داؤد:۴۶۴۶)
۲: العوام بن حوشب(ایضاً:۴۶۴۷)
۳: حماد بن سلمہ(مسند احمد ج۵ص۲۲۱،۲۲۰)

لہذا حشر ج پر جرح ہر لحاظ سے مردود ہے۔

‘‘وھو حدیث مشھور من روایۃ حماد بن سلمۃ و عبدالوارث بن سعید و العوام بن حوشب و غیرہ عن سعید بن جمھان۔۔و اعتمد علیہ الإمام أحمد و غیرہ فی تقریر خلافۃ الخلفاء الراشدین الأربعۃ، وثبتہ أحمد، واستدل بہ علی من توقف فی خلافۃ علی: من أجل افتراق الناس علیہ، حتی قال أحمد : من لم یربع بعلی فی الخلافۃ فھو أضل من حمار أھلہ، ونھی عن مناکحتہ، وھو متفق علیہ بین الفقھاء وعلماء السنۃ و أھل المعرفۃ و التصوف وھو مذھب العامۃ‘‘
’’وإنما یخالفھم فی ذلک بعض (أھل) الأھواء من أھل الکلام و نحوھم کالر افضۃ الطاعنین فی خلافۃ الثلاثہ أوالخوارج الطاعنین فی خلافۃ الصھرین المنافیین : عثمان و علی أو بعض الناصبۃ النافین الخلافۃ علی أو بعض الجھال من المتسننۃ الواقفین  فی خلافتۃ‘‘
اور یہ حدیث حماد  بن سلمہ ، عبدالوارث بن سعید اور العوام بن حوشب وغیرہ کی روایت کے ساتھ مشہور ہے انہوں نے سعید بن جمہان سے یہ روایت کی ہے۔۔ اور اس روایت پر امام احمد وغیرہ نے چاروں خلفائے راشدین کی خلافت کے سلسلہ میں اعتماد کیا ہے اور احمد نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے۔ اور ان لوگوں پر یہ حجت پیش کی ہے جو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں توقف کرتے ہیں کیونکہ اس وقت لوگوں میں تفرقہ پیدا ہو گیا تھا  حتی کہ (امام) احمد نے کہا: جو شخص علی کو چوتھا خلیفہ نہ مانے وہ اپنے گھر کے گدھے سے زیادہ گمراہ ہے اور احمد نے ایسے شخص کے ساتھ رشتہ نکاح کرنے سے منع کیا اور یہ بات فقہاء ، علمائے سنت اور (دین کی) پہچان والے اور صالحین کے درمیان متفق علیہ ہے اور یہی عوام کا مذھب ہے اور اس عقیدہ میں ان کی مخالفت بعض بدعتیوں نے کی ہے اہل کلام میں مثلاً روافض جو کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت میں طعن کرتے ہیں اور خوارج نے جو کہ نبی ﷺ کے دونوں دامادوں عثمان و علی کی خلافت میں طعن کرتے ہیں یا بعض ناصبیوں نے جو کہ علی کی خلافت میں طعن کرتے ہیں یا ان نام نہاد سنی جاہلوں نے جو کہ علی کی خلافت میں توقف کرتے ہیں۔(مجموع فتاوی ج ۳۵ص۱۹،۱۸)

اس حدیث کو درج ذیل علماء نے صحیح ، حسن وقوی قرار دیا ہے:

۱: احمد بن حنبل
۲: الترمذی
۳: ابن جریر الطبری
۴: ابن ابی عاصم
۵: ابن حبان
۶: الحاکم
۷: ابن تیمیہ
۸: الذھمی
۹: ابن حجر العسقلانی (السلسلۃ الصحیحہ ۱؍۷۴۵ح۴۵۹)و الحمدللہ

بعض علماء نے اس حدیث کے دو شاہد بھی ذکر کئے ہیں:

۱: عن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ(ج ۶ص۳۴۲ و سند ضعیف، فیہ علی بن زید بن جد عان: ضعیف)
۲: عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ(الواحدی فی الوسیط بحوالہ: الصحیحہ ص ۷۴۵ج او سندہ ضعیف)

فائدہ نمبر (۱): بعض متاخرین نے دعویٰ کیا ہے کہ سفینہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح مسلم کی اس حدیث کے خلاف ہے جسے جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺ سے بیان کیا ہے کہ:

‘‘إن ھذا الأمر لا ینقضی حتی یمضی فیھم اثنا عشر خلیفۃ ۔۔۔ کلھم من قریش’’
یہ دین ختم نہیں ہو گا حتی کہ اس میں بارہ خلیفہ نہ ہو گزریں۔۔۔ (اور وہ ) سارے کے سارے قریش سے ہوں گے۔
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع القریش و الخلافۃ فی قریش ح ۱۸۲۱، وأصلہ فی صحیح البخاری: ۷۲۲۳،۷۲۲۲)

حالانکہ یہ اعتراض معترض کی کم علمی کا واضح ثبوت ہے کیونکہ ان دونوں صحیح حدیثوں مین تطبیق ممکن ہے۔ حدیث سفینہ سے مراد خلاف راشدہ اور خلافت علی منہاج النبوۃ ہے اور حدیث جابر سے مراد مطلق خلافت ہے۔ لہذا حدیث اول میں خلافت راشدہ بعد از ‘‘ثلاثین سنہ’’ کی نفی ہے اور دوئم میں خلافت غیر راشدہ کا اثبات لہذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اسی تطبیق کی طرف اشارہ کیا ہے حافظ ابن حجر نے فتح الباری(ج ۱۳ص۲۱۲تحت الحدیث: ۷۲۲۳) اور حافظ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی میں، اور یہی صواب ہے مزید تفصیل کے لئے ناصر الدین البانی کی کتاب السلسلہ الصحیحہ (۱؍۷۴۲۔۷۴۹حدیث۴۵۹) کا مطالعہ فرمائیں انہوں نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔

فائدہ نمبر(۲) حکیم فیض عالم صدیقی اپنی کتاب‘‘حقیقت مذھب شیعہ’’ ص ۲۴ پر لکھا ہے:
“اس موقعہ کے لئے کسی من چلے نے حدیث سفینہ گھڑی جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں درج کر کے دنیائے رفض کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ہتھیار تھما دیا۔ اس حدیث کے الفاظ ہیں خلافت تیس برس رہے گی اور پھر ملک ہو جائے گا۔۔”

فیض عالم صدیقی ناصبی صاحب کی اس عبارت پر تین اعتراضات ہیں:

نمبر (۱): یہ حدیث کسی من چلے نے گھڑی نہیں بلکہ ثقہ و صادق راوی  جناب سفینہ صحابی رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور اس ثقہ راوی سے بہت سے ثقہ راویوں نے یہ حدیث سن کر آگے بیان کر دی۔ لہذا یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔

نمبر (۲): صحیح مسلم میں کہیں بھی یہ حدیث موجود نہیں ہے۔ لہذا فیض عالم صدیقی کا یہ صحیح مسلم پر بہتان ہے۔
میں کہتا ہوں جو شخص امیر المؤمنین علی کی خلافت کو نام نہاد کہتا ہو ( دیکھئے سادات بنی رقیہ ص ۴۶) اور ثقہ امام زھری پر طعن کرتا ہو ( دیکھئے سادات بنی رقیہ ص ۱۱۳) اسے کب شرم آتی ہے کہ صحیح مسلم پر تو جھوٹ نہ بولے۔ ان لوگو ں کا اوڑھنا بچھونا ہی جھوٹ ، مغالطہ دھی اور تاریخ کی موضوع روایات پر اندھا دھند اعتماد ہے۔

نمبر(۳): میں پوچھتا ہوں کہ اس حدیث سے دنیائے رفض و کذب کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار آ گیا ہے؟ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امیر المؤمنین ابو بکر رضی اللہ عنہ اور امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ اور امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ تینوں خلفائے راشدین علی منھاج النبوۃ میں سے تھے۔ بتائیے وہ کون سا رافضی ہے جو ان خلفائے ثلاثہ کو خلفاء علی منھاج النبوۃ سمجھتا ہے؟!

بلکہ اس حدیث سے تو عقیدہ رفض کا خاتمہ ہو جاتا ہے!والحمد اللہ

وما علینا إلا البلاغ
حافظ زبیر علی زئی
(23-7-93)
یہ تحریر اب تک 45 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply