حلال جانور کے حرام اعضاء؟

تحریر : ابوعبداللہ

ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام اعضاء و اجزا ء حلال ہیں، لیکن حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔
◈ ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں :
المكروه تحريما من الشاة سيع : الفرض، والخصية، الخدة والدم المسفوح، المرارة، والمثانة، والمذاكبر۔
شاة (بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں : فرج (پیشاب کی جگہ)، کپورے، غدود، ذبح کے وقت بہنے والا خون، پتہ، مثانہ اور نر کا آلہ تناسل۔“ [العفودالدرية لابن عابدين : 56]
◈ جناب رشید احمد گنگو ہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
”سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں : ذکر، فرج مادہ، مثانہ، غدود، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں ہوتا ہے، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا ظرف ہے۔“ [تذكرة الرشيد : 174/1]
◈ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”حلال جانور کے بعض اعضاء حرام ہیں، جیسے خون، پتہ، فرج، خصیہ وغیرہ۔“ [تفسير نور العرفان از نعيمي : ص 547]
◈ یہی بات احمد رضا خان بریلوی صاحب نے کہی ہے۔ [فتاوي رضويه : 234/20]

اب ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
دلیل نمبر :

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره من الشاة سبعا : المرارة، المثانة، والحياء، والذكر، والأنثيين، والغدة، والدم۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) میں ان سات اجزاء کو مکروہ خیال کرتے تھے : ① پتہ ② مثانہ ③ پچھلی شرمگاہ ④ اگلی شرمگاہ ⑤ کپورے ⑥ غدود ⑦ خون (وقتِ ذبح بہتا ہوا)۔“ [المعجم الاوسط للطبراني : 9480]

تبصرہ :
اس کی سند موضوع (من گھڑت) کیونکہ :
➊ امام طبرانی کے استاذ یعقوب بن اسحاق کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
➋ اس کا مرکزی راوی یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی جمہور محد ثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور۔ ”اسے جمہورمحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [البدر المنير لابن لابن الملقن : 3/227]
➌ عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”متروک“ راوی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والأكثر على تضعيفه ”اکثر محدثین اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ [مجمع الزهوائد للهيثمي : 20/2]
——————
دلیل نمبر :

مجاہد بن جبر تابعی کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره من الشاة سبعا : الدم، الحياء، والأنثيين، والغدة، والذكر، والمثانة، والمراراة۔
”رسول صلی اللہ علیہ وسلم بکری (وغیرہ) سے ان سات اعضاء کو ناپسند کرتے تھے : ① خون (بوقت ذبح بہنے والا) ② شرمگاہ ③ خصیتین ④ غدود ⑤ اگلی شرمگاہ ⑥ مثانہ ⑦ پتہ۔“ [مصنف عبدالرزاق : 55/4، ح : 8771، السنن الكبري للبيهقي : 7/10]

تبصرہ :
یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے ”ضعیف“ اور باطل ہے :
➊ یہ ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔ مجاہد تابعی رحمہ اللہ ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں ۔
➋ اس کا راوی واصل بن ابی جمیل ”ضعیف“ ہے۔
اس کے بارے میں امام یحٰیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لاشيء ”یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں۔“ [الجرح التعديل لا بن ابي حاتم : 30/9، وسنده صحيح]
➌ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعيف [سنن الدارقطني : 76/3]
نیز اسے امام ابن شاہین رحمہ اللہ [الضعفاء : 666] اور حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی ضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ الثقات [7/559] کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا لہٰذا یہ ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واصل لم تثبت عدالته۔
”واصل کی عدالت ثابت نہیں۔“ [التقدير للطحاوي : 200/2]
◈ مجاہد اس روایت کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے موصول بھی بیان کرتے ہیں۔ [الكامل لابن عدي : 12/5، السنن الكبريٰ للبيهقي : 7/60]
لیکن یہ روایت بھی موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ اس کاراوی عبر بن موسی الوجہیی بالاتفاق ائمہ محدثین ”ضعیف“، ”منکرالحدیث“ اور ”متروک الحدیث“ ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ اس راوی کو ”ضعیف“ قرار دے کر لکھتے ہیں :
ولا يصح وصله۔ ”اس حدیث کا موصول ہونا دُرست نہیں۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 70]
بعض لوگوں کی یہ کل کائنات تھی، جس کا حشر قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے۔
↰ ثابت ہو کہ حلال جانور میں سوائے دم مسفوح (وقت ذبح بہتے ہوئے خون) حرام نہیں ہے۔ سات اجزاء کو حرام کہنے والوں کا قول باطل وعاطل اور فاسد وکاسد ہے کیونکہ ان کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں۔
فائدہ : جہاں تک اوجھڑی کا تعلق ہے، اس کا کھانا بھی جائز ہے، لیکن حنفیوں اور بریلویوں کے نزدیک یہ بھی مکروہ ہے :
➊ جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی کہتے ہیں :
”اوجھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔“ [مجموع الفتاوي لعبد لحي : 397/7، 29/7]
➋ جناب احمد رضا خان بریلوی کہتے ہیں :
”اوجھڑی کا کھانا مکروہ ہے۔“ [ملفوضات : جزء ص 35]
↰ بعض لوگوں نے حلال جانور میں 22 چیزیں مکروہ یا حرام قرار دے دی ہیں۔
گردے کے بارے میں جناب رشید احمد گنگوی دیوبندی کہتے ہیں :
”بعض (حنفی فقہ کی) روایات میں گردہ کی کراہت لکھتے ہیں اور کراہت تنزیہ پر عمل کرتے ہیں۔“ [تذكرة الرشيد : جزء 1 ص 147]
↰ ہم کہتے ہیں کہ اوجھڑی اور گردے کے مکروہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟
◈ جناب احمد رضا خان بریلوٰ ی لکھتے ہیں :
”ہمارے امام اعظم ابوحنفیہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ المتوفی180ھ نے فرمایا : خون توبحکم قرآن حرام ہے اور باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتاہوں۔ “ [فتاويٰ رضويه : جزء 20، ص 234]
یہ اُڑتی اُڑتی ہوا ہے۔ امام ابوحنفیہ سے یہ قول باسند صحیح ثابت کریں، ورنہ مانیں کہ یہ امام صاحب پر صریح جھوٹ ہے۔ دلائل سے تہی دست لوگوں سے ایسی باتوں کا صادر ہونا بعیداز عقل نہیں۔

الحاصل :
حلال جانور میں ذبح کے وقت بہنے والے خون کے علاوہ اس کا کوئی بھی عضو حرام یا مکروہ نہیں۔

 

یہ تحریر اب تک 32 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply