“حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں” روایت کی تحقیق

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال: ”کچھ حدیثیں ارسال کر رہا ہوں، مہربانی فرما کر اسماء الرجال کی نظر میں (تحقیق کریں کہ) یہ روایات کیسی ہیں؟
نمبر1: حضرت اُ م فضل فرماتی ہیں ایک روز میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ قربان آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے بتایا کہ میری اُمت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی ۔ جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں اسے قتل کیا جائے گا ۔ مشکوٰۃ، بیہقی فی دلائل النبوت۔
نمبر2: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے۔ حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔ مستدرک حاکم جلد 3 ص 159 (فضل حسین ، قلعہ دیدار سنگھ)
الجواب:
➊ ام الفضل بن الحارثؓ سے منسوب روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (469/6) میں بحوالہ محمد بن مصعب: حدثنا الاوزاعي عن شداد بن عبدالله کی سند سے مذکور ہے ۔ اس کی سند محمد بن مصعب کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ [اضواء المصابيح فى تحقيق مشكوٰة المصابيح: 6171]
محمد بن معصب بن صدقہ القرقسائی پر جمہور محدثین نے جرح کر رکھی ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
محمد بن مصعب القرقسانی کی اوزاعی سے حدیث مقارب (یعنی صحت و تحسین کے قریب) ہوتی ہے ۔ [مسائل ابي داؤد: 328 بحواله موسوعة اقوال الامام احمد 317/3 ، 318 ، تاريخ بغداد ج 3 ص 277 وسنده صحيح]
اس کے مقابلے میں ابوزرعہ الرازی نے کہا:
محمد بن مصعب يخطئ كثيراً عن الأوزاعي وغيره
محمد بن مصعب اوزاعی وغیرہ سے بہت غلطیاں کرتا ہے ۔ [كتاب الضعفاء لابي زرعة الرازي ج 2 ص 400]
حافظ ابن حبان نے محمد بن مصعب کی اوزاعی سے ایک روایت کو ”باطل“ کہا۔ [كتاب المجروحين 294/2]
ابو احمد الحاکم نے کہا:
روي عن الأوزاعي أحاديث منكرة
”اس نے اوزاعی سے منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔ “ [تهذيب التهذيب ج9ص 461، ولعله فى كتاب الكنٰي لأبي احمدا لحاكم]
معلوم ہواکہ قولِ راجح میں محمد بن مصعب کی اوزاعی سے بھی روایت ضعیف ہی ہوتی ہے ، اُسے ”مقارب“ کہنا صحیح نہیں ہے۔

➋ یہ روایت: حسين مني و أنا من حسين، أحب الله من أحب حسيناً، حسين سِبط من الأسباط
کے متن کے ساتھ عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن سعید بن ابی راشد عن یعلی العامری کی سند سے درج ذیل کتابوں میں موجود ہے ۔
مسند الامام احمد (172/4) و فضائل الصحابۃ للامام احمد (ح 1361) مصنف ابن ابی شیبہ (102، 103/12 ح 32186) المستدرک للحاکم (177/3 ح 4820 وقال: ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی: صحیح) صحیح ابن حبان (الاحسان: 6932، دوسرا نسخہ: 6971) المعجم الکبیر للطبرانی (33/3 ح 2589 و 274/22 ح 702) سنن ابن ماجہ (144) سنن الترمذی 3775 وقال: ”ھذا حدیث حسن ”)
اس حدیث کی سند حسن ہے ۔
اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے ۔

بوصیری نے کہا:
هذا إسناد حسن، رجاله ثقات
اس کا راوی سعید بن ابی راشد: صدوق ہے۔

حافظ ذہبی نے کہا:
صدوق [الكاشف 285/1 ت 1900]
اسے ابن حبان، ترمذی اور حاکم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے ۔
بعض الناس کا یہ کہنا کہ ”اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے“ باطل ہے۔
شیخ البانیؒ نے غلط فہمی کی بنیاد پر سعید بن ابی راشد پر جرح کرنے کے باوجود اس حدیث کو شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے اور اسے اپنی مشہور کتاب السلسلۃ الصحیحہ میں داخل کیا ہے دیکھئے (ج 3 ص 229 ح 1227)

خلاصہ التحقیق: یہ روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے ۔
والحمد للہ (20صفر 1427؁ھ)

یہ تحریر اب تک 88 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply